"KNC" (space) message & send to 7575

مذہب و سیاست (3)… مذہبی اتحادوں کی سیاست

آئندہ انتخابات میں کیا مذہبی سیاست فیصلہ کن کردار ادا کر سکے گی؟
مذہبی سیاست کے علم بردار اس کوشش میں ہیں کہ مذہب کو حسبِ روایت سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تاہم اب اس کی نوعیت تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے مذہبی سیاست کا بیانیہ ایجابی تھا۔ مولانا مودودی کا فکری کام اور جماعت اسلامی کی منظم جدوجہد کے نتیجے میں، مذہب ایک متبادل سیاسی منشور کے طور پر سامنے آیا۔ اس کے پاس عقلی دلائل تھے اور عصری شعور بھی۔ تدریجاً یہ سارا عمل فکری پسِ منظر سے محروم ہوتے ہوتے روایتی سیاست کا حصہ بن گیا۔ مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے نام سے یہ کوشش ہوئی کہ عوام کے مذہبی جذبات سے سیاسی فائدہ اُٹھایا جائے۔ گزشتہ سالوں میں اس سے جو فائدہ کشید کیا جا سکتا تھا، وہ کیا جا چکا۔ اب اس میں کچھ باقی نہیں رہا۔ 
میرے خیال میں آج مذہب ایک سلبی پہلو کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ یہ کسی متبادل سیاسی بیانیے کا نام نہیں۔ یہ جذبات کا سادہ استعمال ہے۔ اب مذہب ایک منفی عامل ہے۔ یعنی اسے نواز شریف کے ووٹ توڑنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسے فتوے سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں کہ ''ن لیگ کو ووٹ دینا حرام ہے‘‘۔ فتویٰ بازی کا یہ عمل بتا رہا ہے کہ یہاں مذہب کوئی متبادل نہیں دے رہا‘ بلکہ ایک سیاسی قوت کو نقصان پہچانے کے استعمال ہو رہا ہے۔ کیا یہ عمل کامیاب ہو سکے گا؟ اس کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ 
تاریخ یہ ہے کہ عوام کے اجتماعی شعور نے اسے ہمیشہ رد کیا ہے۔ اس کا پہلا استعمال ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کیا گیا‘ جب سوشلزم کفر قرار پایا اور سوشلزم کو ووٹ دینے کے عمل کو حرام کہا گیا۔ پھر اسے بے نظیر بھٹو کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش ہوئی، جب اسلام میں عورت کی حکمرانی کو حرام کہا گیا۔ دونوں موقعوں پر سوادِ اعظم نے ایسے فتووں کو مسترد کر دیا۔ اس لیے میرے خیال میں اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ آج اسے نواز شریف کے خلاف بھی نتیجہ خیز بنایا جا سکے گا۔
میرے لیے حیرت کا مقام یہ ہے کہ ہمارے دانش وروں میں مذہب و سیاست کا یہ تعلق کسی سنجیدہ بحث کا عنوان نہیں بن سکا۔ جو نواز شریف کے حامی ہیں، انہیں اس کا پوری طرح ادراک نہیں ہو سکا۔ جو مخالف ہیں وہ اسی پر خوش ہیں کہ نواز شریف کو جس حوالے سے نقصان پہنچے، خوش آئند ہے۔ مذہب کے اس منفی استعمال سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، یہ کسی کا موضوع ہے نہ کسی کو اس سے دلچسپی ہے۔ یہاں زاہد حامد زیرِ بحث ہیں، رانا ثناء اللہ زیرِ بحث ہیں۔ لیکن جو چیز ام المسائل ہے، اس کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں۔
مذہب جب ایک سیاسی بیانیہ رکھتا تھا، تب بحث کا میدان نظری تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس باب میں بہت قابلِ قدر علمی کام بھی سامنے آیا‘ لیکن اب مذہب و سیاست کا باہمی تعلق جس دائرے میں داخل ہو گیا ہے، وہ تو ہر اعتبار سے تباہ کن ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہو گا جو اس سے پہلے مذہب کے سیاسی بیانیے کے ساتھ سرگرم رہے ہیں۔ مذہب کا سیاسی بیانیہ اب مزید غیر متعلق ہو جائے گا۔ اگر کچھ باقی رہے گا تو وہ اس کے نام پر جنم لینی والی عصبیت ہو گی۔ میں مدت سے توجہ دلا رہا ہوں کہ مذہب اب جذبات کا نام ہے یا عصبیت کا۔ 
مذہبی اتحادوںکا معاملہ اب مزید افسوسناک ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس بار صورتِ حال کچھ ایسی ہے کہ کم از کم تین اتحاد تشکیلی مراحل میں ہیں۔ ایک تو متحدہ مجلس عمل کو بحال کر نے کو شش کی جا رہی ہے۔ دوسرا اتحاد وہ ہے جسے مولانا فضل الرحمٰن کے بغیر کھڑا کرنے کی سعی ہو رہی ہے۔ تیسرا اتحاد وہ ہے جو بریلوی حضرات بنانے کی کوشش میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس بار سیاست میں اسلام کی نمائندگی کا علم تھامنے کا سب سے زیادہ استحقاق انہیں حاصل ہے کیونکہ یہ وہی تھے جنہوں نے ختمِ نبوت کے مسئلے پر میدانِ کارزار میں قدم رکھا اور سرخرو ہوئے۔ 
مذہبی اتحادوں کا یہ تنوع بتا رہا ہے کہ اس میں مذہب کی حرمت کسی کے پیشِ نظر نہیں۔ اگر مذہب کسی وحدتِ فکر و عمل کی علامت ہے تو وہ کیوں ان مذہبی جماعتوں کو یک جا نہیں کر رہا؟ یہاں تو ختمِ نبوت کی سیاست بھی الگ الگ ہو رہی ہے۔ صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ اصلاً مذہب کا سیاسی استعمال ہے۔ پیشِ نظر یہ ہے کہ اسے اقتدار تک پہنچنے کے لیے سیڑھی بنایا جائے۔
اب ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا پیر اور گدی نشین، اس بار خود میدانِ سیاست میں سرگرمِ عمل ہوں گے؟ پیروں کی سیاست یہی رہی ہے کہ انہوں نے براہ راست سیاست میں حصہ لینے سے گریز کیا۔ ان کی عزت بھی اسی میں تھی۔ وہ اگرچہ کسی ایک امیدوار کے حق میں اپنا وزن ڈال دیتے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود دوسرا فریق ان کی عزت کرتا ہے کہ وہ اقتدار کی کشمکش میں براہ راست کسی کے مدِ مقابل نہیں ہوتے۔
اگر انہوں نے براہ راست میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا تو میرا تجزیہ یہ ہے کہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا۔ نا صرف وہ کامیابی سے محروم رہیں گے بلکہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ اپنی اس مذہبی ساکھ کو بھی داؤ پر لگا دیں جو ان کی سماجی حیثیت کی بنیاد ہے۔ انہیں ن لیگ کے مقابلے میں کسی سیاسی جماعت ہی کا انتخاب کرنا پڑے گا؟ پنجاب میں یہ جماعت تحریکِ انصاف ہی ہو سکتی ہے۔ چونکہ ان گدی نشینوں کا تعلق بریلوی مسلک سے ہے، اس لیے یہ امکان مو جود ہے کہ یہ اپنے مسلکی سیاسی اتحاد کے پیچھے کھڑے ہو جائیں۔ انجام اس کا بھی وہی ہو گا جو ان کے انفرادی سطح پر سرگرم ہونے کا ہو گا۔
اس مذہبی سیاست کا نقصان سب کو ہو گا۔ سب سے زیادہ مذہب کو، پھر ریاست اور معاشرے کو۔ مذہبی کرداروں کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آنے والا۔ اس خطے کے لوگوں کی نفسیات یہ ہے کہ وہ مذہبی معاملات میں اہلِ مذہب کی بات مانتے ہیں مگر سیاسی فیصلے اپنے مسائل اور حالات کے مطابق کرتے ہیں۔ تاریخ یہ ہے کہ عوام نے مذہبی لوگوں کی سیاسی قیادت کو قبول نہیں کیا۔ اگر مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی جیسی مذہبی و علمی شخصیات اپنی سیاسی سیادت نہیں منوا سکیں تو ہما شما کا کوئی امکان نہیں۔ وہ لوگ تو علم و بصیرت ہی نہیں، اخلاق کے بھی اعلیٰ درجے پر تھے۔ اس کے باوجود لوگوں نے انہیں اپنا سیاسی راہنما نہیں مانا۔
یہ مذہبی اتحاد صرف ایک منفی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نواز شریف کا ووٹ بینک کم کریں یا پھر مذہبی سیاست کو مزید بے نتیجہ بنائیں۔ اس کے سوا انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اس لیے سیاسی بصیرت رکھنے والے مذہبی عناصر یہ کوشش کریں گے کہ اپنا مستقبل کسی سیاسی جماعت ہی سے وابستہ کریں۔ یہ سارا عمل ہمیں اس جانب متوجہ کر رہا ہے کہ مذہب و سیاست کے باہمی تعلق کو تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔
مذہب ایک سیاسی بیانیے سے محض ایک جذباتی پیغام بن چکا ہے۔ جن کا بیانیہ تھا، وہ تو مفلوج ہو چکے۔ اب مذہب کسی بیانیے کا نہیں، صرف جذبات کا نام ہے۔ مذہب سے محبت رکھنے والوں کے لیے یقیناً یہ کوئی خوش کن اطلاع نہیں ہے۔ ڈھلوان کا یہ سفر رک نہیں سکتا اگر ہم نے مذہب کے کردار کو نئے سرے سے متعین نہ کیا۔ افسوس کہ کسی کو اس کا خیال ہے نہ کوئی اس کی صلاحیت رکھتا ہے، الا ماشااللہ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں