کیاقوم کو آج ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے؟
فلسفہ اور عمرانیات کے استاد،ڈاکٹر خلیل احمد نے اس سوال کا جواب اثبات میں دیا ہے اور اپنے دلائل کو دو جلدوں میں قلم بند کر دیا ہے۔ان کے قائم کردہ مقدمے کے دو نکات اہم تر ہیں:ایک یہ کہ عمرانی معاہدہ آئین سے مختلف ہے۔عمرانی معاہدہ سماج کے لیے ہو تا ہے اورآئین ریاست کے لیے۔آئین عمرانی معاہدے کی کوکھ سے جنم لیتاہے۔دوسرا یہ کہ ریاست عوام کے لیے ہوتی ہے،عوام ریاست کے لیے نہیں۔ہمارے نظام میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ عوام میں سے ایک فرد جب ریاستی نظم کا حصہ بنتاہے اور پارلیمان، عدلیہ، فوج یا انتظامیہ سے وابستہ ہوتا ہے تو وہ عوام کے بجائے ریاست کے مفادات کا نگہبان بن جا تا ہے۔ہمیں ایک ایسا عمرانی معاہدہ چاہیے جس کے نتیجے میں ریاستی ادارے عوام کے خادم ہوں، مخدوم نہ ہوں۔
یہ دونوں باتیں بہت اہم ہیں۔اِس وقت ہمارے پاس کوئی ایسا عمرانی معاہدہ مو جود نہیں جو ہمارے اجتماعی شعور کی صورت گری کر تا ہو۔تحریکِ پاکستان کے دنوں میں مسلم تہذیبی شناخت کی حفاظت اجتماعی شعور کی اساس بن گئی تھی۔ہند کی مسلم اکثریت نے یہ شعوری فیصلہ کیا کہ ان کی اجتماعی تہذیبی شناخت کے لیے الگ مملکت ناگزیر ہے۔ اسے دو قومی نظریے کے عنوان سے پذیرائی ملی۔
پاکستان بننے کے بعدہمیں ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت تھی۔اب مسلم تہذیب کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔اسے اب ایک تہذیب کی صورت میں ظہور کر نا تھااور ریاست کو اس کی معاونت کر نا تھی۔اب اہم سوال یہ تھا کہ یہ تہذیب اصلاً ہے کیا اور یہ سیاسی و سماجی سطح پر کس طرح متشکل ہوتی ہے۔
میرا احساس ہے کہ قراردادِ مقاصد کوہماری تاریخ میں ایک عمرانی معاہدے کی حیثیت سے پیش کیا گیا جس کی بنیاد پر آئین سازی اور ریاستی اداروں کی تشکیل کا کام مطلوب تھا۔بعد کے واقعات سے معلوم ہوا کہ اس سارے عمل کے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہو سکے۔اس کے دو اسباب ہو سکتے ہیں۔ایک یہ کہ قرار دادِ مقاصد وہ عمرانی معاہدہ نہیں تھاجسے پاکستانی قوم کا ترجمان کہا جا سکتا۔ دوسرا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ اس کی ریاستی تفہیم میں غلطی ہوئی جس کے نتیجے میں جو سیاسی بندوبست وجود میں آیا،وہ عام شہری کے مفادات کے تحفظ میں ناکام ہوا۔اس نے ریاست کی حفاظت کی اور اس کے لیے عام آ دمی کے مفادات کو قر بان کیا۔
اسباب کے تعین میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر اس با ت سے سب کو اتفاق ہے کہ ریاست عام آدمی کے مفادات کی نگہبانی نہیں کر سکی۔میرے نزدیک اس کا اصل سبب نظریاتی ہے۔پاکستان بننے کے بعد اس ملک میں جو نظریاتی کشمکش ہوئی،اس نے ایک تقسیم کو جنم دیا۔اسلام پسند اور اشتراکیت کے علم بردار سامنے آئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں کے نظام ہائے فکر میں ریاست کو مطلوب کا درجہ حاصل تھا۔اسلام پسندوں نے اسلامی ریاست کے قیام کو دینی فریضہ قرار دیا اوراس کے لیے فرد سے قربانی کا تقاضا کیا۔اشتراکیت کے نمائندے بھی ایک غیر طبقاتی نظام کو اپنی منزل کہتے تھے اورفرد کو غیر اہم سمجھتے تھے۔اس طرح جو اجتماعی شعور تشکیل پایا ،اس میں نظری اختلاف کے باوجود سب نے ریاست کوفی نفسہ مطلوب سمجھا۔
اس فضا کا فائدہ ریاست نے اس طرح اٹھایا کہ پاکستان کو ایک ' سکیورٹی سٹیٹ‘ بنا دیا۔یوں ریاست کو دفاع مقدم ہوا اور شہریوں کا مفاد اس کے تابع۔اس کے برخلاف، فلاحی ریاست کا تصور آگے نہیں بڑھ سکا جس میں فرد کی سلامتی ریاست کی سلامتی پر مقدم ہو تی ہے۔ سکیورٹی ریاست کایہ تصور اتنا غالب رہا کہ بھٹو صاحب جیسا آ دمی جو عوامی لیڈر تھا، فخر سے کہتا تھا کہ گھاس کھائیں گے اور ایٹم بم بنائیں گے۔ یہ جملہ متکلم کی نفسیاتی ساخت کو بیان کر رہا ہے کہ اس کے نزدیک فرد اہم ہے یا ریاست۔اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ بھٹو صاحب کے خیالات پراشتراکیت اور فاشزم کا غلبہ تھا۔
آج ملک کی سیاسی و سماجی فضاکو اگر نظری سطح پر سمجھنے کی کوشش کی جائے تووہ اسی مسئلے کے گرد گھوم رہی ہے کہ ریاست عوام کی خادم ہے یا مخدوم۔سول بالادستی کا مقدمہ بھی در اصل اسی بنیاد پر کھڑا ہے۔خارجہ پالیسی کا تعلق بھی اسی سے ہے۔بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کے باب میں اختلاف بھی اسی سوال سے متعلق ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اس موقف کے ترجمان اس کی فکری تاویل کی صلاحیت نہیں رکھتے۔وہ اسے علمی مقدمے کے طور پر بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔
ریاست جب فرد کی خادم ہوتی ہے تو پارلیمان کوئی قانون بناتے وقت یہ دیکھتی ہے کہ اس قانون سے عوام کے مفادات پر کیا اثر پڑے گا۔مثال کے طور پرعوام کوکسی خارجی قوت سے زیادہ خطرہ ہے یا غربت، افلاس، بھوک اور بیماریوں سے؟ اسے دفاعی بجٹ پر زیادہ وسائل خرچ کرنے چاہئیں یا روزگار، خوراک، صحت اور تعلیم پر؟ بجٹ میں وسائل مختص کرتے وقت ترجیح کس کودی جائے گی؟
اس کا مطلب یہ نہیں ہو تا کہ ریاست کا دفاع پس منظر میں چلا جا تا ہے۔کوئی زندہ ریاست خارجی جارحیت کے امکانات کو رد نہیں کر سکتی۔اسے ہر دم تیار رہنا ہوتا ہے اور اس کے لیے مضبوط فوج ناگزیر ہوتی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ خارجی خطرات کو ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جاتی ہے یا انہیں مبالغہ آمیز طریقے سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتاہے؟حقیقی خطرات کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا انہیں زندہ رکھنے کا اہتمام ہو تا ہے؟یہی معاملہ بیورو کریسی کا ہے۔بیوروکریسی کی مراعات پر زیادہ وسائل خرچ ہوتے ہیں یاعوام کے فلاحی منصوبوں پر؟
اس کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔حکومت ایک وزارتِ صحت بناتی ہے۔اس کے لیے ایک بجٹ طے کرتی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس بجٹ کا بڑا حصہ وزارت کے افسران کی تنخواہوں،مراعات اوردیگر انتظامی مصارف کے لیے مختص ہے یا ہسپتالوں کی تعمیر اور عام شہری کو علاج اور ادویات کی فراہمی پر؟بیوروکریسی میں بیٹھے لوگ عوام میں سے ہونے کے باوجود ،جب افسرشاہی کا حصہ بنتے ہیں تو ان کی ترجیح عوام کو سہولتیں فراہم کرنا نہیں،اپنے لیے مراعات جمع کر نا ہو تا ہے۔
سیاست دان، فوج،بیوروکریسی ،عدلیہ کہیں باہر سے نہیں آئے۔ان اداروں سے وابستہ سب پاکستانی ہیں اور ایک معاشرے سے اٹھے ہیں۔ایک گھر کا ایک فرد فوج میں ہوتا ہے اور دوسرا سیاست میں۔عام آ دمی سوچتا ہے:کیا وجہ ہے کہ ایک آدمی جب کسی ادارے سے وابستہ ہوتا ہے تو اس میں ادارے کی عصبیت پیدا ہو جا تی ہے اور وہ عوام اور دوسرے اداروں سے الگ شناخت کے ساتھ کھڑا ہو جا تا ہے؟ میرا خیال ہے اس رویے کا تعلق بھی اس بنیادی سوال سے ہے کہ ریاست عوام کی خادم ہے یا مخدوم؟ریاست اپنے کارکنان کی تربیت کس نہج پر کرتی ہے؟ ڈاکٹر خلیل احمد نے اپنی کتاب''عمرانی معاہدے کی تشکیلِ نو‘‘ میں اس سوال کی طرف متوجہ کیا ہے۔
ہمارے میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس دور میں وہی دانش کامحور ہے۔کوئی کالم نگار بن جا ئے یا ٹی وی اینکر،لوگ بے تکلفی کے ساتھ اس کے لیے دانش ور کا اسمِ صفت استعمال کرتے ہیں۔وہ بھی اپنے بارے میں یہی گمان رکھتا ہے۔عملاً صورت ِحال یہ ہے کہ سماج اور ریاست کو درپیش سنجیدہ مسائل کہیں زیرِ بحث نہیں، اِلا ماشااللہ۔تجزیے سطحی ہیں اور لوگوں کی ممدوح یا مذموم شخصیات کے گرد گھوم رہے ہیں۔اس پس منظر میں ڈاکٹر خلیل احمد کی کتاب بہت اہمیت رکھتی ہے۔یہ اُس علمی کام کا احاطہ کرتی ہے جو مغرب اور مشرق میںعمرانی معاہدے کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔اس کے ساتھ پاکستان کے تناظر میں عمرانی معاہدے کی بحث کو بھی آگے بڑھاتی ہے جو ڈاکٹر صاحب کے خیال میں ناگزیر ہے۔