لوگ توہم پرستی اور روحانیت میں فرق نہیں کرتے۔ عمران خان کا قصہ بھی یہی ہے۔
روحانیت کیا ہے؟ میں ایک غیر مرئی وجودبھی رکھتا ہوں۔ یہ میرا اخلاقی وجود ہے۔ مذہب کی نظر میں روحانیت یہ ہے کہ میں اسے پاکیزہ بناؤں۔ اس کو تزکیہ نفس کہتے ہیں۔ میرا وجود اتنا اجلا ہو جائے کہ میں اپنے پروردگار کے پسندیدہ لوگوں میں شمار کیا جاؤں۔ اس کے لیے مجھے اپنے رب کی شعوری معرفت چاہیے۔ یہاں تک کہ میں بن دیکھے، اس طرح اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤں جیسے میں اسے بچشمِ سر دیکھ رہا ہوں۔ اس معرفت سے میں یہ جان پاؤں کہ کس طرح صبح و شام مجھ پر اس کی چادرِ رحمت سایہ فگن رہتی ہے۔ یوں اس کی بے پناہ محبت اس طرح میرے وجود کا احاطہ کرلے کہ میری جبین میں پنہاںسجدے اس کے آستانے کی تلاش میں نکل پڑیں۔ اس مرحلے پر، میں پیغمبروں کے دروازے پر جا دستک دوں ۔ اُن سے جانوں کہ اللہ کی عبادت کیسے کرنی ہے اور اس کے ساتھ اپنا تعلق کیسے قائم رکھنا ہے۔
توہم پرستی کیا ہے؟ میںکسی ایسے سہارے کی تلاش میں سرگرداں رہوںجو ماورائے اسباب میری خواہشوں کو عملی حقیقت میں بدل ڈالے۔ کوئی انسان جو ماضی اور مستقبل کے پردے کو چیر کر مجھے میری خبر دے۔ کوئی پتھر جسے میںاپنی انگوٹھی میں سجا لوںاور میرے لیے زندگی آسان ہو جائے۔ کوئی وظیفہ، جسے دھراتا رہوں اور راستے طے ہوتے جائیں۔ میں ہر قدم اُٹھانے سے پہلے کسی ''روحانی‘‘دوست سے رابطہ کروں اور اس کی ہدایت پر زندگی کے فیصلے کروں۔ وہ بتائے کہ میں مقدمہ کیسے جیت سکتا ہوں۔ مجھے کس تاریخ کو سفر کرنا چاہیے۔
عمران خان نے اپنی زندگی کے اوراق کوایک کتاب کے صفحات کی شکل دے دی ہے۔ ان کی سوانح حیات، خود ان کے قلم سے مرتب موجود ہے۔ اس کے مطابق،ا ن کو پہلا ''روحانی‘‘ تجربہ بچپن میں ہوا، جب ایک پیرنی نے ان کے جھوٹ کا پول کھول دیا۔ انہوں نے قرآن مجید ختم نہیں کیا تھا مگر گھر والوں کو بتایا کہ ختم ہو گیا۔ اس جھوٹ سے وہ واقف تھے یامولوی صاحب۔ ان کی والدہ کی پیرنی گھر میں آئیں تو انہوں نے سب کوسچ بتا دیا۔ عمران خان حیران ہوئے کہ انہیں کیسے پتہ چلا ؟ اس پیرنی نے یہ بشارت بھی سنائی کہ عمران نہ صرف مشہور ہوگا بلکہ اچھا بچہ بن جائے گا۔
کتاب میں لکھا ہے کہ وہ ایک بار دوستوں کے ساتھ شکار پرگئے۔ وہاں ایک روحانی شخصیت سے ملے۔ اس نے انہیں یہ بتا کر حیران کردیا کہ عمران خان کی اتنی بہنیں ہیں اور ساتھ ہی ان کے نام بھی بتائے۔ ان کے دوست کے کاروبارکا بتایا اور یہ بھی کہ اس نے کتنے پیسوں کی سرمایہ کاری کی اوراس کاروبار کا کیا انجام ہوگا۔ عمران خان جو ابھی مذہب اور روحانیت کی طرف مائل نہیں ہوئے تھے، انہیں حیرت تھی کہ یہ لوگ سب کچھ کیسے جان لیتے ہیں؟
پھر میاں بشیر ان کی زندگی میں آئے۔ یہ بھی کتاب میں لکھا ہے کہ جس ''روحانی‘‘ شخصیت سے وہ سب سے زیادہ متاثرہوئے، وہ میاں بشیر ہیں۔ پہلی ہی ملاقات میں، انہوں نے یہ بتا کر عمران کو حیران کر دیا کہ ان کی والدہ بچپن میں کون سی آیت پڑھ کر ان پر پھونکا کرتی تھیں۔ انہوں نے عمران ہی کو نہیں،ایک دفعہ تو جمائمہ کو بھی حیران و پریشان کر دیا جو ان کی روحانیت کو تشکیک کی نظروں سے دیکھتی تھیں۔ میاں بشیر نے جمائمہ سے کہا کہ وہ اپنی تین خواہشات ایک کاغذ پر لکھے اور اسے ایک طرف رکھ دے۔ میاں بشیر انگریزی نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے بغیر دیکھے جمائمہ کو بتا دیا کہ کاغذ پر کیا لکھا ہے۔ میاں بشیر نے ہسپتال سے لے کر بوتھم کے خلاف مقدمے تک،ہر معاملہ میں ان کا ہاتھ تھاما اور انہیں پہلے ہی خبر دے دی کہ کیا ہونے والا ہے۔ میاں صاحب غیب ہی نہیںبتاتے تھے، وہ عمرن خان کو اچھی اچھی باتوں کی نصیحت بھی کرتے تھے‘ جیسے قرآن پڑھو‘اچھے کام کرو۔
عمران کو پروفیسر رفیق اختر صاحب کی دہلیز تک بھی لے جایاگیا لیکن یہاں سے فیض پانا شاید ان کے مقدر میں نہیں تھا۔ پروفیسر صاحب میاں بشیر طرز کی روحانی شخصیت نہیں ہیں۔ وہ انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں سے واقف ایک صوفی ہیں۔ نفسیات جانے بغیر کوئی آدمی کامیاب صوفی نہیں بن سکتا۔ وہ اپنے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کرتے۔ وہ بھی لوگوں کو ان کی زندگی کے بعض واقعات بتا کرچونکا دیتے ہیں لیکن وہ اس کا سبب اپنی 'روحانیت‘ کو قرار نہیں دیتے۔ اس کا ماخذ ان کے نزدیک ان کا عمومی مشاہدہ اورعلم الاعداد ہے، جس کے بارے میں ان کے معتقدین کا خیال ہے کہ ابن عربی کے بعد،اس علم کاان سے بڑا ماہر پیدا نہیں ہوا۔
پروفیسر صاحب بھی انسانی کمزوریوں اور مسائل کا حل اسمائے حسنیٰ کے دھرانے میں بتاتے ہیں مگر اس کے ساتھ لوگوں کو ایک مشکل سوال کے سامنے لاکھڑا کرتے ہیں؛ اللہ تعالیٰ ان کی ترجیحات میں کہاں ہے؟ ان کے نزدیک انسان کی کامیابی کا انحصار اس سوال کے جواب پر ہے۔ یہ روحانیت لگتا ہے عمران خان کو زیادہ بھائی نہیں۔ وہ دہلیز تک تو آئے مگر یہیں سے لوٹ جانا مناسب سمجھا۔
ان دنوں عمران خان 'روحانیت‘ کی کس منزل پر ہیں، میرا علم اس معاملے میںآپ سے زیادہ نہیں۔ اخباری خبروں کی تصدیق کا کوئی ذریعہ میرے پاس نہیں۔ جو یقینی ذرائع سے مجھ تک پہنچا، جیسے ان کی کتاب ، وہ میں نے بیان کر دیاہے۔ اسی بنیاد پر میں یہ ذاتی رائے رکھتا ہوں کہ وہ توہم پرستی ہی کو روحانیت سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کی طرح کا ایک پڑھا لکھا جدیدآدمی یہ سب کچھ کیسے مان لیتا ہے؟
عمران خان ایسے آ دمی ہیں جس نے مادی زندگی میں وہ سب کچھ پا لیا، لوگ جس کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اطمینان اور آسودگی خارج میں نہیں، اس کے اندر ہے۔ اس کا ادراک مادی اعتبار سے کامیاب آدمی کواس وقت ہوتا ہے‘ جب وہ کسی بڑے حادثے سے گزرتا ہے یا اس کا مادی وجود مضمحل ہو کر دنیاوی لذتوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے قابل نہیں رہتا۔ اس کے اندر سے آسودگی کے مطالبات اٹھتے ہیں مگر اس کا جسم اس کا ساتھ نہیں دیتا یا خارجی دنیا انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔
یہ مر حلہ عام طور پر فلمی اداکاروں یا مقبول کھلاڑیوں کی زندگی میں آتا ہے۔ پھر مایوسی انہیں گھیرنے لگتی ہے۔ کچھ لوگ تنہائی یا منشیات میں آسودگی تلاش کرتے ہیں اور ایک روز اپنے فلیٹ میں مردہ پائے جاتے ہیں جیسے بھارتی اداکارہ پروین بوبی۔ کچھ لوگ تبلیغی جماعت یا کسی مذہبی گروہ سے وابستہ ہو جاتے ہیں جیسے سعید انور۔ کچھ لوگ اپنی دلچسپی کا شعبہ تبدیل کر لیتے اور یوں زندگی سے دور نہیں رہتے۔ وسائل اور شہرت ایک حد تک ان پر مہربان رہتے ہیں۔ جیسے سیاست یا سماجی کام۔ تاہم مکمل اطمینان پھر بھی نہیں مل پاتا۔
ایسے لوگ پھر زندگی کو مابعد الطبیعیات کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس کا ظہور ان کی زندگی میں ان کے سماجی پس منظرا ور ذہنی سطح کے مطابق ہوتا ہے۔ عمران خان بھی مجھے اسی نفسیاتی بحران کا شکار محسوس ہوتے ہیں۔ اس سے ان کی زندگی میں بعض بہت مثبت تبدیلیاں آئیں۔ لیکن ایک منفی تبدیلی یہ بھی آئی کہ وہ روحانیت کے دھوکے میں توہم پرستی کا شکار ہو گئے۔ انتقام اور سچ جھوٹ میںبے نیازی کی وہ جس منزل پر ہیں،یہ خود اس کی دلیل ہے کہ وہ روحانیت سے کتنا دور ہیں۔
میری دعا ہے کہ اس مرحلے پر کوئی ایسا ان کی زندگی میں آ جائے جو انہیں توہمات کے دائرے سے نکال کر روحانیت کے حقیقی دنیا میں لے آئے۔ان کا روحانی پوٹینشل شاید اس قوم کو ایسا لیڈر دے دے جس کی تلاش میں خلقِ خدا ان کی طرف والہانہ انداز میں لپکی اور اب دن بدن مایوس ہو رہی ہے۔