بہت دنوں سے ایک عجیب کیفیت میںہوں۔
خیال ہوتا ہے کہ زمانہ ء قدیم کی رومی سلطنت ایک بار پھر زندہ ہوگئی ہے۔میں اس کا ایک باشندہ ہوں جوایک بڑے میدان میں کھڑا ہے۔میرے چاروں طرف تماش بینوں کا ایک ہجوم ہے۔ انسان ایک دائرے کی صورت میں جمع ہیں، جن میں ایک نقطے کی مثل میں بھی شامل ہوں۔سب پر ہیجان طاری ہے۔شور ہے کہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔سب کو بے چینی کے ساتھ اس لمحے کا انتظار ہے جب ایک قیدی کو جیل خانے سے نکال کر میدان میں لایا جا ئے گا۔پھر بھوکے شیروں کو آزاد کر کے اس میدان میں چھوڑ دیا جائے گا۔وہ اس قیدی کی طرف لپکیں گے۔پھر کیا ہوگا؟ہجوم جانتا ہے مگر اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے۔وہ آنکھیں جواس وقت نفرت کے شعلے اگل رہی ہیں۔
بظاہر اس ہجوم میں سب میرے ہم عمر یا کم از کم میرے ہم عصر دکھائی دیتے ہیں۔مجھے مگر یہ خیال ہوتا ہے کہ میرے اور ہجوم کے درمیان صدیاں حائل ہیں۔ یہ صدیاں پھرایک سوال میں ڈھل جاتی ہیں: ایسا کیوں ہوتا ہے کہ وقت سب پر یکساں طاری نہیں ہو تا ؟کبھی آدمی کھڑا رہ جاتا ہے اور لوگ آگے نکل جاتے ہیں۔کبھی لوگ آگے نکل جاتے ہیں اور وہ کھڑا رہ جا تا ہے۔دونوں صورتوں میں انجام ایک ہی ہے:آدمی اکیلا رہ جاتا ہے۔میں آج خود کو بہت اکیلا محسوس کر تا ہوں۔لوگ شاید رومی عہد میں رک گئے ہیں۔میں شاید اکیلا اکیسویں صدی میں آ نکلا ہوں۔میں اس زعم میں مبتلا ہوںکہ یہ ایک جمہوری دور ہے۔انسان نے اختلاف کے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھ لیا ہے۔اس نے غلبے کی جبلت پر قابو پا لیا ہے اور اسے ایک تہذیبی دائرے میں قید کر دیا ہے۔
پیغمبروں سے ہم کو کیا نسبت ، مگر ہمارے آئیڈیل تو وہی ہیں۔سوچتا ہوں کیسے لوگ حضرت مسیحؑ کے گرد جمع ہوںگے اور ان میں کتنا ہیجان ہو گا۔ وہ تنہائی کاکیسا اداس کر دینے والا لمحہ ہوگا جب اللہ کے رسول نے ہجوم کو مخاطب کیا اورارشاد فرمایا ہوگا؛تم میں سے پہلا پتھر وہ مارے جس نے خودکبھی گناہ نہ کیا ہو۔ سیدنا عیسیؑ عمر بھرہجوم میں تنہا رہے یا پھر بارہ حواری۔اردگرد پھیلے یہ کیسے لوگ ہوں گے جنہیں مخاطب کرتے ہوئے حضرت مسیح ؑنے فرمایا ہوگا : تم تو سفیدی پھری قبروں کی مانند ہو۔ دوسروں کی آنکھ کا تنکا دیکھنے والے ، اپنی آنکھ کے شہتیر سے بے خبر ۔ کیا میں‘ اللہ کے آخری رسول کا ایک ادنیٰ امتی بھی آج کے فریسیوں کے ہجوم میں کھڑا ہے ‘جہاں سب محتسب ہیں‘ کوئی گناہ گار نہیں؟
زوال کے دنوں میں کہتے ہیں کہ بڑی دانش جنم لیتی ہے۔غالب ہمارے عہدِزوال کی ایک نشانی ہے۔مشرقی یورپ میں بڑا ادب اس وقت پیدا ہوا جب اشتراکیت کے عفریت نے اسے تہ وبالا کر دیا۔ہر گھر ایک حادثے کی قبر تھااوربستیاں قبرستان۔۔یہی معاملہ لاطینی امریکہ کا ہے۔ہمارے ہاں کیا ہورہاہے؟میلان کنڈیرا کا تعلق چیکوسلواکیہ سے تھا جسے سوویت یونین نے تاراج کر دیا۔''خندہ اور فراموشی کی کہانی‘‘ اس کا معروف ناول ہے۔کسی صفحے پر اس نے کیا اچھا جملہ لکھا:''خلق وبشر کے درمیان آدمی کی تما م تر زندگی کا مقصد ان کی سماعت پر قابض ہوجانے سے کچھ زیادہ نہیں‘‘۔آج دانش کے عنوان سے بلند ہونے والی چیخ و پکار سماعتوں پر قبضے کی خواہش کے سوا کیا ہے؟
''انتقام،انتقام، آدم بو آدم بو۔۔۔۔۔‘‘میں نے اپنی زندگی میں ایسی فضا نہیں دیکھی۔کہتے ہیں کہ 1970ء میں بھی ایسا ہی تھا۔شیخ مجیب الرحمن ہدف تھا۔مغربی پاکستان کے سیاست دان اسی طرح کورس میں مجیب الرحمن کے خلاف نعرہ زن تھے۔غالباً 1966ء کا قصہ ہے،مغربی پاکستان کے سیاست دانوں نے ایک کانفرنس بلائی۔مشرقی پاکستان سے صرف مجیب آیا۔اس نے لاہور میں اپنے چھ نکات کا ذکر کیا۔واپس گیا تو اگرتلہ سازش کیس تیار تھا۔مغربی پاکستان کے سیاست دان بیک زبان اسے سزا دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔پھر مجیب رہا نہ مشرقی پاکستان۔
بھٹو کے خلاف بھی انتقام کی ایسی ہی تحریک اٹھی۔مجیب کے خلاف قومی مفاد کا مقدمہ تھا۔ بھٹو کے خلاف ابتدائی مقدمہ انتخابی دھاندلی کا تھاجو بعدمیں نظامِ مصطفیٰ کے مطالبے میں ڈھل گیا۔ یہ تاریخ کا عجیب معاملہ ہے کہ نوازشریف کے خلاف انتخابی دھاندلی کاالزام ،ان کے خلاف کرپشن کے مقدمے میں بدل گیا۔کبھی سکہ رائج الوقت قومی مفاد تھا،کبھی نفاذِ اسلام اور آج کرپشن۔خواہش نہیں بدلی،صرف دلیل کا رنگ بدل گیا ہے۔
پاپولزم کی سیاست بظاہر فائدہ پہنچاتی ہے مگر اس کے نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔پاپولزم ایک انتہا پسندی کو جنم دیتا ہے۔یہ انتہا پسندی ایک قوم کو طبقات میں بانٹتی اور پھر ان کو باہم برسرِ پیکار کر دیتی ہے۔امریکہ ان دنوں اس کا مزہ چکھ رہا ہے۔ٹرمپ صاحب پاپولزم کے نتیجے میں جیتے۔سفید نسل کو انہوں نے ابھارا۔ایک طبقے کے خلاف نفرت کے بیج بوئے۔ٹرمپ تو جیت گئے مگر نفرت کے اس شجرِ خبیثہ پراب برگ وبار آنے لگے ہیں۔امریکہ میں ایک بار پھر نسلی فسادات شروع ہوگئے ہیں۔ورجینیا اس کی زد میں ہے۔انتقام سے بھرے لوگ دوسری نسلوں کے لوگوں کو گاڑیوں تلے کچل رہے ہیں۔نفرت کی سیاست کا یہ ناگزیر نتیجہ ہے۔
پاکستان میں آج یہی پاپولزم کی سیاست فروغ پا رہی ہے۔اس سے بڑی قوم کی بد قسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ شیخ رشید اور طاہر القادری صاحب جیسے انتہا پسند قوم کی سیاسی قیادت کے منصب پر فائز ہیں۔ملک کے اہم ترین منصب، وزارتِ عظمیٰ کے لیے تحریکِ انصاف کا انتخاب شیخ رشید ہیں۔ ان حضرات کی تقریروں کا ایک ایک لفظ زہر میں ڈوبا ہواہے۔میں ان تقریروں پر کان لگاتا ہوں تو مجھے ایک ہی آوازسنائی دیتی ہے؛آدم بو، آدم بو!
مذہبی انتہا پسندی کے بعد،یہ قوم تیزی کے ساتھ سیاسی انتہا پسندی کی راہ پر چل نکلی ہے۔سیاست انتہا پسندوں کے نرغے میں ہے جن کا ایک ایک جملہ نفرت سے مملو ہے۔وہ لوگوں میں انتقام کے جذبات پیدا کر رہے ہیں۔ میڈیا کا ایک بڑا حصہ ان کا ہم نوا ہے۔بعض ٹی وی چینلز مسلسل نفرت کا کاروبار کر رہے ہیں۔بچوں کے مابین تقریرکا مقابلہ ہو یا معلومات کا،نوازشریف کے خلاف نفرت پیدا کر نے کے لیے ڈیزائن کیے جا رہے ہیں۔ایک اذیت پسند گروہ ہے جس نے رائے سازی کا کام اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے یا اسے سونپ دیا گیاہے۔میں بتا سکتا ہوں کہ اس نفرت انگیز طرزِ عمل کا حاصل کتناہولناک ہے۔کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ نوازشریف ایک جیتا جاگتا انسان ہے جو اپنی عصبیت رکھتا ہے۔
ن لیگ اس زعم میں مبتلا ہے کہ ملک میں اس کی حکومت ہے۔یہ کیسی حکومت ہے کہ اس کا ایک ایک عضو اس کے خلاف گواہی دے رہا ہے۔ایک ایک محکمہ اس کے خلاف شواہد جمع کر نے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔اس سے تو پیپلزپارٹی کی حکومت لاکھ درجے بہترتھی۔وزرائے اعظم نے اپنا منصب قربان کر دیا مگر پارٹی راہنما کے خلاف گواہی نہیں دی۔آج ملک میں وزیراعظم تو ہے لیکن کوئی محکمہ اس کے ماتحت نہیں ہے۔وزیر تو ہیں لیکن بے بسی کی تصویر ۔بالفعل اقتدار کسی اور کا ہے مگر تاج ن لیگ کے سر پر رکھا ہے۔
ملک اس طرح نہیں چل سکتے۔ملک وہی آگے بڑھ سکتے ہیں جہاں اقتدار کے مراکز سامنے ہوں اور کسی فورم پر جواب دہ بھی۔مزید یہ کہ قوم نفرت کی بنیاد پر منقسم نہ ہو۔افسوس یہ ہے کہ صحافت اس قومی المیے کا ادراک کر رہی ہے اور نہ سیاست۔ہم بحیثیت قوم اذیت پسندی کے مرض میں مبتلا ہیں۔دوسروں کے زخموں سے کھیلتے اور ان سے حظ اٹھاتے ہیں۔مذاق اڑاتے اور اس سے لطف حاصل کرتے ہیں۔یہ عہدِ زوال ہے مگربڑا ادب کہاںہے۔وہ ادیب ،وہ دانش ور کہاں ہے جو انگلی رکھ کر بتائے کہ یہ قوم کس المیے سے دوچار ہے۔سب اس کوشش میں ہیں کہ دوسروں کی سماعت کو اپنی گرفت میں لے لیں اور ان میں ایک ہی آواز انڈیل دیں؛آدم بو آدم بو۔۔۔