سیاست فی الجملہ ایک فریب ہے مگر گستاخی معاف‘ سیاسی جماعتوں کی طرح مذہبی جماعتوں کے اتحاد اور اتحاد بین المسلمین کے تصورات اور نعرے بھی‘ میں نے اس ملک کی سیاست میں دیکھے‘ نہ سنے۔
اس فریب کا پہلا ہدف تو اِن جماعتوں کے وہ کارکن ہیں جو پورے اخلاص کے ساتھ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کی قیادت دین کے احیا اور اہلِ اسلام کی محبت میں ایسے اتحاد تشکیل دیتی اور یہ نعرے بلند کرتی ہے۔ وہ ایسے انتخابی اور سیاسی اتحادوں کا ایندھن بنتے اور پھر خالی جیب اور خالی ہاتھ کے ساتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ دوسرا ہدف اس ملک کے سادہ لوح عوام ہیں۔ عوام اگرچہ بحیثیت مجموعی باشعور اور ان نعروں کی حقیقت سے واقف ہیں لیکن ان کی ایک قابلِ ذکر تعداد ابھی تک سادہ لوح ہے۔ وہ بھی انہیں دل دے بیٹھتی ہے۔
یہ اتحاد یا نعرے پُرفریب کیوں ہیں؟ چند شواہد اس مؤقف کے حق میں پیش خدمت ہیں:
1۔ اگر ان مذہبی رہنماؤں کو اتحاد بین المسلمین اور نفاذِ اسلام اتنا عزیز ہے تو انہوں نے الگ الگ اپنی جماعتیں کیوں بنائی ہیں؟ یہاں نہ صرف ہر مسلک کی الگ جماعت ہے بلکہ مسلک کے اندر بھی کئی جماعتیں ہیں۔ جن لوگوں کا ظرف اتنا چھوٹا ہے کہ وہ اپنے ہی مسلک کے دوسرے فرد کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں‘ وہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور صدر روحانی پر برستے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے مفاد میں ایک کیوں نہیں ہو جاتے۔ جو حقیر ترین مفادات کی قربانی نہیں دے سکتے، وہ دوسروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اتحاد بین المسلمین کے لیے دنیا کی بادشاہتیں چھوڑ دیں۔
ایک مذہبی رہنما کو گوارا نہیں کہ دیوبندیوں کی قیادت دوسرے کو مل جائے۔یہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے سیاسی جماعتوں سے اتحاد کر رہے ہیں۔ ایک اور مذہبی رہنما کو دونوں قبول نہیں۔ انہوں نے اپنی جماعت بنا رکھی ہے۔ یہی معاملہ بریلویوں کا ہے۔ اہلِ حدیثوں کو دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان بھی کئی جماعتیں ہیں۔القدس کے تحفظ کے لیے مذہبی رہنما چاہتے ہیں کہ عالم اسلام متحد ہو جائے لیکن یہ لوگ خود متحد نہیں ہو سکتے۔
2۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کے علاوہ کسی جماعت کے پاس نفاذِ اسلام کا کوئی خاکہ موجود ہے نہ کوئی علمی و عقلی استدلال۔ اس خاکے پر بات ہو سکتی ہے مگر کوئی بنیاد تو موجود ہے۔ جماعت اسلامی تاریخی اعتبار سے بھی سب سے قدیم ہے۔ سوال یہ ہے کہ نفاذِ اسلام کے لیے مخلص لوگ جماعت اسلامی میں کیوں شامل نہیں ہو جاتے؟ یہاں تو شورائیت ہے‘ کوئی موروثیت بھی نہیں۔ طاہرالقادری صاحب نے سیاست میں قدم رکھا تو افکار کا ایک چربہ تیار کیا مگر اِن دنوں ان کی سیاست کا اس پروگرام سے کوئی تعلق ہے۔ نہ انہوں نے کبھی اس کا حوالہ دیا۔ وہ سراپا انتقام‘ ایک عام سیاست دان ہیں اور بس۔
3۔ یہ لوگ جماعت اسلامی میں کیوں شامل نہیں ہوتے؟ اس کا جواب تاریخ میں محفوظ ہے۔ تمام روایتی مکاتبِ فکر مولانا مودودی کو عالمِ دین مانتے ہیں نہ جماعت اسلامی کے افکار سے اتفاق رکھتے ہیں۔ 'مودودیت‘ ایک اصطلاح ہے جو ان حلقوں میں رائج ہے۔ اس کے رد میں اتنا لٹریچر تیار ہوا ہے کہ ایک لائبریری وجود میں آ سکتی ہے۔ میں پورے وثوق کے ساتھ یہ عرض کرتا ہوں کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں‘ اس باب میں جو تنقید سامنے آئی، یہ تمام مسالک آج بھی اس سے سرِ مو انحراف پر آمادہ نہیں۔ جماعت اسلامی اپنے افکار کی گرفت سے نکل چکی لیکن دوسرے تنقید کی گرفت سے نہیں نکلے۔
قاضی حسین احمد مرحوم کے دور ہی میں جماعت فکری طور پر جمعیت علمائے اسلام (ق) بن چکی تھی۔ قاضی صاحب نے پیشکش کی کہ وہ علما کی نشاندہی پر مولانا مودودی کی ان تعبیرات سے اعلانِ برأت کے لیے تیار ہیں جن پر انہیں اعتراض ہے مگر علما اس پر اکتفا کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ ان کے نزدیک اتحاد کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ جماعت اسلامی اپنے دستور کی اس شق کو بھی نکالے جس میں یہ کہا گیا کہ جماعت اللہ کے آخری رسولﷺ کے سوا کسی کو معیارِ حق نہیں مانتی۔ قاضی صاحب نے اس پر معذرت کی کہ دستوری تبدیلی ان کے بس میں نہیں۔ یوں یہ بات آگے نہ بڑھ سکی۔ مولانا زاہد الراشدی نے اس قصے کو تفصیلاً لکھ دیا ہے۔
4۔ مسالک کے مابین بھی اختلافات کی ایک تلخ تاریخ ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دیئے جا چکے اور میرے علم میں نہیں کہ کسی نے ان سے رجوع کیا ہو۔ یہ فتوے عام لوگوں نے نہیں‘ ایک مسلک کی بانی شخصیات نے دوسرے مسلک کے بانی شخصیات کے خلاف دے رکھے ہیں۔ کفر کا فتویٰ تو خیر بڑی جسارت ہے مگر علمی اختلاف کا اظہار اور تنقید اگر علمی دائرے میں ہو تو اس میں کوئی ہرج نہیں۔ مجھے اس اختلاف پر اعتراض نہیں۔ میرا اعتراض ان اتحادوں پر ہے جو ان فتووں کی موجودگی میں مصنوعی طور پر بنائے جاتے ہیں اور پھر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر تصویریں کھنچوائی جاتی ہیں تاکہ عامۃ الناس کو تاثر دیا جا سکے کہ ہم ایک ہیں۔
5۔ مسلک کی بنیاد پر تعلیمی یا علمی ادارہ تو بن سکتا ہے لیکن ایک سیاسی جماعت کی تشکیل کبھی میری سمجھ میں نہیں آ سکی۔ سیاسی جماعت ایک سیاسی منشور پر بنتی ہے۔ میں کسی مسلک سے واقف نہیں جو دوسروں سے مختلف سیاسی منشور رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان‘ دونوں نے 1970ء کے انتخابات میں جو منشور پیش کیا تھا، اس میں فقہ حنفی کے نفاذ کا اعلان کیا گیا تھا۔ جب کوئی الگ سیاسی پروگرام ہی نہیں تو الگ سیاسی جماعت بنانے کی ضرورت کیا ہے؟
6۔ ہر جماعت‘ مسلک یا شخصی اسباب کی بنیاد پر پہلے خود کو امت کے دوسرے گروہوں سے الگ کرتی ہے، جب اس طرح کی بہت سی جماعتیں وجود میں آ جاتی ہیں تو سب کو اتحاد بین المسلمین کی فکر کھانے لگتی ہے۔ پھر سب کہتے ہیں کہ آؤ مل کر کوئی ملی یکجہتی کونسل یا مجلسِ عمل بناتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سارے عمل میں کوئی اپنی انفرادیت کو قربان کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔
7۔ یہ معلوم ہے کہ اتحاد کی کوششوں میں دین زیرِ بحث نہیں آتا۔ اگر زیرِ بحث آتا ہے تو یہ کہ میری جماعت کے کتنے امیدوار ہوں گے اور دوسری جماعت کے کتنے؟ یہ سو فیصد ایک دنیاوی معاملہ ہوتا ہے جیسے دیگر اتحادوں میں ہوتا ہے۔ یا یہ کہ صدر کون ہو گا اور دوسرے عہدے کسے ملیں گے۔ یہی اتحاد جب ٹوٹتے ہیں تو پھر دنیاداروں کی طرح جوتوں میں دال بٹتی ہے۔
اس فہرست کو طویل کیا جا سکتا مگر یہ چند شواہد بھی یہ سمجھنے کے لیے کفایت کرتے ہیں کہ میں کیوں ایسے اتحادوں اور نعروں کو پُرفریب کہتا ہوں۔ میرے خیال میں تو اس ملک میں ان جماعتوں کی کوئی ضرورت باقی نہیں۔ ایک اسلامی دستور اور بہت سے آئینی اداروں کی موجودگی میں‘ جو ریاست کی اسلامی شناخت کے محافظ ہیں اور اس کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں، پاکستان میں کسی مذہبی سیاست کی ضرورت نہیں۔ لیکن مذہبی اتحادوں کے نام پر جس طرح عوام کے مذہبی جذبات اور مخلص کارکنوں کا استحصال ہوتا ہے، یہ ہماری تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔
انتخابات کی آمد آمد ہے اور اس بار ایک سے زائدہ مذہبی اتحاد وجود میں آ رہے ہیں۔ کوئی مسلک کو زندہ رکھنے کے لیے سیاسی اکھاڑے میں اترنا چاہتا ہے اور کوئی سیاسی مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے۔ ان مقاصد کے لیے مذہب کا سوئے استعمال میرے لیے باعثِ تشویش ہے۔ مذہبی جماعتوں کے اس طرزِ عمل نے مذہب بیزاری کے جس احساس کو جنم دیا، میں اسے نئی نسل میں ایک تحریک بنتے دیکھ رہا ہوں۔ کوئی ہے جسے اس کا اندازہ ہے؟