"KNC" (space) message & send to 7575

دو طرفہ تشدد؟

25 نومبر کو جو کچھ ہوا، کیا وہ دو طرفہ تشدد کا معاملہ تھا؟
یہ مذہبی نقطہ نظر ہو یا سیکولر، طاقت کا استعمال ریاست اور حکومت کا یک طرفہ حق (Monopoly of Violence) تسلیم کیا گیا ہے۔ ریاست جب یہ خیال کرتی ہے کہ نظمِ اجتماعی کو باقی رکھنے کے لیے، یا عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر ہے تو وہ ایسا کر سکتی ہے۔ اپنے اسی حق کی بنیاد پر عدالت کسی فرد کو سزائے موت سناتی اور انتظامیہ اسے نافذ کرتی ہے۔ اقتدار کے بغیر کسی کی جان لینا یا کسی کے خلاف طاقت استعمال کرنا تشدد ہے۔ تشدد کا لفظ حکومت کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے سنیچر کو جو کچھ ہوا، یہ یک طرفہ تشدد کا معاملہ تھا۔
حکومت کو اہلیت کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔ اس سارے معاملے کے ساتھ جس طرح نمٹا گیا، اس نے حکومتی نااہلی کو تشت از بام کر دیا ہے۔ دو اڑھائی ہزار مظاہرین کو منتشر کرنا، اگر اہلیت ہو تو ایک اے سی کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ پندرہ دن کے بے معنی انتظار کے بعد بھی اگر لاشیں ہی اٹھنا تھیں تو یہ کسی بھی حکومت کی نااہلی کی بدترین مثال ہے۔ یہی نہیں، اس کے بعد بھی مظاہرین کا فیض آباد پر قبضہ نہ صرف برقرار ہے بلکہ حکومت کاخوف کئی گنا بڑھ چکا ہے۔
خوف اب اس حکومت کا تعارف بن چکا ہے۔ ایسی سہمی ہوئی اور خوف زدہ حکومت شاید ہی کسی نے دیکھی ہو۔ فوج کا خوف، عدالت کا خوف، مذہبی گروہوں کا خوف، غیر ریاستی اداروں کا خوف، خارجی خوف، معیشت کا خوف۔ جس کے دامن سے خوف اس طرح لپٹ جائے، وہ سب کچھ ہو سکتی ہے، حکومت نہیں۔ حکومت قوت اور اختیار کا نام ہے۔ اگر کوئی گروہ اس سے محروم ہو جائے تو اسے خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ حکومت کا استحقاق رکھتا ہے یا نہیں؟ احسن اقبال صاحب کو اپنے اس سوال کا جواب بھی یقیناً اب مل چکا ہو گا کہ پاکستان 'بنانا ریاست‘ ہے یا نہیں؟
یہ مسئلہ فی نفسہٖ گورننس کا تھا، مذہب کا نہیں۔ حکومت بیک وقت کئی محاذوں پر ناکام ہوئی۔ ایک تو وہ رائے عامہ کو یہ باور نہیں کرا سکی کہ یہ مسئلہ مذہب کا نہیں، قانون کی بالا دستی اور امن و امان کا ہے۔ یہ ابلاغ کا محاذ ہے۔ اُسے پہلے ہی دن کسی گروہ کا یہ حق مسترد کر دینا چاہیے تھا کہ وہ تنہا مذہب کا نمائندہ بن کر کھڑا ہو جائے‘ اور لوگوں کے اسلام اور ایمان کا فیصلہ کرے۔ یہ اس کی بڑی ناکامی تھی کہ جس بات کا تعلق ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے تھا، وہ تنہا اس کا ہدف بن گئی اور اس عمل کو روکنے میں بری طرح ناکام رہی۔
ابلاغ کی سطح پر حکومت کی ایک ناکامی یہ بھی ہے کہ وہ اس خوف کو بیان ہی نہیں کر سکی‘ جو اسے درپیش ہے۔ وہ یہ تو کہتی رہی کہ کسی کو لاشیں درکار ہیں۔ وہ کون ہے، حکومت اس کے چہرے سے پردہ نہیں اٹھا سکی۔ اس کو سامنے لانا چاہیے۔ خوف کا پہلا اثر اعصاب اور دوسرا ذہن پر ہوتا ہے۔ حکومت نے دونوں کے مفلوج ہونے کا تاثر دیا ہے۔
حکومت کی ایک ناکامی یہ بھی تھی کہ اپنے خوف کے باعث، وہ خود ہی ملزموں کے کٹہرے میں جا کھڑی ہوئی۔ اسے آگے بڑھ کر ایک گروہ کے اس حق کو مسترد کرنا چاہیے تھا کہ وہ لوگوں کے ایمان کے فیصلے کرے۔ اس کے برخلاف اس نے پہلے ہی دن دفاعی حکمت عملی اختیار کی اور یوں مسلسل پسپا ہوتی چلی گئی۔ اس نے ان گروہوں کا یہ حق تسلیم کیا کہ اس زمین پر وہی ہیں جو لوگوں کے دین و ایمان کا فیصلہ کرنے والے ہیں اور خود ہی ان کی عدالت میں بطور ملزم پیش ہو گئی۔
یہ معاملہ ایک خاص مسلک کے ایک گروہ سے متعلق تھا۔ اس مسلک کے لوگ حکومت کی صفوں میں موجود ہیں۔ ان لوگوں کے اثر و رسوخ سے کام لینا چاہیے تھا۔ انہیں ثالت کے بجائے حکومت کا نمائندہ بن کر مظاہرین سے بات کرنی چاہیے تھی۔ اس کے ساتھ وہ ان لوگوں کی مدد سے کچھ دوسرے لوگوں کے اثرات کو پھیلنے سے بھی روک سکتی تھی۔ حکومت اپنی اس قوت کو استعمال کرنے میں بھی مکمل ناکام ثابت ہوئی۔
یہی نہیں، تاخیر اور بصیرت سے محرومی کے باعث بھی معاملے کو آگے بڑھنے دیا گیا۔ یہاں تک کہ حکومت نے نہ اس صرف اس مسلک بلکہ دوسرے گروہوں کو بھی ان کے ساتھ شامل ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اس بصیرت افروز حکمتِ عملی کی صرف داد دی جا سکتی ہے۔ آج مذہبی حلقوں میں حکومت کا کوئی ہم نوا باقی نہیں ہے۔ شاید ہی کسی نے اتنی مہارت کے ساتھ لوگوں کو اپنے خلاف جمع کیا ہو۔
حکومت کی ایک ناکامی یہ ہے کہ اس نے خود اسلامی نظریاتی کونسل جیسے آئینی اداروں کو بے وقعت ثابت کیا‘ اور اس کی طرف رجوع سے گریز کیا۔ حکومت کو کہنا چاہیے تھا کہ اگر قانون سازی کے باب میں کسی معاملے کا تعلق مذہب کی تعلیمات سے تو ہمیں نظریاتی کونسل سے بات کرنی چاہیے۔ حکومت نے ایک آئینی ادارے کو نظر انداز کرتے ہوئے، خود ہی مذہب کی باگ ان مذہبی گروہوں کو تھما دی اور پھر اس کا انجام بھی دیکھ لیا۔
حکومت کو عدالت نے بھرپور موقع دیا کہ وہ مظاہرین کے خلاف قانون کو حرکت میں لائے۔ عدالت عالیہ نے یہاں تک کہا کہ حکومت خوف زدہ ہے تو وہ ممکنہ منفی اثرات کی ذمہ داری اپنے سر لیتی ہے۔ حکومت اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکی۔ خوف نے اس سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی چھین لی۔ عوام کی اکثریت اور عدالت کی تائید کے باوجود، اگر ایک حکومت دو ہزار مظاہرین پر قابو نہ پا سکے تو اسے پھر عدالت کے اس مشورے پر ضرور عمل کرنا چاہیے کہ 'ایک تقریر کریں کہ ہمیں حکومت نہیں کرنے دی جا رہی اور پھر گھر جائیں‘۔
حکومت کی ایک اور ناکامی فوج کا طلب کرنا ہے۔ یہ زبانِ حال سے اعلانِ عام ہے کہ سلامتی کے سول ادارے دو ہزار مظاہرین سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس سے یہ موقف ثابت ہوتا ہے کہ مرکز اور بالخصوص پنجاب میں، پولیس کی پیشہ ورانہ تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ یہ ماڈل ٹاؤن کے حادثے سے واضح ہے اور 25 نومبر کے واقعات سے بھی۔ جو پولیس دو ہزار مظاہرین پر قابو نہ پا سکے، وہ کیا پولیس ہو گی۔
ریاست کا ادارہ کیوں وجود میں آیا؟ سیاسیات کے تمام ماہرین اس کا ایک ہی جواب دیتے ہیں: شہریوں کے جان اور مال کا تحفظ۔ اسی ذمہ داری کے ادائیگی کے لیے، اللہ کی شریعت سے لے کر سیکولر قانون تک، سب نے ریاست کے لیے ان باتوں کو جائز ٹھہرایا ہے‘ جو فرد کرے تو ناجائز اور جرم شمار ہوتی ہیں۔ جیسے کسی کی جان لینا۔ جیسے کسی کے خلاف طاقت کا استعمال۔ جو ریاست عام آدمی کے جان و مال کی حفاظت میں ناکام ہو جائے وہ اپنا جواز کھو دیتی ہے۔
اس وقت ملک میں طوائف الملوکی ہے۔ جدید اصطلاح میں اسی کو 'بنانا ریپبلک‘ کہتے ہیں۔ ایک عام شہری مختلف اداروں اور گروہوں کے خوف میں مبتلا ہے۔ اس کے جان و مال کو ان سے خطرات لاحق ہیں۔ حکومت کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ عوام کی کیا حفاظت کرے گی جب وہ اپنے ایک وزیر کی حفاظت نہیں کر سکی۔ ہماری عوامی حکومتوں نے جس طرح رضاکارانہ طور پر اپنے اختیارات سے دست بردار ہوتے ہوئے، انہیں دوسرے ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کے حوالے کیا ہے، اس کے بعد حکومت کا وہی حال ہو سکتا ہے جو اس حکومت کا ہو رہا ہے۔
اب محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں صرف دو نظام ہائے اقتدار ہی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ایک مارشل لا اور دوسرا خلافت (بنو امیہ، بنو عباس یا عثمانیوں والی)۔ جمہوریت وغیرہ سب کہانیاں ہیں۔ جہاں سیاسی حکومت فوج کی مدد کے بغیر، دو ہزار مظاہرین پر قابو نہ پا سکے، وہاں کیسی جمہوریت۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں