اقتدار کے ساتھ، کیا نواز شریف کی سیاست کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے؟ عدالتی اور سیاسی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوششیں کتنی نتیجہ خیز ہو سکتی ہیں؟
نواز شریف نے کرپشن کی یا نہیں، کیا اس کا فیصلہ رحمن ملک صاحب کی گواہی سے ہو گا؟ پہلے کوئی 'سحری‘ صاحب سامنے آئے۔ اب رحمن ملک۔ اسلام میں گواہی کا بھی ایک معیار ہے۔ امید ہے جے آئی ٹی نے اسے پیشِ نظر رکھا ہو گا۔شفاف احتساب کیلئے پہلے جے آئی ٹی کو اپنی صفائی دینی ہے۔ اُسے اپنے طرزِ عمل سے یہ بتانا ہے کہ وہ نواز شریف کے خلاف ثبوت جمع کرنے پر مامور نہیں بلکہ وہ عدالتِ عظمیٰ کو صحیح فیصلے تک پہنچنے میں معاون کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ تاثر اس کی ساکھ کو متاثر کرے گا کہ وہ اس معرکے میں فریق ہے۔ اس کا موازنہ کسی متاثرہ فریق سے نہیں کیا جا سکتا۔ اگر صرف ان لوگوں کی گواہیاں جمع کی جائیں گی جن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ نواز شریف کیخلاف ہیں تو اس سے وہی تاثر پیدا ہو گا جو حکومتی حلقے دے رہے ہیں۔ جے آئی ٹی کا امتحان یہ نہیں کہ وہ نواز شریف کے خلاف ثبوت جمع کر سکی ہے یا نہیں۔ اس کا امتحان یہ ہے کہ عدالت کو درست فیصلے تک پہنچنے میں، اس نے کتنی معاونت کی ہے۔
عدالت مقدمے کا فیصلہ کرے گی۔ سیاست کا فیصلہ عوامی عدالت کرے گی۔ نواز شریف کا اقتدار باقی رہتا ہے یا نہیں، اس کا تعلق عدالت کے فیصلے سے ہے۔ ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ سیاسی حرکیات کے تابع ہے۔ ان کی سیاست اسی وقت ختم ہو سکتی ہے جب موجودہ سیاسی ماحول تبدیل ہو جائے۔ اس کے لیے سیاسی حقائق کا بدلنا ضروری ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ تادمِ تحریر نواز شریف سب سے مقبول سیاسی راہنما ہیں۔ سب مانتے ہیں کہ انتخابات جیتنے کی صلاحیت آج بھی سب سے زیادہ ن لیگ کے پاس ہے۔ ووٹ بینک کے ساتھ انتخابی عمل کی تفہیم میں بھی وہ دوسروں سے بہتر ہیں۔ انتخابات جیتنا ایک آرٹ ہے۔ یہ آرٹ روایتی سیاست دان بہتر جانتے ہیں اور ان کی سب سے بڑی تعداد ن لیگ کے پاس ہے۔ گویا سیاسی عمل کو کسی فریق کے حق میں فیصلہ کن بنانے کا انحصار دو عوامل پر ہے: ووٹ بینک اور انتخابات کا آرٹ۔ ان دو کو تبدیل کرنے کا عمل بھی محسوس ہوتا ہے کہ شروع کیا جا چکا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کے ووٹ بینک کا بڑا حصہ روایتی ہے۔ وہ لوگ جو پاکستانی کلچر کے نمائندہ ہیں۔ یہ کلچر سماجی و مذہبی روایات سے عبارت ہے۔ مذہبی اعتبار سے ہمارا سوادِ اعظم بریلوی عقائد رکھتا ہے۔ ممتاز قادری کے خلاف مقدمے کو بنیاد بنا کر مذہبی جذبات کو نوازشریف کے خلاف ابھارنے کی کوشش کو متشکل کیا جا رہا ہے۔ انہی جذبات کی بنیاد پر ایک سیاسی جماعت تشکیل پا رہی ہے۔ اس تحریک سے وابستہ 'علما‘ اب اعلانیہ یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف اگر اس بحران کا شکار ہیں تو اس کیا سبب ممتاز قادری کی پھانسی ہے۔ 'ناموسِ رسالت‘ ایک ایسا مسئلہ ہے جو بریلوی مسلک تک محدود نہیں۔ مسالک سے ماورا، ہر مسلک کا عام مسلمان اس بارے میں حساس ہے۔ اس جماعت کی قیادت بریلوی علما کے پاس ہے لیکن اس کا اثر دیگر مسالک کے افراد تک پھیل سکتا ہے۔ اگر نظامِ مصطفی کی طرح ناموسِ رسالت کو ایک سیاسی مسئلہ بنایا جا سکا تو اس سے نواز شریف کا ووٹ بینک توڑا جا سکتا ہے۔
ماضی میں اس طرح کے حربے پیپلز پارٹی کے خلاف بھی استعمال ہو چکے۔ اسلامی جمہوری اتحاد نے اسلام میں عورت کی سربراہی کے معاملے کو جس طرح بے نظیر بھٹو صاحبہ کے خلاف اٹھایا، وہ اس طرزِ عمل کی ایک مثال ہے۔ دوسرے عامل کو نواز شریف کے خلاف استعمال کرنے کا طریقہ 'الیکٹ ایبلز‘ کو ان کے خلاف جمع کرنا ہے۔ انتخابات جیتنے کے عمل کو ایک روایتی سیاست دان سے بہتر کوئی نہیں سمجھتا۔ وہ جانتا ہے کہ پولنگ کے دن کس طرح زیادہ سے زیادہ ووٹ پول کرائے جا سکتے ہیں۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ گھر میں کون بیمار ہے اور اسے کیسے چارپائی پر ڈال کر پولنگ سٹیشن تک لانا ہے۔ یہ آرٹ جاننے والے اب تحریک انصاف میں جمع ہو رہے ہیں۔ گویا اب نواز مخالف ووٹ ضائع ہونے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ تاہم اِس وقت تک ن لیگ کی صفوں میں دراڑ نہیں ڈالی جا سکی۔ وہ اب تک امیدِ بہار میں شجر سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔
سیاسی تجزیے کا اہم موضوع یہ ہے کہ کیا یہ عوامل حسبِ منشا نواز شریف کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ ماضی میں عدالتی فیصلے، مذہبی جذبات اور الیکٹ ایبلز کے اجتماع کو مقبول سیاسی راہنمائوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں تو اس کے نتائج مثبت نکلے لیکن دوسرے مرحلے میں لوگ ان کی حقیقت سے باخبر ہو گئے اور یوں ان سے کچھ کشید نہ کیا جا سکا۔ مثال کے طور پر ضیاالحق صاحب نے بھٹو صاحب کے خلاف مذہبی جذبات کو نظامِ مصطفیٰ کے نام پر کامیابی سے استعمال کیا‘ لیکن بے نظیر بھٹو صاحبہ کے خلاف عورت کی سربراہی کا مقدمہ عوامی عدالت میں مسترد ہو گیا۔ مخالفانہ مہم کے باوجود عوام نے انہیں وزیر اعظم بنا دیا۔ اسی طرح بھٹو صاحب کے خلاف عدالتی فیصلہ نافذ ہو گیا لیکن ان کی سیاست اِس کے نتیجے میں ختم نہیں ہو سکی۔
اگر ہم تاریخ سے سبق سیکھنے پر آمادہ ہوں تو ہمیں عدالتی اور سیاسی عمل کو مصنوعی طور پر متاثر کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ عدالت کو ایک فیصلہ دینا ہے۔ یہ ایک قانونی عمل ہے جسے اپنے فطری بہاؤ کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ عدالت کے فیصلے سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ نافذ ہو جائے گا۔ سیاسی فریق اس سے اگر سیاسی فوائد کشید کرنا چاہیں تو انہیں بھی روکا نہیں جا سکتا۔ اسے عوام پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ عدالتی فیصلے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ عدالت میں ایک طرف پاناما کا مقدمہ ہے اور دوسری طرف تحریکِ انصاف کے پارٹی فنڈز کا۔ دونوں بہت اہم ہیں۔ یہ فیصلے عدالت کی ساکھ، سیاسی راہنماؤں کے مستقبل اور قومی اداروں کی شہرت پر غیر معمولی اثرات مرتب کریں گے۔ تاہم سیاسی عمل ان فیصلوں کے باوصف آگے بڑھے گا۔ میرا احساس ہے کہ اس کے فطری بہاؤ کو مصنوعی طور پر تبدیل کرنے کی کوشش ناکام ہو گی۔
اس وقت ن لیگ کی سیاسی قوت، ان کے مخالفین کو خائف کیے ہوئے ہے۔ ان کا تمام تر انحصارعدالتی فیصلے پر ہے۔ وہ اب عدالت پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔ پہلے بھی وہ یہی کہتے ہیں کہ اگر ان کا دباؤ نہ ہوتا تو یہ پیش رفت بھی نہیں ہونی تھی۔ گویا اس میں عدالت کا کوئی حصہ نہیں، یہ احتجاجی سیاست کا کمال ہے۔ اسی حکمتِ عملی کے تحت وہ عدالت سے اپنی مرضی کا فیصلہ لینا چاہتے۔ جج صاحبان کے یہ ریمارکس حوصلہ افزا ہیں کہ وہ شواہد اور قانون کے تحت فیصلہ کرتے ہیں، ٹی وی کے ٹاک شوز دیکھ کر نہیں۔ میرا خیال ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت یہ کہتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کی پشت پر کھڑی ہے تو عدالتِ عظمیٰ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ انہیں یہ تاثر زائل کرنا چاہیے کہ عدالت اس معاملے میں کوئی فریق ہے۔ سیاست ایک بے رحم کھیل ہے۔ اس میں افراد سے لے کر اداروں تک، سب کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اہلِ سیاست کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ عدالت کو سیاست میں گھسیٹیں۔ جب عدالتیں انصاف کرتی ہیں تو پوری قوم ان کی پشت پر کھڑی ہو جاتی ہے۔
اس وقت قوم کو کسی ہیجان میں مبتلا کرنا مناسب نہیں۔ عدالتی اور سیاسی عمل کو فطری طریقے سے آگے بڑھنا چاہیے۔ اگر اسے غیر فطری طریقے سے متاثر کیا گیا تو اس کا انجام کسی کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ سب سے بڑھ کر قومی مفادات اس کی زد میں ہوں گے۔