کیا معاملہ حل ہو گیا؟ رات گئی بات گئی؟
ٹویٹ کے بعد اس ملک میں حکومت کا وجود باقی نہیں تھا۔ جھنڈا بردار گاڑیوں کی آمد و رفت سے محض ایک واہمہ سا تھا کہ حکومت ہے۔ حکومت قوتِ نافذہ کا نام ہے۔ ریاست کا ایک ماتحت ادارہ جب سرِ عام حکومت کے موقف کو مسترد کر دے تو پھر حکومت ختم ہو جاتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس بار فریقین کو اس بات کا ادراک ہوا‘ اور اس بات کو زبانِِ حال کے ساتھ زبانِ قال سے بھی قبول کر لیا گیا۔ غلطی سے رجوع بڑائی کی علامت ہے۔ فوجی قیادت نے اس بڑائی کا مظاہرہ کیا۔ اس سے جنرل قمر باجوہ کی عزت میں اضافہ ہوا۔
خدا انہیں ہدایت دے جو معاملے کو زید اور بکر کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ زید بھی ہمارا اپنا ہے اور بکر بھی۔ جب فریقین اپنے ہوں تو غلطی کا تعین اور پھر اصلاح کی جاتی ہے۔ معاملہ آئین اور قانون کا ہے، حفظِ مراتب کا ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک حبشی غلام بھی تم پر حاکم بنا دیا جائے تو اس کی اطاعت کرو۔ یوں راہنمائی فرما دی کہ فرد اہم نہیں ہوتا، یہ منصب ہے جو توقیر کا تقاضا کرتا ہے۔ منصب پر بیٹھا آدمی اگر غفلت یا غلطی کا مرتکب ہو تو تنقید کی جاتی ہے۔ احترام اور اطاعت مگر اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔ جدید ریاست نے ذمہ داریوں کا تعین‘ اور نزاع کی صورت میں حل تجویز کر دیا ہے۔ عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، یہ سب تقسیمِ کار کا نام ہے۔ اس کو قبول کرنے ہی میں عافیت ہے۔
سول ملٹری تعلقات ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔ معاملہ وہی ہے‘ جو منیر نیازی بیان کر چکے۔ ایک دریا عبور کرتے ہیں تو ہمیں ایک اور دریا کا سامنا ہوتا ہے۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ یہ اقتدار کے ستونوں میں مفادات کے تصادم کے ساتھ ساتھ، دو بیانیوں کا تصادم بھی ہے۔ یہ بیانیے سماجی اور ابلاغی سطح پر بھی موجود ہیں۔ ریاستی ستون اپنے اپنے بیانیے کی ترویج و اشاعت کے لیے ابلاغی اداروں اور رائے سازوںکو استعمال کرتے ہیں۔ اب یہ فریقین کی ابلاغی صلاحیت کا کمال ہے کہ ایک راؤنڈ میںکون فاتح قرار پاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ''ڈان لیکس‘‘ محض ایک راؤنڈ تھا۔ مقابلہ ابھی جاری ہے۔
جمہوری معاشرے کی ایک خوبی یہ ہے کہ بات کو محدود رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ ابلاغی اداروں میں اگر فریقین کے وکلا ہوتے ہیں تو ساتھ ہی ایسے لوگ بھی شریک بحث ہو جاتے ہیں‘ جن کا تعلق کسی فریق کے ساتھ مفاداتی نہیں ہوتا۔ وہ محض میرٹ پر اپنی بات کہہ رہے ہوتے ہیں۔ ان میں ایک ''زبانِ خلق‘‘ بھی ہے جسے سوشل میڈیا کی بدولت اذنِ کلام مل چکا ہے۔ ٹویٹ کے بعد فریقین کے رویے میں اگر فرق آیا اور انہوں نے خلافِ توقع کوئی قدم اٹھایا تو اس میں سوشل میڈیا کا بھی کردار تھا۔ زید اور بکر کی حمایت سے بے نیاز لوگوں نے جس ردِ عمل کا اظہار کیا، اس نے بھی بتا دیا کہ پاکستان کے عوام اس سارے قضیے کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اس سے یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ دلیل کی بات سنی جائے اور مانی جائے۔ عامۃ الناس کو اب کسی خاص زاویۂ نگاہ کا قیدی نہیں بنایا جا سکتا۔
مجھے اس سے اتفاق ہے کہ یہ دو بیانیوں کا تصادم ہے۔ بات چل نکلی ہے تو اس کا ذکر ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ سماجی سطح پر اگر اس کی تفہیمِ نو ہو سکے تو سول ملٹری تعلقات کو اگر حل نہیں کیا جا سکتا تو سمجھا ضرور جا سکتا ہے۔ دو اداروں کی سوچ کا فرق دراصل دو بیانیوں ہی کا فرق ہے‘ جسے ہم کم فہمی کے باعث دو افراد کا اختلاف سمجھ لیتے ہیں۔ اسی سے سوال اٹھتا ہے کہ ہر آرمی چیف کے ساتھ، نواز شریف صاحب کا اختلاف کیوں ہوتا ہے؟
اس باب میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ قومی مفاد کیا ہوتا ہے؟ بہت سے سوالات وہ ہیں جو اس کے جلو میں چلے آتے ہیں۔ قومی مفاد کا تعلق کسی نظریے سے ہے یا حکمتِ عملی سے؟ قومی مفاد کوئی جامد شے ہے یا یہ حالات کے تابع ہے؟ قومی مفاد کیا ریاضی کا کوئی سوال ہے جس کا ایک ہی جواب ممکن ہے؟ کیا یہ حق کسی ادارے کے پاس ہے کہ وہ اس کا تعین کرے اور کوئی دوسرا اس سے اختلاف نہیں کر سکتا؟ اگر وہ ادارہ کسی مرحلے پر قومی مفاد کی تعبیرِ نو کرے توکیا اسے آنکھیں بند کرکے قبول کر لینا چاہیے؟ میرا احساس ہے کہ اگر ہم ان سوالات کے شافی جواب تلاش کر سکیں تو سول ملٹری تعلقات کا عقدہ بھی شاید کسی درجے میں کھل جائے۔
یہ واقعہ ہے کہ قومی مفاد طے کر نے کی ذمہ داری ابتدا ہی سے فوج نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے‘ اور کسی دوسرے کو یہ زحمت نہیں دی کہ وہ یہ بوجھ اٹھائے۔ فوج نے قومی مفاد کا تعین سکیورٹی سٹیٹ کے پیراڈائم میں کیا ہے۔ یہ اس کی مجبوری ہے۔ فوج کی تربیت جن خطوط پر ہوتی ہے‘ اس میں ہمہ گیریت نہیں ہوتی۔ اس کی تربیت کا بنیادی عنصر خارجی دشمن پر نظر رکھنی اور اس کا توڑ تلاش کرنا ہے۔ یہ معاملہ ہماری فوج کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ دنیا کی ہر فوج کا تربیتی نظام انہی خطوط پر استوار ہوتا ہے۔
فوج نے جب ایک ریاست کے تحفظ کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اور اس کے مفادات کا تعین کرنا چاہا تو اس نے قومی مفاد اور سلامتی کو خارجی دشمن کے حوالے سے دیکھا۔ یوں ریاست نے اگر معاشی پالیسی بنائی تو اسی کے تحت۔ اگر سلامتی کے بارے میں سوچا تو اسی حوالے سے۔ اس بات کو اس طرح سے سمجھا جا سکتا کہ ہمارے نزدیک اس وقت ایٹمی پروگرام ناگزیر ہو گیا جب بھارت ایٹمی قوت بنا۔ ہم نے اسی کے لیے ذہن سازی کی‘ اور قوم نے بحیثیت مجموعی اسے قبول کر لیا۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ ایک سیاسی راہنما ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ دوسرے عوامی راہنما نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کر دیے کیونکہ انہیں باور کرایا گیا کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو قوم ان کا دھماکہ کر دے گی۔
اس پس منظر میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ قوموں کی زندگی کے لیے 'فوڈ سکیورٹی‘ بھی ناگزیر ہے۔ گھاس کھانے کا اعلان تو کیا جا سکتا مگر عملاً یہ ممکن نہیں ہوتا ،اس لیے ہمیں زیادہ وسائل عوام کی تعلیم اور صحت وغیرہ پر خرچ کرنے چاہئیں۔ پاکستان میں ایسے لوگ مو جود ہیں جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ پاکستان کو ایٹم بم بنانے پر وسائل صرف نہیں کرنے چاہئیں۔ قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ فوڈ سکیورٹی کو اولیت دی جائے۔ اب اس نظریے کو قومی مفاد کے خلاف سمجھا جاتا ہے‘ کیونکہ قومی مفاد کی جو تعریف مستعمل ہے، وہ ایک ادارے نے طے کر دی ہے۔ اس میں سکیورٹی کا جو تصور قبول کیا گیا، فوڈ سکیورٹی اس میں شامل نہیں ہے۔
میں نے دیکھا کہ پاکستان میں وہ لوگ جو ہمیشہ امریکی سامراجیت کے خلاف رہے‘ جو عالمی سطح پر ایڈورڈ سعید اور نوم چومسکی کے حلقے میں رہے، انہیں صرف اس نظریے کی وجہ سے پاکستان دشمن اور امریکہ کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ اس سے بڑھ کر بھارت کا ایجنٹ بھی کہا گیا۔ یہی کچھ ڈان لیکس کے معاملے میں بھی ہوا۔ قومی ادارے نے خبر کی اشاعت کو قومی مفادکے منافی قرار دیا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس کا کوئی تعلق قومی مفاد سے نہیں ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں تھی کہ اسے اتنی اہمیت دی جاتی کہ معاملہ ایک قومی بحران کی صورت اختیار کر لیتا۔
یہ بحث اسی وقت آگے بڑھ سکے گی جب ہم ایک جمہوری سوچ کے ساتھ بحث کی حوصلہ افزائی کریں اور ہر اختلافِ رائے کو قومی مفاد سے متصادم نہ سمجھیں۔ اس کے ساتھ قومی مفاد کو اجتماعی دانش کی روشنی میں طے کیا جائے اور سب ادارے اس کا احترام کریں۔