این اے 120 کے انتخابات، اُس حکمتِ عملی کی آزمائشی مشق (Rehearsal) تھی جو ن لیگ کو ہرانے کے لیے 2018ء کے عام انتخابات میں اختیار کی جا سکتی ہے۔
یہ کوئی انکشاف نہیں کہ ن لیگ آج بھی سب سے بڑی انتخابی قوت ہے۔ اس کی احتجاجی صلاحیت میں کلام ہو سکتا ہے مگر اس میں کم ہی کسی کو شبہ ہو گا کہ ن لیگ کو انتخابات میں شکست دینا، کم از کم موجودہ حالات میں محال ہے۔ ماضی میں مخالف جماعت کو ہرانے کے لیے جو حکمتِ عملی اختیار کی جاتی رہی، پاکستانی سیاست کا ہر طالب علم اس سے واقف ہے۔ اس بار یہ حکمتِ عملی تبدیل ہو چکی۔ اس کی ایک جھلک ان انتخابات میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اس انتخابی حکمتِ عملی کا پہلا نکتہ ووٹوں کی تقسیم ہے۔ ماضی میں منقسم ووٹوں کو انتخابی اتحاد کے ذریعے جمع کیا جاتا تھا۔ پیپلز پارٹی کے خلاف مسلم لیگ بھی ایسے اتحاد کا جزوِ اعظم ہوتی تھی۔ ن لیگ اور خاص طور پر نواز شریف کی سیاسی سوچ اب وہ نہیں رہی جو ماضی میں تھی۔ میاں صاحب کے ہاں، تجربات سے گزرنے کے بعد، فکری تبدیلی آئی ہے۔ یہ تبدیلی پاک بھارت تعلقات سے لے کر ملک کے نظریاتی تشخص تک کو محیط ہے۔ اس کے باوجود، بہرحال، وہ ایک روایتی آدمی ہیں جن کی تہذیبی شناخت وہی ہے جو ایک عام پاکستانی کی ہے۔ وہ پاکستانی جو اپنی مذہبی و سماجی روایت سے وابستہ رہنا چاہتا ہے لیکن انتہا پسندانہ سوچ کو بھی پسند نہیں کرتا۔ یہ پاکستانی نواز شریف کو اپنا نمائندہ سمجھتا ہے۔ اس اعتبار سے ن لیگ کا ووٹ بینک وہی ہے جو روایتی ہے اور جو پیپلز پارٹی کے لبرل خیالات کے بالمقابل نواز شریف کی قیادت میں متحد ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے یہ ووٹ بینک جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں میں منقسم تھا۔ اس ووٹ بینک کو ایک بار پھر تقسیم کر دیا جائے تو ن لیگ کی انتخابی قوت زائل ہو سکتی ہے۔
این اے 120 میں اس کا تجربہ کیا گیا۔ اس بار اس مقصد کے لیے ممتاز قادری فیکٹر کو استعمال کیا گیا۔ ماضی میں 'سوشلزم کفر ہے‘ ، 'عورت کی حکمرانی ناجائز ہے‘ جیسے نعروں کو مخالف جماعت کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ آج یہ چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ اس لیے ان کے بجائے ایک نیا موضوع تلاش کیا گیا۔ تحریک لبیک نے دینِ رسول کو تخت پر لانے کا نعرہ دیا۔ اس تحریک کے تحت نواز شریف صاحب کو ممتاز قادری کا قاتل ثابت کرنے کی کوشش ہوئی۔
تقسیم کی دوسری کوشش کا ظہور ملی مسلم لیگ کی صورت میں ہوا۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ سلفی خیالات رکھنے والے اہلِ مذہب کا ایک گروہ ہے‘ جو جماعت الدعوۃ کے نام سے منظم ہے‘ تاہم سیاست میں یہ مذہبی تشخص کے ساتھ نہیں ہے۔ سیاست میں وہ بھارت دشمنی کے اُس نعرے کے ساتھ نمودار ہوئے ہیں جو ریاست کے اہتمام میں پروان چڑھنے والے 'حب الوطنی‘ اور 'قومی مفاد‘ کے تصور کا جزوِ لاینفک ہے۔ نواز شریف صاحب کو ایک عرصے سے ایک منظم سیاسی و صحافتی مہم کے تحت بھارت نواز ثابت ہونے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ بلاول بھٹو بھی انہیں مودی کا یار کہتے ہیں۔ ملی مسلم لیگ نے اس اس تاثر کو فروغ دے کر ن لیگ کے ووٹ منقسم کرنے کی کوشش کی۔ انتخابات کے دن ملی مسلم لیگ کے امیدوار شیخ یعقوب صاحب جب پولنگ سٹیشنز کا دورہ کر رہے تھے تو ان کے کارکن نعرہ لگا رہے تھے! ''بھارت کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل میر صاحب کا دعویٰ ہے کہ ملی مسلم لیگ نے ان انتخابات میں ن لیگ اور تحریکِ انصاف سے زیادہ پیسے خرچ کیے؟ یہ پیسے کہاں سے آئے؟
تقسیم کی تیسری کوشش امیدواروں کی غیر معمولی تعداد ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ضمنی الیکشن میں 44 امیدوار کھڑے ہو جائیں۔ کوئی کسی ایک عصبیت کو بلا رہا ہے‘ کوئی دوسری کو۔ اگر ہر امیدوار پانچ سو ووٹ لے جائے تو بائیس ہزار ووٹ بنتے ہیں۔ اس حلقے میں نسلی اور خاندانی عصبیتوں کا جو کردار ہے ہم سب اس سے واقف ہیں۔
اس حکمتِ عملی کے کچھ اور نکات بھی ہیں‘ جیسے اغوا۔ ن لیگ ساٹھ افراد کا نام لے رہی ہے جن میں آٹھ یونین کونسلز کے چیئرمین شامل ہیں۔ اسی طرح ووٹرز کی قطار لگی رہی اور وہ ووٹ نہیں ڈال سکے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوا ہو گا‘ جو آنے والے دنوں میں سامنے آتا جائے گا۔ تحریکِ انصاف نے ایک منظم مہم چلائی۔ یہ اس کا حق تھا جس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا روایتی ہیجان یہاں بھی دکھائی دیا۔ عمران خان نے ان انتخابات میں خود کو سپریم کورٹ کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے اسے عدالت اور ڈاکو کا معرکہ کہا۔ اس کے باوجود تحریکِ انصاف خود کو آزاد سیاسی قوت کہتی ہے۔
اس آزمائشی مشق سے ن لیگ مخالف قوتوں کو غور و فکر کا موقع ملے گا۔ وہ یہ جان سکیں گی کہ کون سا عامل زیادہ مؤثر ثابت ہوا ہے اور کون سا کم۔ مثال کے طور پر ملی مسلم لیگ کا آئیڈیا اس مشق کے بعد آگے بڑھے گا۔ جماعت اسلامی احتجاجی سیاست کے لیے تو کام آ سکتی ہے، انتخاباتی سیاست کے لیے نہیں۔ اسی طرح یہ بھی دیکھا جائے گا کہ نسلی و خاندانی عصبیتوں کو کس طرح مؤثر طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تحریکِ انصاف پنجاب میں پیپلز پارٹی کا نیا ظہور ہے۔ یہ بات پہلے سے طے تھی مگر اب مزید مستحکم ہو گئی ہے۔ یاسمین راشد صاحبہ کا خاندانی تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ نواز شریف کے خلاف نفرت کے اظہار کے لیے تحریکِ انصاف سے بہتر فورم اب کوئی دوسرا نہیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی کے لوگوں نے اس کا انتخاب کر لیا ہے۔ یہ آصف زرداری صاحب کی اُس سیاست کا حاصل ہے جس پر انہیں ناز ہے اور وہ دوسروں کو طعنہ دیتے ہیں کہ انہیں سیاست کرنا نہیں آتی۔ پیپلز پارٹی اب پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کی درد سری نہیں رہی۔
یہ دنیا کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے کہ ایک جماعت بظاہر برسرِ اقتدار ہے لیکن ریاست میں موجود طاقت کے سب مراکز کے خلاف چومکھی لڑائی لڑنے پر مجبور ہے۔ جو اپوزیشن میں ہے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں ہے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ طاقت کے مراکز میں عوام کی نمائندگی رکھنے والی قوت کی کیا اہمیت باقی رہ گئی ہے۔ ہمارے ریاستی ڈھانچے میں، اب یہ جاننا مشکل نہیں کہ اس میں بالفعل طاقت کا مرکز کون ہے۔
ن لیگ 2018ء کے انتخابات میں اس حکمتِ عملی سے کیسے عہدہ برآ ہو گی؟ وہ جیت جو سب کے نزدیک یقینی دکھائی دیتی تھی، اب خدشات میں گِھر گئی ہے۔ نواز شریف کے خلاف معرکہ صرف عدالتوں میں نہیں، اب حلقہ ہائے انتخاب میں بھی برپا ہو گا۔ این اے 120 میں لوگوں نے ووٹ تو دیے لیکن نواز شریف کے لیے اس گرم جوشی کا بہرحال فقدان رہا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ مریم نواز کے ناتواں کندھے، کیا یہ بوجھ اُٹھا پائیں گے؟ ان امور پر لازم ہے کہ ن لیگ کے حلقوں میں ایک سنجیدہ بحث کا آغاز ہو۔
خطرے کی گھنٹی بج چکی‘ تاہم ہر مشکل اپنے ساتھ امکانات بھی لے کر آتی ہے۔ ان انتخابات سے ن لیگ کو بروقت معلوم ہو گیا کہ 2018ء کے انتخابات میں اسے کس نوعیت کے چیلنج کا سامنا ہو گا۔ اس سے ن لیگ کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ جوابی حکمتِ عملی تشکیل دے سکتی ہے۔ اس انتباہ کو میں ایک بار پھر دھرانے پر مجبور ہوں کہ ایک مقبول سیاسی راہنما کو دیوار سے لگانے کی مہم ملک کی سالمیت کے لیے بہت خطرناک ہے۔