"KNC" (space) message & send to 7575

سیکولرزم کیا ہے؟

بھارت کے مسلمان اور مذہبی جماعتیں بشمول جمیعت علمائے ہند اور جماعت اسلامی، جب یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ بھارت کو ایک سیکولر ریاست ہونا چاہیے، تو کیا وہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ بھارت کو ایک مذہب دشمن اور مذہب بے زار ریاست ہونا چاہیے؟
لفظ ہو یا اصطلاح کبھی لغت کے صفحات میں قید نہیں رہتے۔ جب وہ سماج سے متعلق ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ ہم قدم ہوکر ارتقاء کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ اصول تسلیم کیا گیا ہے کہ لفظ کا مفہوم لغت سے نہیں، استعمال سے طے ہو گا۔ لفظ کے وہی معنی معتبر سمجھے جائیں گے جو مستعمل ہیں۔ قرآن مجید نے اپنے بارے میں اعلان کیا کہ وہ ام القریٰ کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ گویا اس کے الفاظ کے وہی معانی لیے جائیں گے جو مکہ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں مستعمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ امام فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی جیسے اہلِ علم کوکروٹ کروٹ جنت نصیب کرے کہ انہوں نے اس اصول کو ایک ایسی علمی حقیقت میں بدل دیا کہ اس کا انکار، کم ازکم اہلِ علم کے لیے ممکن نہیں رہا۔ 
جنہوں نے زبان کے اس اصول کو نظر انداز کیا اور لغت سے قرآن مجید کو سمجھنا چاہا،انہوں نے اﷲ کی کتاب کوچیستان بنا دیا ۔ کوئی اس کا عبرت ناک نمونہ دیکھنا چاہے تو غلام احمد پرویز صاحب کے' مفہوم القرآن‘ کا مطالعہ کر لے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ پرویز صاحب کی اصل غلطی سنت کا بطور ماخذِ دین انکار ہے۔ پرویز صاحب کا بالاستعیاب مطالعہ بتاتا ہے کہ انہوں نے اصل ظلم قرآن مجید پر ڈھایا ہے جب انہوں نے کتاب اللہ کو ام القریٰ کی زبان کے بجائے '' لسان العرب‘‘ سے سمجھنے کی کوشش کی۔
لفظ اور اصطلاح دونوںکا معاملہ یہی ہے۔ ' تصوف‘ ایک اصطلاح ہے۔ آج تک اس کے ایک مفہوم پر اتفاق نہیں ہو سکا۔کشف المحجوب،رسالہ قشیریہ، کتاب اللمع، سب تصوف کی امہات ِکتب ہیں۔ ہرکتاب اس ا صطلاح کے متعدد معنی بیان کرتی ہے اور پھر صاحب ِکتاب اپنی ترجیح قائم کرتا ہے۔ کوئی اس لفظ کو مشتق کہتا ہے اور کوئی جامد۔ علم کی دنیا میں یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ لفظ اور اصطلاح استعمال سے طے ہوتے ہیں۔ استعمال پر سماجی تجربہ اور ماحول اثر انداز ہوتے ہیں۔ یوں نئے دور اور نئے ماحول میں الفاظ و اصطلاحات نئے پیرہن اوڑھ لیتے ہیں۔
سیکولرزم کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ یورپ میں کلیسا جب امور ِریاست میں دخل انداز ہوا تو اس سے مسائل نے جنم لیا۔پادریوں کے کہنے پر عوام کی زندگی اور موت کے فیصلے ہونے لگے۔ یہی نہیں، اہلِ مذہب انسان کے علمی و فکری ارتقا میں حائل ہونے لگے۔سائنسی دریافتوں پر مذہبی عدالتوں میں مقدمات قائم ہوئے اورلوگوں کو سنگین سزائیں دی گئیں۔ غور کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے کہ ریاست اور سماج کو اگراہلِ مذہب کے تسلط سے آزاد نہ کیا گیا تو دونوں کا ارتقاء رک جائے گا۔ نہ ریاست آگے بڑھ سکے گی اورنہ سماج۔ یوں ریاست کو مذہب کے جبر سے آزاد کرانا ''یورپی سیکولرزم ‘‘کہلایا۔
امریکہ کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔تاریخی اعتبار سے انہیں کسی مذہبی جبر کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کی خانہ جنگی نے انہیں اس نتیجے تک پہنچایا کہ ایک مضبوط اجتماعی نظام ، اس اضطراب سے نکلنے کے لیے ناگزیر ہے۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں ریاست اتنی مضبوط نہ ہو جائے کہ فرد کے ذاتی رجحانات اور خیالات اس کی زد میں آ جائیں۔ریاست اتنی توانا نہ ہو جائے کہ وہ فرد کے مذہب اور نظریے کے بارے میں فیصلہ کرنے لگے جیسے اشتراکیت کے ماڈل میں ہے۔ یوں فرد کی مذہبی آزادی کو باقی رکھنا اور مذہب کو ریاست کے جبر سے آزاد کرنا، '' امریکی سیکولرزم‘‘ کہلایا۔ 
انڈونیشیا مسلم اکثریتی ملک ہے لیکن وہاں غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد بھی آباد ہے۔اب اہلِ علم کوسوچنا پڑاکہ ریاست نے شہریوں میں کیسے یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔بیسویں صدی میں انسان کا فکری ارتقا اب اس درجے پر ہے کہ وہ کسی ایسے ریاستی بندوبست کو قبول نہیں کرتا جو رنگ و نسل یا مذہب وخیال کی بنیاد پر شہریوں میں عدم مساوات کا قائل ہو۔ یوں نور خالص مجید جیسے اہلِ علم نے 'اسلامی سیکولرزم‘ کا تصور پیش کیا۔ 
ایک اور تجربہ تیونس میں ہو رہا ہے۔اسلامی تحریک 'النہضہ ‘کے راہنماراشد غنوشی نے بھی مسلم ڈیموکریٹس کے تصور کو اپناتے ہوئے جو سیاسی جماعت بنائی ہے،اس میں بھی مذہب کو سیاسی عمل سے الگ کر دیا ہے۔وہ بھی سیکولرزم کے حامی ہیں۔اب تو ان کے خیالات لوگوں کے لیے اجنبی نہیں رہے۔ایک ماڈل ترکی کا بھی ہے۔طیب اردوان صاحب کی جماعت سیکولرزم کو بطور اصول مانتی ہے۔ان کا یہ سیکولرزم ان کی اسلامی شناخت سے متصادم نہیں ہے۔راشد غنوشی اور اردوان تو ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں،جن کے راسخ العقیدہ مسلمان ہونے میں کسی کو شبہ نہیں۔ 
بھارت کے مسلمان اور مذہبی جماعتیں سیکولرزم کو ایک مذہب یا آئیڈیالوجی کے بجائے ایسے ریاستی نظام کے طور پردیکھ رہی ہیں جس میں ریاست لوگوں کی مذہبی آزادی میں حائل نہیں ہوتی۔ان کے نزدیک سیکولرزم اس تصور کا نام ہے کہ ریاست مذہب کے باب میں غیر جانب دار ہو جائے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ بھارت کو ایک سیکولر ریاست بنانے کا مطالبہ کیوں کرتے؟ان کو یہ خوف ہے کہ ریاست کہیں اکثریتی مذہب کی راہ پر نہ چل نکلے ۔اس کا ناگزیر نتیجہ یہ ہوگا کہ اقلیتوں کے لیے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنا مشکل ہو جائے گا۔ اس خوف کوکسی طرح بے بنیاد نہیں کہا جا سکتا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مو لانا وحیدا لدین خان اورجماعت اسلامی اس باب میں یک زبان ہیں۔
سیکولرزم کے مفاہیم کا یہ تنوع بتا رہا ہے یہ تصور کب کا اس مفہوم کی قید سے رہا ہو چکا جو لغت میں بیان کیا گیا یا جو یہ اصطلاح تراشنے والوں کے سامنے تھا۔تعامل اور سماجی عمل کے نتیجے میں،اس کے بہت سے مفاہیم رائج ہو چکے۔سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔بصورتِ دیگر یہ ماننا پڑے گا کہ بھارت کی جماعت اسلامی یا جمعیت علمائے اسلام ایک اسلام دشمن نظریے کے نفاذ یا لادینیت کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
پاکستان میں سیکولرزم سے کیا مراد ہے؟ یہ ہے وہ اصل سوال جو اس ملک کے اہلِ دانش کو درپیش ہے۔ہمیں اس کو بھارتی مسلمانوں کی طرح اپنالبادہ پہنانا ہے یا موجود ملبوسات میں سے کسی ایک کا انتخاب کر نا ہے ؟اس ضمن میں ہمیںچند حقائق کو سامنے رکھنا ہوگا۔ایک یہ کہ پاکستان میں مسلم آبادی کا تناسب کم و بیش ستانوے فی صد ہے۔دوسرا یہ کہ آئینِ پاکستان میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا جو جمہوری اصولوں کے مطابق اختیار کی گئی ایک دستاویز ہے۔تیسرا یہ کہ ہم پاکستان کو ایک قومی ریاست بھی مانتے ہیں جس میں مذہبی امتیاز قابلِ قبول نہیں۔چوتھا یہ کہ مذہبی تعبیرات کے باب میں اہلِ اسلام میں اختلاف مو جود ہے۔پانچواں یہ کہ انسان کا فکری ارتقا اسے ایسی جگہ لے آیا ہے جہاں ریاست شہریوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھ سکتی۔ 
یہ چند حقائق ہیں جنہیں سامنے رکھتے ہوئے،ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ پاکستان میں مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کو کیسے سمجھا جائے۔میرا احساس ہے کہ ہمارے مذہب پسند اور سیکولر دونوں فکری پراگندگی کاشکار ہیں۔اگر ہم بحث کو مقامی، علمی اور عملی بناسکیں تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہوگی۔ورنہ ایک بے نتیجہ مناظرہ بازی ہوتی رہے گی اور نظری بُعد بھی بڑھتا رہے گا۔ سوال سیکولرزم کا نہیں،مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کاہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں