ایک اچھی سُر، سرحد کے اُس طرف چھیڑی جائے یا اِس طرف، اہلِ ذوق کو یکساں اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ ایک سریلی آواز، لتا منگیشکر کی ہو یا نور جہاں کی، پورے برصغیرکے باسیوں کو مسحور کرتی ہے۔ اچھا شعر حافظؔ کا ہو یا اقبالؔ کا، پاک ایران تقسیم کا پابند نہیں ہے۔ یہی نہیں، وہ شیعہ سنی تقسیم کا قائل ہے نہ مسلم ہندو کا۔ غالب کی پذیرائی صرف اہلِ اسلام تک محدود نہیں۔ تو کیا دانش بھی فن کی طرح آفاقی ہوتی ہے؟
ہم اس سوال کو صرف فنون تک محدود نہیں رکھتے۔ طبیعی علوم کو لیجیے! کیا آئن سٹائن اور ڈاکٹر عبدالسلام کو پرکھنے کے دو معیارات ہوں گے، ایک مغربی اور ایک مشرقی؟ اب سماجی علوم کی طرف آتے ہیں۔ کیا ابن رشد اور کانٹ کی پذیرائی مسلم اور غیر مسلم حلقوں میں ایک جیسی نہیں ہو گی؟ ہم جانتے ہیں کہ ان سب کا احترام مشرق و مغرب سے ماورا ہے۔ انہیں انسانیت کا مشترکہ ورثہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کائناتی اور آفاقی تناظر میں سوچتے اور غور کر تے ہیں۔ اب دانش کی ایک قسم وہ ہے جو عصری مسائل کو موضوع بناتی ہے۔ جو ایک زندہ معاشرے کو درپیش مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔ کیا یہ دانش بھی آفاقی ہو سکتی ہے؟
ایک مثال سے بات کو واضح کرتا ہوں۔ معاصر دنیا کے اہلِ دانش میں دو نام معتبر شمار ہوتے ہیں‘ نوم چومسکی اور ارون دتی رائے۔ چومسکی کا تعلق امریکہ سے ہے اور ارون دتی کا بھارت سے۔ چومسکی کی سوچ آفاقی ہے۔ وہ امریکی ہونے کے باوجود، امریکہ کو ایک بدمعاش ریاست کہتے ہے۔ امریکہ میں انہیں زیادہ پذیرائی نہیں ملتی‘ مگر ساری دنیا میں ان کا احترام کیا جاتا ہے۔ ارون دتی رائے اہلِ کشمیر پر بھارتی ریاست کے مظالم کی مذمت کرتی ہیں۔ وہ ریاست کے ان اقدامات کو چیلنج کرتی ہیں‘ جنہیں وہ عام لوگوں کے مفاد سے متصادم سمجھتی ہیں۔ ریاست اگر اجتماعی مفادات کے لیے ڈیم بناتی اور عام لوگوں کو بے گھر کرتی ہے تو وہ عوام کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہیں۔ بھارت میں ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھتا ہے مگر دنیا ان کی عزت کرتی ہے۔
امریکی شہری ہونے کی حیثیت سے، کیا چومسکی کا موقف درست ہے؟ ایک بھارتی شہری کو کیا وہی موقف اختیار کرنا چاہیے جو ارون دتی رائے کا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر میں برسوں سے غور کرتا آیا ہوں۔ دانش کو قومی مفاد کا پابند ہونا چاہیے یا اپنے ضمیر کا؟ ضمیر کی آواز اور حب الوطنی کے مطالبے میں تفاوت ہو تو کس کی بات مانی جائے؟
میں پاکستان سے بھی ایک ملتی جلتی مثال دے سکتا ہوں۔ پرویز ہود بھائی ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا کو ان ہتھیاروں سے پاک ہونا چاہیے۔ وہ جب اس موقف کا اطلاق پاکستان پر کرتے ہیں تو ان کی حب الوطنی زیرِ بحث آتی ہے۔ وہ خود کو ایک عالمی معاشرے کا شہری سمجھتے ہیں اور اس نسبت سے، ان لوگوں کے ساتھ ہم آہنگی محسوس کرتے ہیں جو دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہیں۔ اب ان کے بھارتی ساتھی بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں اور وہ پاکستان میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف۔کیا ان کا یہ اقدام حب الوطنی کے تقاضوں کے خلاف ہے؟
ایک اور زاویے سے بھی یہ سوال غور کا متقاضی ہے۔ وطن، قبیلے اور نسل کی محبت انسان کی فطرت میں ہے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان ان دائروں سے باہر نکلتا ہے۔ پاکستان کی سرحد سے باہر قدم رکھیں تو پاکستانی شناخت کا احساس گہرا ہونے لگتا ہے۔ یہی معاملہ دوسری عصبیتوں کا بھی ہے۔ ان عصبیتوں کی موجودگی میں کیا کوئی آفاقی سوچ پیدا کی جا سکتی ہے؟
رنگ و نسل کی عصبیت تو پرانی ہے۔ قدیم دور میں یہ نسلی عصبیت تھی جو سیاست میں ظہور کرتی تھی۔ جیسے رومی سلطنت۔ سیاسی عصبیت البتہ نئی ہے۔ اس میں جغرافیہ عصبیت کی بنیاد ٹھہرا۔ اسی کو نیشنلزم کا نام دیا گیا۔ اب قومی ریاست عصبیت کی علامت بن گئی۔ رنگ و نسل کے ساتھ، اب یہ تقسیم کی ایک اور بنیاد قرار پائی۔
دانش اپنے جوہر میں آفاقی ہوتی ہے۔ اسے پہلے بھی یہ چیلنج درپیش رہا کہ وہ کیسے رنگ و نسل سے ماورا ہو کر اپنے نتائجِ فکر بیان کرے ۔جیسے سقراط یا افلاطون۔دورِ جدید میں نیشنلزم کے مقابلے میں سوشلزم یاا سلام ازم نے آفاقیت کا تصور دیا۔نظریہ اپنی حقیقت میں آفاقی ہو تا ہے۔تاہم اس کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔نظریہ ،اختلاف کرنے والوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔یوں ایک درجے میں جاکر ،وہ خود تقسیم کی بنیاد بن جا تا ہے۔اس لیے نظریات کو بھی یہ چیلنج درپیش رہتا ہے کہ وہ انسانوں کے مابین کیسے عالمگیر سیاسی وحدت قائم کریں۔
نیشنلزم میں یہ صلاحیت جو ہری طور پر مو جود نہیں۔اس کے بر خلاف 'اسلام ازم‘ نے جس اسلامی ریاست کا تصور دیا،وہ عالمگیر ہے۔اسے آج کل عالمی خلافت کہا جا تا ہے۔دوسری طرف 'اشتراکی ریاست‘ بھی عالمگیر ہے۔اسلام ازم اور اشتراکیت دونوں کا موقف یہی ہے کہ وہ اسلامی یا اشتراکی انقلاب ابتدا میں کسی ایک خطہ زمین میں آئے گا۔پھر یہ خطہ عالمگیر انقلاب کے لیے جدو جہد کی بنیاد بن جا ئے گا۔اس کی تکمیل اسی وقت ہوگی جب یہ ساری دنیا ایک ریاست بن جائے گی، اسلامی یا اشتراکی۔
تو کیا انسان کی آخری منزل ایک عالمگیر ریاست ہے؟کیا رنگ و نسل اور جغرافیہ و مذہب کی یہ تقسیم عملاً ختم ہو جائے گی؟کیا آج کی دانش کا امتحان یہ ہے کہ وہ عالمگیر اجتماعیت کے لیے فکری بنیادیں فراہم کرے؟میرا جواب اثبات میں ہے۔دانش کی ایک سطح یہ ہے کہ وہ موجود حالات کا ادراک کرتے ہوئے انسانی مسائل کا حل پیش کرے۔جیسے ایک ملک کے مسائل یا قوم کے مسائل۔ ایک اعلیٰ سطح وہ ہے جہاں دانش موجود حالات سے ماورا عالمگیر سطح پر ظہور کر تی ہے۔
آج ہمیںدونوں سطحوں کی دانش درکار ہے۔میرا خیال ہے کہ مقامی یا قومی مسائل کے لیے بھی وہ دانش درکار ہے جو عالمگیر قدروں سے ہم آہنگ ہو۔ علامہ اقبال ہماری تاریخ کے پہلے اور آخری آدمی ہیں جنہوں نے دونوں سطحوں پر دانش کے مظاہر ہمارے سامنے رکھے۔ایک الگ مملکت کی صورت میں انہوں نے قومی سطح پر درپیش مسائل کا حل پیش کیا۔دوسری طرف فلسفہ سیاست کے باب میں انہوں نے بتا یا کہ اس وقت پین اسلامزم(Pan Islamism) کی جو بات ہورہی ہے،یہ در اصل' پین ہیومن ازم‘ (Pan Humanism)ہی ہے۔ یعنی ایک عالمگیر معاشرے کی تشکیل۔
بیسویں صدی میں،جن لوگوں نے نئے عہد کی تشکیل کی، میرا خیال ہے کہ انہیں اس تضاد کا اندازہ تھا جو قومی ریاست کے تصوراور عالمگیر امن اور وحدتِ آدم کے درمیان پیدا ہو گیا تھا۔ساتھ یہ بھی کہ آنے والے دنوں میں اجتماعیت کی اساس بدل جائے گی۔اسی لیے انہوں نے اقوامِ متحدہ کا ادارہ قائم کیا۔انسانی حقوق کا چارٹر دورِ جدید میں آفاقیت کی طرف پہلا قدم تھا۔نوم چومسکی اور ارون دتی رائے کی دانش کا تناظر بھی آفاقی ہے۔
میر احساس ہے کہ اسلام ہمیں اسی آفاقی معاشرے کی طرف لے جا نا چاہتا ہے۔قانون ِآزمائش کے تحت اس نے ایمانیات اور عقائد کے مباحث کو آخرت سے متعلق کر دیا اورساتھ ہی دنیا میں ایک عالمگیر معاشرے کی تشکیل کے راہنما اصول دے دیے۔اس کا پہلا مظہر میثاقِ مدینہ ہے اور آخری 'خطبہ حجۃ الوداع‘ جب اللہ کے آخری رسول سیدنا محمد ﷺ نے 'ایھاالناس‘ فرما کر پوری انسانیت کو اپنی چادرِ رحمت میں لے لیا۔
علامہ اقبال کے بعد مسلمانوں میں کوئی ایساذہین پیدا نہیں ہوا جو سماجی علوم کا ذوق رکھتا ہو اورساتھ ہی تاریخ کے عمل کو بھی سمجھا ہو ۔آج ہمیںقومی مفاد کو عالمگیر تناظر میں دیکھنا ہوگا۔عصری دانش کے لیے سوال یہ ہے کہ قومی ریاست کے ساتھ عالمگیر معاشرہ کیسے تشکیل پا سکتا ہے؟