مزاحمتی سیاست کا باب، کیا ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے؟
ن لیگ کی قیادت،آثار یہی ہیں کہ شہباز شریف صاحب کو منتقل ہو رہی ہے۔اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ فی الوقت مزاحمتی سیاست نہیں ہوگی۔ طاقت کے مراکز میں توازن پیدا کرنے کا دیر ینہ مسئلہ، اب پھر طاقِ نسیاں ہو جائے گا۔
اگریہ مقدمہ درست ہے تو اس کے کچھ اسباب ہیں اور کچھ مضمرات بھی۔ پہلے اسباب کی بات کرتے ہیں۔
اس کاسب سے بڑاسبب اہلِ سیاست کی کوتاہ نگاہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد نواز شریف ہماری تاریخ کے دوسرے سیاست دان تھے جو 'اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ تشخص کے ساتھ اُبھرے تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ وہ کسی اعلیٰ آدرش کے بجائے محض ذاتی مفاد کے لیے میدان میں نکلے ہیں۔ اس کے باوجود اس امرِ واقعہ کا انکار محال ہے کہ وہ سول برتری کے نعرے کو لے کر اُٹھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار کے ترازو کا پلڑا عوامی نمائندوں کی طرف جھکانا چاہتے ہیں۔ اہلِ سیاست پر لازم تھا کہ وہ ان کاساتھ دیتے۔
بدقسمتی سے ایک بار پھرسیاست دانوں نے پست ذہنی سطح کا مظاہرہ کیا۔ وہ طاقت کے غیر عوامی مراکز کے وکیل بن گئے۔ کچھ نے تو ان کے ملازم ہونے کا تاثردیا۔ پیپلز پارٹی سے توقع تھی کہ اس کی قیادت خود اپنے تجربات کی روشنی میں، معاملے کی حقیقی نوعیت کو سمجھتی اور نواز شریف صاحب کے ساتھ کھڑی ہو جاتی۔ اندازہ یہ ہواکہ اس پارٹی کا روایتی بانکپن بے نظیر صاحبہ کے ساتھ ہی موت کے گھاٹ اُتر گیا۔رہی تحریکِ انصاف،تواس کی قیادت یہ نہیں جان سکی کہ اس جنگ میں اہلِ سیاست کی ناکامی کا ایک ناگزیر نتیجہ تحریکِ انصاف کی ناکامی بھی ہے۔ وہ اس خام خیالی میں مبتلا رہی اور ہے کہ فضا اس کے اقتدارکے لیے ہموار ہو رہی ہے۔مفادات کی اسیری اور سیاسی بلوغت سے محرومی کے باعث اہلِ سیاست نے اس اہم تبدیلی کا موقع گنوا دیا جو سیاسی استحکام کے لیے ناگزیر تھی۔
ہمیں اہلِ سیاست کے اس طرزِ عمل کو سمجھنے کے لیے ترکی کے ناکام فوجی انقلاب پر ایک نظرڈالنی چاہیے،جس نے ایک سال پہلے،جولائی 2016ء میں ترکی کے دروازے پر دستک دی۔اس ناکامی کا سہرا اہلِ سیاست کے سر ہے۔ انہوں نے یہ جان لیا کہ طیب اردوان کی آمریت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ بہرحال ایک جمہوری حکمران ہے۔ لیکن زمامِ کار بالواسطہ یا بلاواسطہ فوج کے ہاتھ میںچلی جائے تو قوموں کے سال ہا سال برباد ہو جاتے ہیں۔ ترکی میں اب سیاسی قوتوں میں مقابلہ ہے۔ یہ ایک مثبت کشمکش ہے جس سے ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
مزاحمتی سیاست اگر ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہے تو اس کا دوسرا سبب اپنی جماعت کے بارے میں نواز شریف صاحب کا غلط اندازہ تھا۔ جس جماعت کو انہوں نے چار سال نظر انداز کیا، جس کو منظم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی،اس کے بارے میں انہوں نے کیسے یہ گمان کر لیا کہ وہ طاقت ور حلقوں کے خلاف کوئی مزاحمتی تحریک اُٹھا سکتی ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ن لیگ آج بھی سب سے بڑی انتخابی قوت ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہو سکتا کہ وہ کوئی مزاحمتی تحریک بھی برپا کر سکتی ہے۔ چند قدم چلنے کے بعد ہی یہ بات سامنے آگئی کہ جس سفر میں ان کا بھائی ان کا ہم سفر نہیں ہے، دوسرے کیسے ہوں گے؟
اس ناکامی کا تیسرا سبب ہمارا میڈیا ہے۔ میڈیا بھی بحیثیت مجموعی یہ ادراک نہیں کر سکا کہ اس کی قومی ذمہ داری کیا ہے۔ میرا تاثر یہ ہے کہ آج میڈیا میں ایک آدھ کے استثنا کے ساتھ، کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جو صحافت کو جمہوری اور سیاسی استحکام کے لیے ایک فریضے کے طور پر دیکھتی ہو۔اب میڈیا ایک صحافتی سے زیادہ کاروباری مشغلہ ہے۔اس کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اصلاً تاجر ہیں۔اس کے بعد یہ امیدختم ہو چکی کہ کوئی محمد علی جوہر یا ظفر علی خان کسی آدرش کے ساتھ اٹھے اور صاحبِ عزیمت کا کردار ادا کرے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انفرادی سطح پر ایسے لوگ مو جود ہیں جو اس روایت کو زندہ رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔تاہم ان کے ٹی وی پروگرام اور کالم اسی کاروباری طبقے کے رحم وکرم پر ہیں۔یہ طبقہ کسی آدرش کا قائل نہیں۔
اب آئیے ان مضمرات اور نتائج کی طرف جن کا تعلق مزاحمتی سیاست کے خاتمے سے ہے۔
ایک تو یہ کہ مو جودہ سیاسی بندوبست میں ن لیگ کے لیے قبولیت پیدا ہو جائے گی۔شہباز شریف صاحب کی قیادت میں ،ن لیگ کارکردگی کی بنیاد پر 2018ء کے انتخابات میں حصہ لے گی اور اس بات کا پورا امکان ہے کہ جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے امیدوار اس کے ساتھ رہیں گے۔ووٹ کے تقدس کا نعرہ اب عملی سیاست سے غیر متعلق ہو جا ئے گا۔یوں ن لیگ طاقت کے دوسرے مراکز کی بر تری قبول کرتے ہوئے،اس سیاسی نظام کا فعال حصہ بن جا ئے گی۔اس بات کا پورا امکان ہے کہ اگلے انتخابات کے بعد شہبازشریف صاحب ملک کے وزیراعظم ہوں۔
اس کا دوسرا نتیجہ یہ ہو گا کہ تحریکِ انصاف پس منظر میں چلی جائے گی۔اگر اس کی قیادت عدالتی چکر سے مکمل یا جزوی طور پر بچ نکلی تو مستقبل میں حزب ِ اختلاف کی جماعت بن سکتی ہے۔تاہم اسے پیپلزپارٹی سے سخت مقابلہ کر نا ہو گا۔عمران خان صاحب کے لیے جو کردار طے کیا گیا تھا، وہ'گو نواز گو‘کی کامیاب نمائش کے بعد منطقی طور پرختم ہو گیا ہے۔ اگر مزاحمتی سیاست جاری رہتی تو ممکن تھاکہ ان کا کردار چند مناظرکی حد تک بڑھ جاتا۔اب ان کے لیے لگتا ہے کہ قسمت کا نوشتہ یہی ہے۔
تیسرا یہ کہ مذہبی انتہا پسندی کی ابھرنے والی نئی لہر سرِ دست تھم جائے گی۔6 نومبر کو لاہور سے چلنے والا کارواں رک سکتاہے۔اگر چلتا ہے تو سجدئہ شکر بجا لانے کے بعد منتشر ہو جا ئے گا۔ ملی مسلم لیگ کا باب بھی تا حکمِ ثانی بند کر دیا جائے گا۔نواز شریف صاحب کے خلاف مذہبی بنیادوں پرجاری مہم بھی ٹھنڈی پڑ جائے گی۔لوگ شہباز شریف صاحب کی دینی حمیت کے قائل ہو جائیں گے۔عین ممکن ہے کہ وہ مجاہدِختم ِنبوت کے اعزازکے بھی حق دار قرار پائیں۔
اس سارے تجزیے پر چندسوالات وارد ہوتے ہیں:کیا عمران خان آسانی کے ساتھ اقتدار کے اس معرکے سے الگ ہو جائیں گے؟کیا نوازشریف ٹھنڈے پیٹوں یہ سب برداشت کر لیں گے؟ میرے پاس ان سوالات کے حتمی جواب نہیں ہیں۔میں صرف یہ تجزیہ کرسکتا ہوں کہ اس وقت سیاسی عمل کس سمت میں بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ہر سیاسی سکیم میں ایک 'ایکس فیکٹر‘ ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا ۔پھر یہ کہ کوئی قادرِ مطلق ہوتا ہے اور نہ عالم الغیب۔ یہ لازم نہیں کہ آپ جو سکیم بنائیں،وہ حسبِ توقع پوری بھی ہو۔
یہ 'مائنس ون‘ فیکٹر کے تصور کا نیا ظہورہے۔ایک بارپھر سیاسی عصبیت رکھنے والے ایک سیاست دان کو غیر فطری طور پر سیاسی عمل سے الگ کیا جا رہا ہے۔ اگر ماضی میں اس کے نتائج مثبت نہیں نکلے تو آج کیسے نکل سکتے ہیں؟میرے لیے اس سارے کھیل میں یہی بات باعثِ تشویش ہے۔اقتدار کا کھیل اگرچہ ہر جگہ بے رحم ہوتا ہے مگر دنیا نے جمہوریت کی صورت میں اس بے رحمی کا کسی حد تک مداوا کر دیا ہے۔ افسوس کہ ہم ابھی تک اسی سازشی دور میں زندہ ہیں جو کبھی محلاتی سیاست سے منسوب تھی۔
ایک چیلنج شہبازشریف صاحب کے لیے بھی ہے۔سیاسی عصبیت ن لیگ کو نہیں، نوازشریف کو حاصل ہے۔اگر اسے ش لیگ بنانے کی کوشش میں یہ عصبیت بروئے کار نہ آئی توپھر 'شہباز سپیڈ‘ تنہا نتائج نہیں دے سکے گی۔