راہِ اعتدال سے منحرف، فرد ہو یا گروہ، اگر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ اچھے سماج کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مددگار ہوتا ہے۔ وہ ایسے مواقع ارزاں کرتا ہے جو لوگوں کو خیر کی طرف لائیں۔ اس کے گلی محلوں سے 'حیّ علَی خیرالعمل‘ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ خدا کی شریعت بھی یہی کہتی ہے کہ قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے کوئی توبہ کرتا ہے تو دنیا میں بھی اسے قبول کیا جائے گا۔ خدا کی رحمت تو رجوع کرنے والوں کی طرف ہمیشہ ہی متوجہ رہتی ہے۔
میرا خیال ہے اس بات سے کم ہی کسی کو اختلاف ہو گا۔ اختلاف کا محل دوسرا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ رجوع ایک شعوری فیصلہ اور قلبِ ماہیت کا نتیجہ ہے یا کسی خارجی دباؤ سے بچنے کا ایک حیلہ؟ شعوری فیصلے کی تو تائید کی جا سکتی ہے، حیلہ بازی کی نہیں۔ آج جب انتہا پسند گروہوں کی قومی دھارے میں شمولیت کی بحث چل نکل ہے تو ضروری ہے کہ یہ بات واضح رہے۔
یہ معاملہ ان تمام گروہوں کو محیط ہے جو انتہا پسندی کی شہرت رکھتے ہیں۔ عملی قدم چونکہ جماعت الدعوۃ نے اٹھایا ہے اس لیے اس وقت وہی زیرِ بحث ہے۔ جماعت الدعوۃ نے ملی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارتِ داخلہ نے اس کی تائید نہیں کی کہ بطور سیاسی جماعت اس کی رجسٹریشن ہو۔ وزیر خارجہ، حافظ محمد سعید صاحب کے بارے میں جو خیالات رکھتے ہیں اسے حکومتی موقف سمجھنا چاہیے۔ یوں حکومت اور جماعت الدعوۃ میں سخت بیانات کا تبادلہ شروع ہو گیا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ جماعت الدعوۃ کی سیاسی عمل میں شرکت کسی قلبِ ماہیت کا نتیجہ نہیں۔ اس جماعت کے کسی ایک راہنما کا کوئی ایک ایسا بیان سامنے نہیں آیا کہ ہم کل تک جس موقف یا حکمتِ عملی کے قائل تھے، وہ درست نہیں تھی یا ہم اس سے رجوع کر رہے ہیں۔ وہ ملی مسلم لیگ کے قیام کو اپنی سابقہ جدوجہد کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک وہ پہلے انتہا پسند تھے نہ اب انتہا پسند ہیں۔ اگر انہوں نے لشکر طیبہ بنائی تو وہ ایک درست اقدام تھا۔ اگر جماعت الدعوۃ یا فلاحِ انسانیت فائونڈیشن بنائی تو بھی وہ اسی مہم کا ایک حصہ تھا۔ آج اگر وہ سیاست میں آنا چاہتے ہیں تو یہ منزل کی طرف اگلا قدم ہے۔ حافظ سعید صاحب کل جس طرح لشکرِ طیبہ کے فکری قائد تھے، اسی طرح ملی مسلم لیگ کے بھی قائد ہیں۔ اس موقف کا انتہا پسندوں کے قومی دھارے میں شامل ہونے کے مقدمے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔
جماعت الدعوۃ اگر چہ ایک دعوتی تنظیم ہے لیکن اس کا ایجنڈا ہمیشہ سیاسی رہا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ اس کا موضوع رہی ہے‘ حالانکہ یہ دعوت کا نہیں، سیاست کا موضوع ہے۔ اب ایک سیاسی محاذ قائم کرکے انہوں نے یہ اعتراض بھی رفع کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے کبھی ملک کا قانون توڑا نہ اب کوئی ایسا ارادہ ہے۔
اس کے ساتھ یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ حافظ سعید صاحب اور ان کی یہ تنظیم، وہ جس نام سے بھی موجود رہی ہو، عالمی سطح پر تنقید کا ہدف ہے۔ اقوامِ متحدہ نے اس پر پابندی عائد کی اور اس کا ایک رکن ہونے کے ناتے پاکستان کو بھی یہ پابندی لگانا پڑی۔ برکس (BRICS) کا اعلامیہ سامنے آنے کے بعد معلوم یہ ہوا کہ اب چین بھی اس باب میں ہمارا ہم نوا نہیں رہا۔ ریاستی سطح پر ہم نے اس معاملے میں ہمیشہ غیر واضح موقف اختیار کیا۔ ہم نے یہ تاثر دیا کہ عالمی مجبوری کے باعث ہم حافظ صاحب کو نظر بند کر رہے ہیں ورنہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کسی قابلِ اعتراض واقعے میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت ہے۔
خواجہ آصف صاحب کے وزیر خارجہ بننے کے بعد، یہ ابہام کسی حد تک دور ہو گیا ہے۔ اب اگر ریاستِ پاکستان نہیں تو کم از کم حکومتِ پاکستان عالمی رائے کی ہم نوا دکھائی دیتی ہے۔ ایک سطح پر یہ ابہام دور ہوا تو داخلی سطح پر یہ ایک نئے اختلاف کا سبب بن گیا۔ ایک گروہ خواجہ آصف کے بیان کو قومی مفاد کے خلاف قرار دے رہا ہے۔ ملی مسلم لیگ تو پہلے ہی نواز شریف صاحب کو بھارت کا یار اور غدار سمجھتی ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں اس گروہ کا واحد ہدف نواز شریف صاحب تھے۔ اسی وجہ سے یہ سوال بھی اس بحث کا حصہ ہے کہ اس جماعت کے پیچھے دراصل کون ہے اور کیا اسے نواز شریف کے ووٹ تقسیم کرنے کا کام سونپا گیا ہے؟
یہ تمام تر تاریخی اور واقعاتی پس منظر سامنے رہے تو ملی مسلم لیگ کا قیام کسی طرح انتہا پسندوں کے قومی دھارے میں شامل ہونے کا مقدمہ نہیں ہے۔ میں نہیں جان سکا کہ اس جماعت کے قیام پر یہ بحث اس عنوان کے ساتھ کیوں ہو رہی ہے۔ یہ سیدھا سادہ حکمتِ عملی کا مسئلہ ہے۔ ایک گروہ نہ تو اپنے تاریخی ورثے سے اعلانِ برات کر رہا ہے اور نہ ہی اپنے سابقہ موقف کو غلط قرار دیتا ہے۔ وہ ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں داخل ہو رہا ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، اس گروہ نے سابقہ سرگرمیوں کو معطل کرنے کا بھی اعلان نہیں کیا۔ یہ تقسیمِ کار کا معاملہ ہے۔ آج بھی کوئی میدانِ کارزار میں مصروف ہے، کوئی دعوت کا کام کر رہے اور کسی نے اپنے لیے میدانِ سیاست کا انتخاب کیا ہے۔
میرے علم میں صرف 'اہلِ سنت والجماعت‘ ایک ایسا گروہ ہے جس نے اپنا نام ہی نہیں، اپنا نعرہ اور حکمتِ عملی بھی تبدیل کی ہے۔ یہ کبھی ایک مذہبی گروہ کی اعلانیہ تکفیر کرتے تھے۔ آج نہیں کرتے۔ اسی طرح انہوں نے خود کو لشکرِ جھنگوی سے بھی الگ رکھا ہے۔ ان کا ایک نمائندہ جھنگ سے صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا تو جمعیت علمائے اسلام میں شامل ہو گیا۔ اس کو قلبِ ماہیت کہا جا سکتا ہے۔ یہ اگر قومی دھارے میں شامل ہونے کی بات کرتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ انہیں یہ موقع ضرور ملنا چاہیے۔
قومی دھارے میں شامل ہونے کا مفہوم صرف سیاست میں حصہ لینے تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شعوری طور پر انتہا پسندی سے رجوع کر رہا ہے تو لازم نہیں کہ وہ سیاست ہی کرے۔ وہ درس و تدریس سے وابستہ ہو سکتا ہے۔ کوئی سماجی خدمت سر انجام دے سکتا ہے‘ یا اپنی افتادِ طبع کے مطابق کسی اور میدان کا انتخاب کر سکتا ہے۔
تاہم اگر وہ سیاست میں آنا چاہتا ہے تو اس کا دروازہ بھی کھلا ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک ایسا رجحان رکھنے والے کو یہ ترغیب دی جائے کہ وہ کسی قومی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائے۔ ہمارے ہاں ہر طرح کی جماعتیں موجود ہیں۔ وہ جس کے خیالات کو خود سے قریب تر سمجھتا ہے، اس کا حصہ بن جائے۔ یہ لازم نہیں کہ ہر کوئی اپنی الگ جماعت بنائے۔
پاکستان میں انتہا پسندی کے خاتمے کی کوئی سنجیدہ کوشش ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ قومی ایکشن پلان اس معاملے میں پوری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔ جب قلبِ ماہیت کا کوئی منظم عمل شروع ہی نہیں ہوا تو قومی دھارے میں شمولیت کا سوال بھی قبل از وقت ہے۔ ملی مسلم لیگ کا معاملہ دوسرا ہے۔ اسے درست سیاق سباق میں سمجھنا چاہیے۔
پاکستان بدستور انتہا پسندی کی گرفت میں ہے۔ ایسی جماعتیں موجود ہیں جو عسکری جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں۔ آرمی چیف کی طرف سے یہ بیان آنے کے بعد کہ 'جہاد صرف ریاست کی ذمہ داری ہے‘ نجی دائرے میں اس عمل کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا۔ ایسا نہیں ہو سکا اور ریاستی سطح پر اس کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں ہوئی۔ انتہا پسندوں کی قومی دھارے میں شمولیت فی الوقت ایک نظری بحث ہے۔