شیعہ سنی کے بعد،اب مشرق ِ وسطیٰ کو ایک نئی تقسیم کا سامنا ہے۔کیا ہم حسبِ روایت اس تقسیم کو بھی اپنی سرزمین پرخوش آ مدید کہیںگے؟
سعودی عرب کے قطر سے دو بڑے مطالبات ہیں:ایران سے قطع تعلق اوراخوان المسلمین کے خلاف اقدام۔مطالبات اور بھی ہیں مگر ضمنی۔پاکستان کے لیے اس کے کئی طرح کے مضمرات ہو سکتے ہیں۔یہ امکان مو جود ہے کہ ایران اور اسلامی تحریکوں سے تعلق ِ خاطر رکھنے والے ایک طرف ہو جائیں اور سعوی عرب کو اسلام کا تنہانمائندہ قرار دینے والے ایک طرف۔بعض گروہی مفادات کے تحت یہ لوگ ہمیں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بھی دکھائی دیں گے لیکن یہ جاننا مشکل نہیں کہ اندرونِ خانہ کیا کیا ہنگامے ہیں۔بات اگر آگے بڑھتی ہے تو اس کا اظہار سڑکوں پر بھی ہوسکتا۔کیا ہم اس کو روک پائیں گے؟
اخوان المسلمین بطور تنظیم دہشت گردی کے کسی واقعے میں ملوث نہیں رہی۔تاہم یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جسے الجزیرہ نے اپنے ایک تجزیے میں'سیاسی اسلام‘ کا عنوان دیا ہے۔سیاسی اسلام کی پہلی نسل نے ، مشرق ِوسطیٰ میں جس کی نمائندگی اخوان المسلمین بطور تنظیم کرتی ہے، اپنی جدو جہد کے لیے پر امن ذرائع ہی پر اکتفا کیا۔تاہم اس تعبیر کی علم بردار جو دوسری نسل سامنے آئی ہے،اس نے تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔فکری ماخذ کی یکسانیت سے ان دو نسلوں کے نمائندوں کو الگ کر نا مشکل ہو گیا ہے۔جب اخوان اور القاعدہ، دونوں تنظیموں کے راہنما یہ دعویٰ کریں کہ ان کے فکری ماخذ سید قطب کے افکار ہیں،تو اس سے پیچید گی پیدا ہوتی ہے ۔اسی کے زیر ِ اثر سعودی عرب اور قطر میں بھی نزاع پیدا ہو رہا ہے۔
میرا خیال ہے کہ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کو اس تفریق پر سنجیدگی سے غور کر نا چاہیے۔اخوان میں سے کچھ لوگوں نے جب تشدد کو بطور حکمتِ عملی اختیار کیا تو اس تنظیم سے وابستہ بعض اہلِ علم اور راہنماؤںنے اس کی مزاحمت کی۔اس تنظیم میں شیخ محمد الغزالی اور یوسف القرضاوی جیسے اہلِ علم شامل ہیں۔مصر میں جب مذہبی اورسیکولر لوگوں نے مل کر 'الوسطیہ‘ کے نام سے ایک 'قومی فورم ‘ تشکیل دیا تو اس میں شیخ الغزالی اوریوسف القرضادی بھی شامل تھے۔جیمز بیکر نے اپنی کتاب'پرامن اسلام‘(Islam Without Fear) میں ‘ الوسطیہ‘ کا تفصیلی تعارف کرایا ہے۔انہوں نے بعض ایسے افراد کا ذکر کیا ہے جنہوں نے تشددکا راستہ اختیار کیا اور پھر رجوع کیا۔ان کا کہنا تھاکہ وہ ابتدا میں سید قطب کے افکار سے متاثر تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے رجوع کا سبب شیخ غزالی کے خیالات کو قرارد یا۔اسی طرح شیخ قرضاوی نے فقہ الجہاد پر ایک ضخیم کتاب لکھی اور مو لانا مودودی سمیت بہت سے اہلِ علم کے تصوراتِ جہاد پر نقد کیا۔
اس فرق کو نظر انداز کرنے کے ساتھ،سعودی عرب ایک دوسرے مخمصے میں بھی گرفتار ہے۔عرب بہار کے بعد، مشرقِ وسطیٰ میں ایک جمہوری عمل کا آغاز ہو چکاہے۔اس جمہوریت سے سب سے زیادہ فائدہ اسلامی تحریکوں کو پہنچاجس کا ایک مظہر مصر کے انتخابات میں اخوان کی کامیابی تھا۔اس سے پورے مشرقِ وسطیٰ میں وہ قوتیں خوف میں مبتلا ہوگئیں جو بادشاہت کی علم بر دار ہیں۔فوجی آ مریت اور بادشاہت کی نمائندہ قوتوںنے مل کرجمہوری عمل کو روکنے کا ارادہ کیا ہے۔یہ جمہوری کلچر پیدا کرنے میں ٹی وی چینل 'الجزیرہ‘ کا اہم کردار ہے۔الجزیرہ نے عرب بہار کو آگے بڑہایا۔مصر میں جب فوجی آ مریت آئی تو اس کی سب سے زیادہ مخالفت کی۔
قطر الجزیرہ کا مرکز ہے۔مصر کی ناراضی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اخوان کی مظلومیت اور مصر کی آ مریت کو نمایاں کرنے میں اس نے موثر کردار ادا کیا۔مصر کے فوجی آ مر عبدالفتاح سیسی اس وقت عرب بادشاہوں کے سب سے بڑے اتحادی ہیں۔اب اگر اخوان کے لوگ قطر میں رہیں گے،الجزیرہ بھی ہوگا اورساتھ ایران کے ساتھ تعلقات بھی بر قرار رہیں گے تواس کے دوررس نتائج اس نظام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں جو بادشاہت اورمطلق العنان طرزِ حکمرانی سے عبارت ہے۔یہی وہ خدشہ ہے جس کا دروازہ ابھی سے بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سعودی عرب نے وقت کے دھارے سے مخالف سمت میں تیرنے کا فیصلہ کیاہے۔جمہوریت کا راستہ روکنا اب ممکن نہیں۔القاعدہ اور داعش جیسے تنظیمیں وہیں پنپتی ہیں جہاں جبر ہو تا ہے۔حال ہی میں سامنے آنے والے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ داعش کے حق میں سب سے زیادہ ٹیوئٹ سعودی عرب سے ہوئے ہیں۔سعودی عرب کو داخل میں پنپنے والے ہنگاموں کو سمجھنا ہو گا۔ریاست کی قوت کے بے رحمانہ استعمال سے اگر جمہوریت کا راستہ روکا گیا تو پر تشدد تحریکیں جنم لیں گے۔یہ مصر میں ہوچکا۔یہی شام اور عراق میں ہوا۔عارضی طور پر تو اس تبدیلی کے سامنے بند باندھا جا سکتا ہے مگرتادیر نہیں۔صدر ٹرمپ نے سعودی عرب میں ہر بات کی لیکن جمہوریت کے حق میں ایک لفظ نہیں کہا۔اس سے بھی اندازہ ہو جانا چاہیے کہ ٹرمپ کسی خیر کی تلاش میں نہیں،اپنے مفادات کی آب یاری کے لیے یہاں آئے تھے۔
دوسری طرف ایران ہے جو پاپائیت کی زد میں تھا۔وہاں چونکہ ایک حد تک عوام کو بھی سیاسی عمل میں شریک کیا گیا تھا،اس لیے ایران کا سماج واضح طور پر ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے ا ور جمہوریت کی طرف بڑھتے ہوئے پاپائیت کے اثرات سے نکل رہا ہے۔ اس کا مفہوم میرے نزدیک یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ایران سماجی طور پر مستحکم ہو گا اور سعودی معاشرہ دن بدن عدم استحکام اور اضطراب کی طرف بڑھے گا۔سعودی قیادت لمحہ موجود میں اس کا ادراک نہیں کر رہی۔
بطور پاکستانی ہمیں اس قضیے کو دو پہلوؤں سے دیکھنا ہے۔ایک یہ کہ ہم اس کا درست تجزیہ کریں۔ ایک ریاست کی حیثیت میں سب فریقوں کو وہ مشورہ دیں جو ان کے حق میں بہترہے اور فریق بننے سے گریز کریں۔ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کو اس تصادم سے دور رہنے کی تلقین کریں۔انہیں یہ درس دیں کہ وہ ملک کی فضا کوخارجی مسائل سے آلودہ نہ ہو نے دیں۔
اس کے ساتھ ہمیں امتِ مسلمہ کے تصور کو بھی درست تناظر میں سمجھنا ہوگا۔اسلام ایک روحانی وحدت کا نام ہے۔اس پہلو سے مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔جہاں تک سیاسی مفادات کا تعلق ہے تو انسانوں کے مابین وحدت کی اساس لازم نہیں کہ مذہب ہو۔مشرقِ وسطیٰ کے حالات سے واضح ہے۔بعض اوقات ایک خارجی خطرہ عصبیت کے ایک وسیع تر تصور کو جنم دیتا ہے۔ جب یہ خطرہ ٹل جاتا ہے تو چھوٹی عصبیتیں باہم دست وگریباں ہونے لگتی ہیں۔مشرق وسطیٰ میں پہلے شیعہ سنی عصبیتیںحالتِ تصادم میں تھیں۔ اب دوسنی ریاستیں برسرِ پیکار ہیں۔بدقسمتی سے اس عمل کو ہمارے ہاں سمجھنے کی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی۔عام آ دمی مسلمانوں کے اختلافات پر دل جلاتا رہتا ہے یا پھر خلافت کا عَلم اٹھا لیتا ہے۔
ہمیں پاکستان کے تناظر میں سوچنا ہے۔دوسروں کے ساتھ ہمارا رشتہ باہمی مفاد اور خیر خواہی پر مبنی ہو نا چاہیے۔ایک قومی سوچ لازم ہے جو پاکستان کو اجتماعیت کی اساس مانتے ہوئے،اپنے مفادات کی آب یاری کرے۔پاکستان ،سب پر واضح ہے کہ ایک جغرافیے کا نام ہے۔امتِ مسلمہ اس وقت سیاسی نہیں، روحانی و مذہبی وحدت کا نام ہے۔ یہ سیاسی وحدت بھی بن سکتی ہے۔اس کی ایک صورت وہ ہے جو علامہ اقبال نے تجویز کی۔سب مسلمان ریاستیں پہلے مرحلے میںاپنی ذاتی خودی کو مستحکم کریں۔ اس کے بعد ان کے مابین اقوامِ متحدہ کی طرز پر مفاداتی وحدت بھی وجود میں آ سکتی ہے۔اس کے علاوہ بھی کوئی حل تجویز کیا جا سکتا ہے۔تاہم لازم ہے یہ خود شکستگی پر مبنی نہ ہو جیسے القاعدہ یا داعش کا ماڈل ہے۔