تادیر بارش نہ ہو تو ہر شے گرد میں اٹ جاتی ہے۔ ہر چہرہ خاک آلود۔ مظاہرِ فطرت کی مشاطگی قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔ انسان ایک محدود دائرے ہی میں بروئے کار آ سکتا ہے۔
چند دن پہلے اپنے گاؤں کا رخ کیا۔ شہر سے مسافت کتنی ہے، بس یہی تیس پینتیس کلومیٹر مگر اس غمِ روزگار کا کیا علاج! مہینوں بیت جاتے ہیں اور جانا نہیں ہوتا۔ شہر کی زندگی طبیعت کو راس نہیں۔ وقت کا جبر نہ ہوتا تو کب کا مراجعت کر چکا ہوتا، اس گاؤں کی طرف جس کا خیال اب بھی کسی رومان سے کم نہیں۔ اِن دنوں یہ رومان بھی زمینی حقائق کی نذر ہو گیا۔ مدت سے مہینہ نہیں برسا۔ برگِ سبز نے مٹیالے رنگ کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ دام ہم رنگِ زمین تو سن رکھا تھا، اب تو پودے بھی زمین کے ساتھ اظہارِ یک رنگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
گاؤں کی طرف جاتی ہوئی سڑک ایک ایسے علاقے سے گزرتی ہے جو چاہی ہے۔ پرانی طرز کے کنویں ابھی آباد ہیں۔ مویشی جتے ہیں۔ لوٹے کنویں میں ڈبکی لگاتے، خالی پیٹ میں پانی بھرتے اور باہر آ کر اس طرح سرنگوں ہوتے ہیں کہ گویا اپنا دامن جھاڑ رہے ہوں۔ شفاف پانی کی ایک رو بہتی ہوئی ایک 'اولو‘ میں اس طرح گرتی ہے کہ ایک تالاب سا بن جاتا ہے۔ یہاں سے پانی ایک نالی کا رخ کرتا اور کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔
یہ کھیت آسمان سے برسنے والے پانی کے محتاج نہیں۔ قدرت نے ان کے لیے زیرِ زمین اہتمام کر رکھا ہے۔ دور تک سبزے کی بہار ہے۔ برگ ہائے سبز ہیں جنہیں پالک کا نام دے دیا گیا ہے۔ مولی، شلجم اور گاجر‘ ہیں جن کا باطن ان کے ظاہر سے مختلف مگر زیادہ پاکیزہ ہے۔ سبز پتے ہیں جو آنکھوں کے لیے ٹھنڈک کا باعث ہیں۔ جڑیں ہیں جو سفید ہیں اور سرخ۔ رنگ ہی نہیں، ذائقے میں بھی تنوع ہے اور لذت بھی۔ ایک نمکین دوسرا میٹھا۔ عالم کے پروردگار نے اپنی نشانیاں کمال حکمت کے ساتھ ہمارے ارد گرد پھیلا دی ہیں۔ کوئی ہے جو غور کرے؟ کوئی ہے جو اسے پہچانے؟
ملال یہ ہے کہ ان کھیتوںکا وجود بھی سمٹتا جا رہا ہے۔ ان کی جگہ تیزی سے سیمنٹ اور اینٹوں کے پہاڑ کھڑے ہو رہے ہیں۔ بے مہار ہاؤسنگ سکیموں نے اس سبزے کو چاٹ لیا ہے‘ کسی وحشی جانور کی طرح جس کی بھوک مٹنے کو نہیں آ رہی۔ اس مافیا نے میرے غریب کسانوں کے ساتھ وہی سلوک کیا ہے جو یہودی سرمایہ داروں نے سادہ فلسطینیوں کے ساتھ کیا تھا۔ ان کی زمین اونے پونے خرید لی ہے۔ صرف کسان ہی اس زمین سے بے دخل نہیں ہو رہے، زمین کو بھی اس کے حسن اور زرخیزی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ کوئی کسی کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا کہ کوئی ہاتھ خالی ہی نہیں۔ سب ہاتھوں میں نوٹ ہیں۔ کوئی دے رہا ہے اور کوئی لے رہا ہے۔
میں جب بھی اس راستے سے گزرتا ہوں‘ مجھے سبزے کا یہ منظر سمٹتا دکھائی دیتا ہے۔ کیسی زرخیر زمین ہے یہ، میں ہمیشہ سوچتا ہوں۔ آسمان مہربان نہ ہو تو بھی زمین کی تہوں میں قدرت نے اتنا پانی ذخیرہ کر دیا ہے کہ فصلیں لہلہاتی رہتی ہیں۔ پودے مٹی اوڑھ لیں تو بھی یہ زمینیں سبزے کا بھرم قائم رکھتی ہیں۔ یہ امید کو باقی رکھتی ہیں کہ ان پودوں کے چہرے دھلیں گے اور یہ بھی کھیتوں سے ہم رنگ ہو جائیں گے۔ ان کھیتوں کا مٹ جانا امید کا مٹ جانا ہے۔ ایک سر سبز و شاداب پاکستان کی امید۔ خوراک کے باب میں خود کفالت کی امید۔
زرعی زمین کا خاتمہ اب محض جمالیاتی مسئلہ نہیں۔ اس کا تعلق مادی بقا کے ساتھ بھی بہت گہرا ہے۔ زیرِ زمین پانی کم ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہاؤسنگ سکیموں کی بھرمار ہے جو زمین کی زرخیزی کو نگل رہی ہیں۔ کوئی قانون ان کی پیش قدمی کو نہیں روک سکتا۔ یہ مافیا قانون سازوں ہی سے نہیں، کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ ریاست سے بھی بڑا ہے۔ اس کے لیے زمین اور انسان دونوں میں زیادہ فرق نہیں۔ یہ دونوں کی قیمت جانتا ہے۔ جو اس مافیا کو روک سکتے تھے، وہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ان کے دروازے پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ دریوزہ گری عزت ہی نہیں، منوانے کی ہمت بھی چھین لیتی ہے۔
حالات کی تلخی عجیب شے ہے۔ جمالیات کی بحث کو معیشت کے دائرے میں لے آتی ہے۔ لطافت کو کثافت سے بدل دیتی ہے۔ یہ حادثہ صرف فیض صاحب کو پیش نہیں آیا کہ حسنِ محبوب کی دلکشی پر کوچہ و بازار میں بکتے جسموں کی سڑاند غالب آ گئی ہو۔ زندگی محض رومان نہیں، ایک تلخ حقیقت بھی ہے۔ ایک حساس آدمی کے لے ممکن نہیں کہ اس تجربے سے نہ گزرے۔ برادرِ مکرم بابر اعوان بھی اپنے سسرال جاتے وقت اسی راستے سے ہو کر جاتے ہیں۔ پودوں اور پرندوں سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرنے والا یہ آدمی بھی یقیناً اس تجربے سے گزرتا ہو گا۔ زمین کی یہ بے توقیری اسے بھی اداس کرتی ہو گی۔ میں سوچتا ہوں: کیا یہ احساس کسی تحریک میں ڈھل سکتا ہے؟ سیاسی اور مسلکی وابستگیوں سے ماورا کوئی فورم بن سکتا ہے‘ جو زرخیز زمین کو بچانے کے لیے آواز اٹھائے؟
گاؤں جاتے وقت، جب ان سرسبز کھیتوں کو دیکھتا ہوں جو اس خشک سالی میں بھی اپنے بانکپن کو برقرار رکھے ہوئے ہیں تو ایک پرانا تصور انگڑائی لیتا اور ذہن کے دریچوں سے جھانکنے لگتا ہے۔ قدرت سرگوشی کرتی ہے کہ کوئی چاہے تو ویرانے میں بہار آ سکتی ہے۔ ناموافق ماحول میں بھی موافقت ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ بارش نہ ہو رہی ہو تو بھی کھیت سرسبز ہو سکتے ہیں۔
برسوں سے دل چاہتا ہے کہ شہر سے باہر ایک پُرسکون خطہء زمین ہو جہاں میں علم و حکمت کا ایک مرکز تعمیر کروں۔ جہاں ملک و ملت کو درپیش سیاسی، مذہبی، معاشی اور سماجی مسائل پر غور کیا جائے۔ مذاکرے ہوں۔ تعلیم کا ایک ادارہ ہو۔ مکالمے کا اہتمام ہو۔ سماج کو زندہ کرنے کا نسخہ تلاش کیا جائے۔ سیاست اب صرف اقتدار کی کشمکش کا نام ہے۔ قلم اسی سے آلودہ رہتا ہے کہ سکہ رائج الوقت یہی ہے۔ یہ احساس غالب ہے کہ توپ سے مچھر مارے جا رہے ہیں۔ وقت کا اس سے بہتر مصرف بھی ہو سکتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ مذہب اور سماج کے باب میں، پچھلے چند عشروں میں ایسا فکری کام ہوا ہے جسے اطلاقی صورت دے کر تعمیرِ ملت کا ایک علمی نقشہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ یہ کام ایک مرکز، ٹیم اور چند سال کی یکسوئی کا متقاضی ہے۔ اگر میرے پاس وسائل ہوتے یا میں کچھ صاحبان وسائل کو اس کام کی افادیت پر قائل کر سکتا تو کب کا یہ کام کر گزرتا۔ اس معاشرے کے بہت سے باصلاحیت نو جوان کارِ عبث میں وقت ضائع کرنے پر مجبور ہیں۔
مجھے سب سے زیادہ تشویش ان ذہین نوجوانوں کی ہے جو دینی مدارس سے فراغ ہوتے ہیں مگر اس تعلیم اور تربیت سے غیرمطمئن ہوتے ہیں‘ جو انہیں ملتی ہے۔ وہ ایک نئے جہانِِ فکر و عمل کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ معاشرے میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ دل چاہتا ہے کہ ایک مرکز ہو جہاں یہ ذہین نوجوان آئیں اور آسودگیء قلب و نظر کا سامان پائیں۔
گاؤں کی طرف مراجعت کا خیال آتا ہے تو بعد کی زندگی کا تصور اس مرکز کے خیال سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ سوچتا ہوں: 'کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار‘؟۔ آئے گی بھی یا نہیں۔ یہ میں نہیں جانتا۔ تاہم امید کا چراغ ہمیشہ روشن رہتا ہے۔ کیا معلوم عالم کا پروردگار غائبانہ مدد کر دے؟ کیا معلوم کسی بندہء خدا کا دھیان اس جانب چلا جائے۔
آ دمی اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہے۔ گاؤں کا سفر اکثر خیال کا سفر بن جاتا ہے۔ پودے خاک آلود ہیں۔ انہیں بارش کی شدید ضرورت ہے۔ اس سماج کا چہرہ بھی ایسے ہی آلودہ ہے، جہالت اور تعصب کی خاک سے۔ اسے بھی بارش کی شدید ضرورت ہے۔ فکرِ تازہ کی بارش کہ جو اس کے چہرے کو دھو ڈالے۔ جو اس کے لیے مشاطگی کا کام کرے۔