تنقید ایک مثبت قدر ہے۔ یہ فکری ارتقا کو مہمیز دیتی ہے۔ یہی تنقید اگر شوق بن جائے تو صرف ابہام پیدا کرتی ہے۔ ایک مرحلہ شوق سے آگے کا بھی ہے۔ کوئی نفسیاتی گرہ ہے جو آپ کو تنقید پر مائل کرتی ہے۔ اس مرحلے پر تنقید اخلاقیات سے غیر متعلق ہو جاتی ہے۔ یہاں تنقید تنقیص میں ڈھلتی اور تہمت کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے۔ بالعموم اس کی اساس تعصب پر ہوتی ہے، لاعلمی جس کی جڑواں بہن ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے مظاہر مذہبی لٹریچر میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ وہ مذہب جس کا اصل مخاطب انسان کا اخلاقی وجود ہے۔ جو آیا ہی تزکیہ نفس کے لیے ہے۔
حسنِ ظن تو ایک اعلیٰ انسانی قدر ہے، جس کا اس وقت ذکر نہیں۔ یہ میسر آ جائے تو کیا کہنا۔ یہاں تو زیرِ تنقید افراد سے وہ وہ باتیں منسوب ہوتی ہیں جو ان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں ہوتیں۔ افسوس اس کا ہوتا ہے کہ غلطی کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی کوئی رجوع نہیں کرتا۔ یہی نہیں، اصرار ہوتا ہے۔ ہم نے مولانا مودودی کو اس کا ہدف بنتے دیکھا ہے۔ ایک معروف عالمِ دین‘ جو 1970ء میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی کے رکن بھی تھے، کی دعوتی ترجیحات میں سرِ فہرست مولانا مودودی کا رد تھا۔ ایک مرتبہ خود انہی کے حلقے کے لوگوں نے انہیں توجہ دلائی کہ آپ جوشِ تنقید میں حدود کا لحاظ نہیں رکھتے۔ جواباً فرمایا: آپ لوگوںکو میری خدمات کا اندازہ نہیں، اگر میں یہ رویہ نہ رکھوں تو مودودی تمہارے نوجوانوں کو ہانک کر لے جائے۔ یہ روایت ایک راوی نے بہت سے لوگوں کی موجودگی میں بیان کی۔ مجھے ان کی ثقاہت پر رتی برابر شبہ نہیں۔
بہت سے لوگ یہ کام حسنِ نیت کے ساتھ کرتے ہیں، جیسے مذکورہ مولانا نے کیا۔ وہ اپنی دانست میں لوگوں کو ایک فکری فتنے سے بچانا چاہتے ہیں۔ ایک 'نیک مقصد‘ کے لیے لوگ اخلاقی حدود کے بارے میں حساس نہیں رہتے اور اسے جائز بھی سمجھتے ہیں۔ محدثین نے جب صحتِ حدیث کو موضوع بنایا تو وضع حدیث کے محرکات کا بھی جائزہ لیا۔ ان کا طے کردہ ایک اصول یہ ہے‘ جس روایت میں کسی چھوٹی نیکی کا بڑا اجر اور چھوٹی برائی کی بڑی سزا بیان ہو، وہ موضوع ہے۔ لوگوں کو نیکی کی طرف مائل کرنے اور برائی سے روکنے کے لیے 'فضائلِ اعمال‘ کی روایات گھڑی گئیں۔ یہ ایک نیک مقصد تھا مگر اس نے امت میں فتنے کا دروازہ کھول دیا۔ آج لوگ اس بے تکلفی سے ایسی مذہبی روایات منسوب کر دیتے کہ ان کی جرات پر آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ مجھے لوگوں کے اس فہمِ دین پر حیرت رہی کہ ایک اخلاقی قدر کی پامالی سے بھی دین کی خدمت ہو سکتی ہے۔
مناظرے کی روایت بھی اسی حمیتِ دین کے جذبے سے پھوٹی۔ اس کے نتیجے میں حمیتِ مسلک، حمیتِ دین کا مترادف قرار پائی۔ یہ تنقید کی بد ترین صورت تھی جس نے تنقید کو اخلاقیات سے جدا کر دیا۔ اس کے نتیجے میں لوگوں میں حق کے بجائے مسلک اور گروہ کی عصبیت پیدا ہوئی۔ ایک خاص نقطۂ نظر یا مسلک کے دفاع کو دین کی خدمت سمجھا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امت گروہوں میں بٹ گئی۔ اسی رویے کی انتہا یہ تھی کہ تعبیر اور تاویل کے اختلاف کو کفر‘ اسلام کا مسئلہ بنا دیا گیا۔ مساجد تک فرقوں میں تقسیم ہو گئیں‘ جن کے بارے میں قرآن مجید نے بتایا تھا کہ وہ مسلکوں کے لیے نہیں، اللہ کے لیے ہوتی ہیں۔
علم کا معاملہ یہ ہے کہ ہر آدمی اس میں رسوخ نہیں رکھتا۔ بطورِ خاص مذہبی علم میں۔ اُس کی مجبوری ہے کہ وہ کسی صاحبِ علم پر اعتماد رکھے اور دین کے باب میں اس کی بات کو درست مانے۔ یہ منصب بڑی حد تک ان رائے سازوں کو بھی منتقل ہو گیا ہے جو ابلاغی اداروں میں بیٹھے اور مذہبی موضوعات پر کلام کرتے ہیں۔ لوگ ان کی کہی اور لکھی بات پر اعتماد کرتے ہیں، جیسے ایک عالم دین کی شہرت رکھنے والے کی بات پر۔ ایسے لوگوں کی ذمہ داری زیادہ ہے کہ وہ رائے دیتے وقت تحقیق کا حق ادا کریں۔ تنقید کرتے وقت وہ اس بات کی شعوری کوشش کریں کہ کسی فرد یا گروہ کی طرف کسی نظریے یا خیال کا انتساب کرنے سے پہلے، انہوں نے تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا میں تنقید کی روایت آگے بڑھ رہی ہے۔ اس بحث میں ایسے لوگ شریک ہیں جو تنقید کی اخلاقی حدود کا خیال رکھتے ہیں۔ بہت سے مگر ایسے بھی ہیں جو سنی سنائی باتوں پر مقدمہ کھڑا کرتے اور پھر ایک مفتی کی طرح فتویٰٰ بھی صادر کرتے ہیں۔ ایک گروہ تو وہ ہے جو تنقید کے شوق میں مبتلا ہے۔ وہ دوسروں کے منہ میں اپنی بات ڈالتا اور پھر تنقید کا شوق پورا کرتا ہے۔ اسی شوق کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ دوسروں کی بات کو صحیح طرح سے سمجھا نہیں جاتا۔ عجلت انہیں اس کا موقع نہیں دیتی۔ حسنِ ظن، میں عرض کر چکا کہ اب قصہ پارینہ ہے۔
میں جانتا ہوں کہ اس طرزِ عمل کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ آج کے دور میں تو یہ مشکل تر ہے۔ اب دوسروں کی کتابوں اور خطبوں تک لوگوں کی رسائی آسان ہو گئی ہے۔ آج کسی کی طرف ایسی بات کا انتساب آسان نہیں جو اس نے نہ کہی ہو۔ الا یہ کہ کسی کے مرید ہوں اور وہ اپنے شیخ کی ہر بات کو حرفِ آخر سمجھتے ہوں۔ شیوخ کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اپنے مریدوں کو اپنے ساتھ وابستہ رکھنا ہے۔ میں نے دیکھا کہ بہت سے نیک لوگ بھی غیر محسوس طریقے سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ان کے حلقے سے وابستگی ہی خدا کے ساتھ وابستگی ہے۔ یوں وہ عصبیت‘ جو دین کے لیے ہونی چاہیے‘ کسی فرد یا گروہ کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ میں اس بات کو سمجھ سکتا ہوں کہ مجھ پر ایک بڑا عرصہ اسی کیفیت میں گزرا ہے۔ آدمی کو پتا نہیں چلتا اور یہ خیال دل و دماغ کا مکین بن جاتا ہے۔
رائے ساز لوگوں کی اخلاقی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہے۔ سیاست ہو یا مذہب، سچ تو ہر معاملے ہی میں بولنا چاہیے، کم ازکم واقعات کے بیان میں یا کسی سے کوئی بات منسوب کرتے وقت۔ رائے البتہ ہر کسی کی اپنی ہے اور اس میں اختلاف میں کوئی عیب نہیں۔ مذہب کا معاملہ میرا خیال ہے کہ نازک تر ہے، بالخصوص دوسروںکے ایمان اور عقائد کو بیان کرتے وقت۔ ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم کسی نقطہ نظر کو غلط کہیں۔ یہ حق مگر ہمیں نہیں ہے کہ ہم بغیر دلیل کسی پر ایک خیال چسپاں کریں اور پھر اس پر فتویٰ لگائیں۔ اس سے جو سماجی رویہ بنتا ہے وہ بے ا حتیاطی کا ہے۔ مذہب کے باب میں بے احتیاطی کا خمیازہ جتنا ہم نے بھگتا ہے، شاید ہی کوئی معاشرہ اس طرح اس کا نخچیر بنا ہو۔
یہ بے احتیاطی ہی ہے جس نے آج سوشل میڈیا ہر پابندی کا جواز پیدا کر دیا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ تنقید کا شوق ہمیں ایسی جگہ نہ لے جائے جہاں ہم اظہارِ رائے کے جائز حق ہی سے محروم ہو جائیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر تنقید کو شوق کے بجائے، ایک ذمہ داری سمجھتے ہوئے اختیار کیا جائے تو اس کے باعثِ خیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ یہ صحت مندانہ تنقید ہی ہے جو سماج کو فکری اور نظری اعتبار سے زندہ رکھتی ہے۔ مذہب تو معاملہ ہی اخلاق اور ذمہ داری کا ہے۔ مذہب اس احساس کے سوا کیا ہے کہ میں اپنے اعمال کے لیے اپنے رب کے حضور میں جواب دہ ہوں۔