''حسین نواز کی تصویر کا فائدہ کس کو ہوا؟شریف خاندان کو۔پس ثابت ہوا کہ یہ تصویر حکومت نے خود جاری کروائی ہے‘‘۔
لوگ نہیں جانتے کہ استخراجی منطق (Deductive Logic)کا دور گزر چکا۔ارسطو کی منطق اب مدارس میں باقی ہے یا کتابوں میں۔ہفتہ دس دن میڈیا پر اس کا غو غا رہا۔یہاں تک کہ جے آئی ٹی نے ایک فرد کی نشا ن دہی کردی۔نام نہیں بتایا لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا۔عوام اب جانتے ہیں کہ گم نام کون ہوتا ہے۔ مجھے بھی اس سے نہیں،استخراجی منطق سے دلچسپی ہے جو اکثر پیش کی جا تی ہے۔لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ فلاں واقعے کا فائدہ کس کو پہنچا؟ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ وہ ذمہ دار ہے جس کو فائدہ پہنچا۔اب اس منطق کا اطلاق ذرا عام زندگی پر کیجیے:
قتل ہونے والے مال دارباپ کا فائدہ کسے پہنچا؟اکلوتے بیٹے کو۔اس منطق کی روسے لازم ہے کہ بیٹا ہی قاتل ہے۔پر اسرار حالات میں مر جانے والے شوہر کا فائدہ بیوہ کو پہنچا۔پس لازم ہے کہ بیوی موت کی ذمہ دار ہے۔اسی منطق کا اطلاق کرتے ہوئے لوگوں نے زرداری صاحب کو بے نظیر کے قاتلوں میں شمار کیا کہ اس کا فائدہ انہیں پہنچا۔ یہ منطق مان لی جائے تو معاشرے کا نظم قائم رکھنا مشکل ہو جا ئے۔ زندگی منطق کے اصولوں پر نہیں چلتی۔ یہاں ہر واقعہ انفرادی تجزیے کا تقاضا کرتا ہے۔ عالم کے پروردگار سے بڑھ کر اس بات سے کون واقف ہوسکتا ہے جو اس ذہن کا خالق ہے جس میں تصورجنم لیتا اور منطق کا صغریٰ کبریٰ ترتیب پاتا ہے۔اﷲ نے آخرت میں جزا و سزا کو انفرادی رکھا ہے۔اس لیے ظاہر میں اعمال کی یکسانیت سے یہ لازم نہیں کہ انجام بھی ایک ہو۔کیا معلوم کسی کے نزدیک عمل کا محرک کیا ہے؟
اﷲ کے رسولﷺ نے اس کی شرح فرمائی۔بہت سے سخی جہنم کی نذر ہوں گے اور بہت سے مہاجر بھی۔اس لیے کہ ان کی سخاوت شہرت وناموری کے لیے تھی اوران کی ہجرت بھی کسی خاتون یا دنیاوی مفاد کے لیے۔معاملہ استخراجی منطق کا ہوتا تو سب سخی جنت میں جاتے اور سب مہاجر بھی۔اس سے مراد یہ نہیں کہ یہ منطق ہمیشہ غلط ہوتی ہے۔کبھی درست بھی ہوسکتی ۔کہنا یہ ہے کہ زندگی ریاضی کے فارمولے کے تابع نہیں ہو تی۔ یہاں واقعات کو انفرادی حیثیت میں دیکھنا چاہیے۔جب یہ معلوم ہو گیا کہ تصویر کا محرک حکومت نہیں کوئی اور ہے تواس کو مان لینا چاہیے ، بالکل ایسے ہی جیسے طارق فضل صاحب نے کہہ دیا کہ ایمبولینس انہوں نے بھیجی تھی تو کوئی وجہ نہیں کہ جے آئی ٹی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
جے آئی ٹی کا کام شروع ہو نے کے بعد بہت سے واقعات ہو چکے۔انہوں نے تفتیشی عمل کے گرد شکوک کا جال بُن دیا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہر بات کا الگ سے ،اس کی انفرادی حیثیت میں جائزہ لیا جا ئے۔اس کے بعد اگر نتائج میں یکسانیت ہے تو پھر استخراجی منطق کا اطلاق بھی کیا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر رجسٹرار کا ایک ادارے کے ذمہ دار کو فون کرنا اور یہ کہنا کہ اگلی ہدایت وٹس ایپ پر دی جائے گی،اس کا کیا مفہوم ہو سکتا ہے؟ ہر معاملہ شفاف اور قانون کے مطابق ہے تو ہدایات تحریراً یا اعلانیہ کیوں نہیں دی گئیں؟کیا ماضی میں اس طرح کے کسی واقعے کی نظیر موجود ہے کہ 'اب تم اگلی ہدایت کا انتظار کرو اور یہ فلاں ذریعے سے تم تک پہنچے گی‘ یہ سن کر کیا ذہن میں کسی ناول یا کسی فلم کا خیال نہیں آتا؟ جیسے گاڈ فادر؟
مجھے اس منطق سے اتفاق نہیں ہے کہ وزیر اعظم کا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا اس منصب کی توہین ہے۔ تاہم یہ لازم ہے کہ ایسا اسی وقت ہو نا چاہیے جب یہ ناگزیر ہو۔ میں حسنِ ظن رکھتا ہوں کہ حسین اور حسن سے کئی دنوں اور کئی گھنٹوں کی تفتیش کے بعد بھی وزیر اعظم کی پیشی کی ضرورت باقی تھی۔ جمہوری نظام میں وزیراعظم قادرِ مطلق نہیں ہوتا۔ وہ ایک نظام کا حصہ ہوتا ہے۔ وہ نظام جو اسے وزارتِ عظمیٰ کا منصب عطا کرتا ہے، اگر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسے کسی عدالتی حکم کے تحت کسی فورم میں پیش ہو نا ہے تو اسے جانا چاہیے۔ تاہم اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔کیا صرف وزیراعظم اس نظام کا حصہ ہے؟ کیا دوسرے ادارے نہیں؟کیا عدلیہ، انتظامیہ، اس نظام کا حصہ نہیں ہیں؟ کیا یہ نظمِ ریاست ان کی حدود کا بھی تعین کر تا ہے؟ اگر کرتا ہے تو کیا وہ بھی اس کا لحاظ رکھتے ہیں؟وزیراعظم کوضرور پیش ہونا چاہیے اور با وقار انداز میں۔ بہتر ہے کہ ن لیگ کے کارکنوں کو اس سے دور رکھا جائے۔
لوگ ماضی کے اوراق پلٹتے اورامیر المومنین کی کہانی بیان کرتے ہیں۔وہ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کہانی میں ایک نہیں، دو کردار ہیں: ایک امیر المومنین اور دوسرا قاضی۔اگر لوگ وزیراعظم میں علیؓ ابن ابی طالب کی جھلک دیکھنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ان کے پاس کوئی قاضی شریح ؒ بھی ہو۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم تاریخ سے موضوعی استفادہ کرتے ہیں۔کوئی تاریخی تبدیلی کسی فردِ واحد کی مرہوِنِ منت نہیں ہوتی۔ قرآن مجید نے صحابہؓ کی مدح میں آیات کے انبار لگا دیے۔بدر میں یوم الفرقان کے دن ،اﷲ کے رسول نے اپنے رب کے حضور میں جھولی پھیلادی۔' برسوں کی کمائی،ان تین سو تیرہ کی صورت میں تیرے حضور میں پیش کر دی ہے۔اگر یہ نہ رہے تو اس زمین پر تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا‘۔ عالم کا پروردگار یوں ہی اعلان نہیں فرماتا کہ ان قدسی صفت انسانوں کا تذکرہ میں نے تورات اور انجیل میں بھی کر رکھا ہے۔
جے آئی ٹی کا اندازِتفتیش بھی اس وقت زیرِ بحث ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح یہ ہے کہ معززعدالت تک ایسے شواہد نہیں پہنچے جو فیصلہ کن ہوں۔عدالت اس کی ضرورت محسوس کرتی ہے کہ مزید تحقیق ہونی چاہیے تا کہ عدالت پر صورتِ حال اس طرح واضح ہو کہ وہ یکسو ہو جائے۔اس کام میں معاونت کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔جے آئی ٹی کا کام کسی کو مجرم یا بے گناہ ثابت کرنا نہیں۔اسے یہ معلوم کرنا ہے کہ حقائق کیا ہیں۔عدالت نے چند سوالات بھی متعین کر دیے۔ جیسے کہ قطری شہزادے کا خط حقیقت یا واہمہ (Myth) ؟ اگر قطری شہزادہ اس خط کی تصدیق کر دیتا ہے تو اس سوال کی حد تک جے آئی ٹی کا کام ختم ہو جا تا ہے۔اب تاثر یہ ملتا ہے کہ جیسے جے آئی ٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ شریف خاندان کو مجرم ثابت کرنے کے لیے شواہد جمع کرے۔
تفتیش کے اس طریقہ کار نے سماجی سطح پر ایک تقسیم کو جنم دیا ہے۔ایک طرف حکومت ، ن لیگ ، میڈیا کا ایک اقلیتی گروہ اور اس کی اتحادی سیاسی قوتیں ہیں اور دوسری طرف عدلیہ، چند ریاستی ادارے، میڈیا اور نواز مخالف سیاست دان ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جنہوں نے جے آئی ٹی کو مسترد کر دیا تھا یا جو اسے ناقابلِ بھروسہ کہہ رہے تھے،،وہ بھی اب جے آئی ٹی کے وکیل بن گئے ہیں؟سوال یہ ہے کہ ان کی رائے میں یہ تبدیلی کیوں آئی؟جے آئی ٹی یا عدالت سے انہیں یہ تاثر کیوں ملا کہ یہ نواز مخالف کوئی گروہ ہے؟
میرا یہ مقدمہ اپنی جگہ قائم ہے کہ جن لوگوں کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے،ان کے فیصلے عدالتوں میں نہیں ہوتے۔اس کے باوجود میں اس کا قائل ہوں کہ سب کوقانون کی عدالت میں پیش ہو نا چاہیے اورکسی کے خلاف اگر کوئی مقدمہ ہے تو اس کا فیصلہ انصاف کے مطابق ہو نا چاہیے۔اس عمل کو شفاف بنانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ عدالت کی غیر جانب داری باقی رہے۔