یہ اچھوتا خیال ڈاکٹر شاہد صدیقی کو سوجھا اور انہوں نے اسے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایک سیمینار کا موضوع بنا دیا۔
یہ خیال اوّلاً ایک سوال کی صورت میں نمودار ہوا کہ سوشل میڈیا نے ابلاغ کا جو نیا اسلوب متعارف کرایا ہے، وہ کیسے ایک نئے سماج کی تشکیل کر رہا ہے؟ 'ای میگزین‘ اب جرائد و رسائل کا نیا روپ ہے۔ کیا اس سے انسانوں کا زاویہ نظر بدل جا ئے گا؟ جس طرح ماضی میں رسائل نے ایک کلچر اور سماج کی تشکیل میں ایک کردار ادا کیا، کیا ای میگزین بھی انہی کی طرح ہماری تہذیبی ساخت پر اثر انداز ہو گا؟ اس سیمینار میں برادرم وجاہت مسعود اپنے ای میگزین کی ٹیم کے ساتھ مدعو تھے۔ ان کے علاوہ قاسم یعقوب بھی تھے جو اسی طرح کے ایک میگزین کے ایڈیٹر ہیں۔
وجاہت کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان میں سب سے پہلے سوشل میڈیا کو ایک تعمیری جہت دینے کی سعی کی اور اسے مقصدیت سے روشناس کرایا۔ عدنان کاکڑ اور قاسم یعقوب نے ای میگزین کے فنی پہلوئوں پر اظہار خیال کیا۔ وجاہت اور میں نے 'ٹیکنالوجی کا چیلنج اور سماج‘ کو موضوع بنایا۔ میرا احساس ہے کہ اس سیمینار نے گرہ کشائی کا کام کیا۔ شرکا کو بتایا گیا کہ کیسے دھیرے دھیرے اور خاموشی کے ساتھ، دنیا کا کلچر ایک نئی قوت کی گرفت میں جا رہا ہے۔ ہماری سماجی ساخت تبدیل ہو رہی ہے اور اکثریت اس سے بے خبر ہے۔
ڈاکٹر شاہد صدیقی صاحب نے اس سیمینار میں شرکت کی دعوت دی تو میرا دھیان فوراً ایک کتاب کی طرف گیا جو ڈیڑھ دو سال پہلے برادرم سہیل عمر نے مجھے بھجوائی تھی۔ وہی پاکستان میں اس کتاب کے ناشر ہیں۔ یہ ہے نیل پوسٹ مین کی ''ٹیکنوپولی(Technopoly)‘‘۔ یہ کتاب پہلی بار 1992ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا ذیلی عنوان اس کے موضوع کو واضح کر رہا ہے: ''ٹیکنالوجی کے ہاتھوں کلچر کی شکست‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ آج کا سب سے اہم موضوع ہے۔ سماجی تبدیلی کا ایک عمل شروع ہو چکا اور یہ کام جس قوت کے ہاتھوں ہو رہا ہے، اس کی لگام ہمارے ہاتھ میں تو یقیناً نہیں ہے، شاید کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ نیچر کی وہ بے مہار قوت ہے جس کے سامنے انسان بے بس ہے۔ کیا اس کے سامنے کوئی تہذیبی بند باندھا جا سکتا ہے؟
پوسٹ مین کا خیال ہے کہ ٹیکنالوجی نے جس طرح انسانی سماج کو متاثر کیا، اسے پیشِ نظر رکھیں تو انسان کے تہذیبی سفر کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور وہ ہے جب آلات (Tools) وجود میں آئے۔ اس عہد میں مذہب اور الہیات کا غلبہ تھا۔ اس دور میں آلات کی مدد سے کسی حد تک جسمانی مشقت کو کم کیا جا سکا لیکن بحیثیت مجموعی کلچر مذہبی اور ما بعدالطبیعیاتی تصورات ہی کے زیرِ اثر رہا۔
دوسرا دور وہ ہے جسے پوسٹ مین ''ٹیکنوکریسی‘‘ کا عنوان دیتا ہے۔ اس میں آلات نے آگے بڑھ کر انسانی نظامِ فکر پر اثر انداز ہونا شروع کیا اور یوں ٹیکنالوجی مذہب یا ما بعدالطبیعیاتی علوم کے متبادل کے طور پر سامنے آئی‘ جو انسانی افکار اور نظریات کے تعین میں بنیادی کردار ادا کر رہی تھی۔ وہ دور بین کو اس عہد کی نمائندہ مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ دور بین کی ایجاد نے ان مسیحی تعلیمات کو بدل ڈالا جو زمین کی مرکزیت کے عقیدے پر کھڑی تھیں۔ اسی سے اس خیال کو تقویت ملی کی انسان اس کائنات کا علم حاصل کر سکتا اور ایجادات کی مدد سے انسانی زندگی کو نہ صرف آسودہ بنا سکتا ہے بلکہ اپنی آزاد حیثیت میں اس کی ترقی اور ارتقا کا تصور بھی پیش کر سکتا ہے۔ اس طرح انسان کی فکری باگ مذہب یا الہیات کے ہاتھوں سے ٹیکنالوجی کو منتقل ہونے لگی۔ اس سے پہلے ترقی کا تصور مذہب یا الہیات کی عطا تھا۔
تیسرا دور وہ ہے جس سے آج کا سماج گزر رہا ہے۔ اسے پوسٹ مین 'ٹیکنوپولی‘ کہتا ہے۔ ٹیکو کریسی میں کسی حد تک مذہب یا روایت کا کردار باقی تھا۔ اس دور میں تو ٹیکنیک نے انسانی معاشرت کی باگ پوری طرح اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ 'معلومات‘ کو ایک ما بعدالطبیعاتی تصور کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ معلومات اب انسانی سرگرمی کا ذریعہ (means) بھی ہے اور مقصود End of means) ( بھی۔ اب انسانی کاوش کا حاصل ترقی نہیں بلکہ معلومات کا حصول ہے۔ وہ ترقی جو مادی ہی نہیں، روحانی بھی ہے۔
ٹیکنوپولی میں ٹیکنیک کو انسانی مہارت اور اس کی فکری صلاحیت پر برتری حاصل ہے۔ اب مرض کی تشخیص طبیب کی مہارت نہیں، مریض کی مشینی رپورٹس کر تی ہیں۔ انسانی رویے اور معاشرے کو آئی کیو ٹیسٹس، سروے یا اس طرح کے دیگر ٹیکنیکل مہارتوں سے جانچا جاتا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کلچر کی تمام صورتیں ٹیکنالوجی کے سامنے سرنگوں ہیں۔ انسانی زندگی کی معنویت کا تعین اب مشینیں اور ٹیکنالوجی کریں گی۔ کلچر کے قدیم مباحث اب بے معنی ہو چکے۔ حسنِ کارکردگی (Efficiency) اب واحد معیارِ انسانیت ہے۔ پوسٹ مین کا خیال ہے کہ اس وقت اگر کوئی معاشرہ پوری طرح 'ٹیکنوپولی‘ کہلانے کا مستحق ہے تو وہ امریکی معاشرہ ہے۔ یہ کم و بیش پچیس سال پہلے کا قیاس ہے۔ اب دیگر ممالک بھی کہیں آگے جا چکے۔
پوسٹ مین کا خیال ہے کہ ٹیکنوپولی کی اساس اس نظریے میں ہے جو 'سائنٹیسزم (Scientism)‘ کے نام سے علم کی دنیا میں معروف ہے۔ اس کے تحت سائنسی انقلاب کے بعد، یہ سماجی اور طبعی علوم کا فطری بہاؤ ہے جو انسانی رویے کی تشکیل کرے گا اور اس طرح یہ اخلاقی اتھارٹی کا متبادل بن جائے گا۔ یہ اتھارٹی اس سے پہلے مذہب یا نظامِ اقدار کے پاس تھی۔ پوسٹ مین کی تنقید یہ ہے کہ کسی سیاق و سباق سے ماورا معلومات کا وفور انسان کا رشتہ ہر طرح کی معنویت سے توڑ دے گا‘ اور ٹیکنالوجی کا یہ وہ خطرناک نتیجہ ہے‘ جو سامنے آ رہا ہے۔ اس معنویت کا تعین کلچر اور مذہب جیسی دیگر روایتی اور انسانی فکر کے حامل نظریات کرتے ہیں جن کی ٹیکنوپولی میں کوئی جگہ نہیں۔
میں اس نتیجۂ فکر سے اتفاق رکھتے ہوئے، اس کا تعلق 'پوسٹ ماڈرنزم‘ سے جوڑتا ہوں۔ اس تصور میں بھی زندگی کی معنویت کا تعین کسی نظامِ اقدار یا مذہب کو نہیں دیا جا سکتا۔ اس تصور کے تحت زندگی اپنی معنویت خود تلاش کرتی ہے اور انسان کا کام اسے قبول کرنا ہے، اسے اپنے خود ساختہ تصورات کے تابع بنانا نہیں۔ تاہم ٹیکنو پولی میں جبر کا عنصر اس طرح شامل ہے کہ اس کی نوعیت ایک طوفان کی ہے۔ وہ آ چکا اور ہم اس کے سامنے بند نہیں باندھ سکتے۔ ہمارے پاس ایک ہی انتخاب ہے کہ ہم اس کے بہاؤ میں بہتے چلے جائیں۔
سوشل میڈیا ایک طوفان ہے۔ ای میگزین اس کا رخ بدلنے کی ایک کوشش ہے یا اس طوفان کی ایک لہر؟ اگر ہم اس میں قدم رکھیں گے تو ہمارے راستے اور منزل کا تعین یہ طوفان کرے گا یا ہم اس کا رخ بدلنے کی قدرت رکھتے ہیں؟ کلچر میں کیا اتنی طاقت ہے کہ اس کے آگے بند باندھ سکتا ہے؟ کیا ہماری بقا اس جبر کے تابع ہے یا اس میں انتخاب بھی ہے؟ کیا بقا یہ ہے کہ معلومات کے اس سمندر میں اتر جائیں اور اسی کے ہو رہیں یا معلومات کو کسی کلچر کا تابع کر دیں؟
میں ان سوالات کی گرفت میں ہوں۔ میں روایت پر یقین رکھتا اور وقت کی تقسیم کا قائل نہیں۔ روایت پر اصرار کرنے والے کسی معاشرے کے لیے ان سوالات سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کچھ آشفتہ سر ہیں جو ایسے سوالات اٹھاتے اور ہمیں الجھاتے رہتے ہیں۔ ہمارے اہلِ دانش کو انہیں بھی موضوع بنانا ہو گا۔ سماجی تبدیلی کا عمل، سیاسی عمل سے بے نیاز آگے بڑھتا ہے۔ اس سے آنکھیں چار کیے بغیر بھی گزارا نہیں۔