ہم نے زخموں پر مرہم رکھنا اور انہیں سینا ہے یا پھر ان کا کاروبار کرنا ہے؟ہمیں اب ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔
مشاہدہ یہ ہے کہ لاشوں کو لوگ جنس ِ بازار بنا لیتے ہیں۔ سیاسی، مذہبی اور صحافتی گدھ جائے حادثہ پر منڈلانے لگتے ہیں۔ ہر حادثے سے سیاسی اور کاروباری مفاد کشید کرتے ہیں۔ جذبات کا کاروبار سب سے آسان ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی انسانی احساسات کے نام پر اور کبھی بنامِ حرمتِ وطن ۔ سب حسنِ ظن دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک جیسے واقعات پر ایک شخصیت یا ایک جماعت کا ردِ عمل مختلف ہو تا ہے۔ لوگ احتجاج کے لیے پشاور سے قصور پہنچ جاتے ہیں مگر پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان نہیں جاتے۔
میں ایک بیٹی کا باپ ہوں۔ جانتا ہوں کہ زینب کے باپ پر کیا گزری ہو گی۔ کرب کی یہ شدت اگر برسوں احساس کی آنچ پرپڑی رہے تو شاید وہ پیمانہ وجود میں آئے جس سے زینب کی ماں کا دکھ ماپا جا سکے۔ باعثِ اطمینان ہے کہ قوم نے اس دکھ کو محسوس کیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کا اظہار کیسے ہو رہا ہے۔ عرب لوگ بھی موت کا دکھ مناتے تھے۔ عورتیں بین کرتیں اور گال پیٹتیں۔ زبانِ حق ترجمان سے فرمان جاری ہوا: 'جس نے بین کیا،اپنی گالوں کو پیٹا ،وہ ہم میں سے نہیں‘۔
ہمیں آج غم زدہ خاندان کو پرسا دینا ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ ہر گھر میں ایک نہ ایک زینت تو ضرور مو جود ہے۔ ہمیں سب کے تحفظ کا اہتمام کر نا ہے۔ یہ کام زخموں اور لاشوں کی تجارت کرنے والے نہیں کر سکتے۔ ان کے کاروبار کا تقاضا ہے کہ زخم لگتے رہیں اور ان کی دکان چلتی رہے۔ اس کے لیے ان لوگوں کو بروئے کار آنا ہوگا جن کے مفادات اس تجارت سے وابستہ نہیں۔ جنہیں انسانی حرمت زیادہ عزیز ہے۔
پہلی بات: ہر جرم حکومت کی کمزوری اور نااہلی کا اظہار ہے۔ جرم اسی وقت پنپتا ہے جب قانون کی گرفت کمزور ہوتی ہے۔ پنجاب پولیس جرم کے استیصال میں ناکام رہی ہے۔ اس کو تشکیلِ نو کی اشد ضرورت ہے مگر صوبائی حکومت اس باب میں مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی ہے۔ پنجاب پولیس جرم اوراحتجاج کو سنبھالنے میں پریشان کن حد تک نااہل ثابت ہوئی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ پہلے روز احتجاج میں شامل چند سو افراد کو قابو میں لانا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ جو پولیس چند سو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے دو افراد کی جان لے لے اور پھر بھی ناکام ہو، اس کی نااہلی کے حق میں کیا کوئی اور دلیل چاہیے؟ جرم باقی ہے ا وراحتجاج کو زائل کرنے کی صلاحیت بھی نہیں۔
یہ پہلا واقعہ نہیں۔ ماڈل ٹاؤن کے واقعے سے لے کر فیض آباد راولپنڈی تک، اس نااہلی کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ یہ پولیس کے ساتھ ساتھ انتظامی سطح پر صوبائی حکومت کی بھی نااہلی ہے۔ ایران میں کچھ دن پہلے حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عالمی سطح پر چیخ و پکار ہوئی کہ عرب بہار کے بعد ایرانی بہار آگئی۔ تاثریہ تھا کہ1979ء کے بعد ایران ایک نئے انقلاب کی دہلیز پرکھڑا ہے۔ مگر ہوا کیا؟ حکومت بروئے کار آئی اورچند دنوں میں مکمل امن ہو گیا۔ مظاہروں کے راہنما ، سابق صدر احمدی نژاد ان دنوںجیل میں ہیں۔ اب راوی، ایران کے باب میں مکمل چین لکھ رہا ہے۔
دوسری بات: اب ناگزیر ہو گیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایسے حادثات کے بارے میں باشعور بنائیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہم انہیں زندگی کے ان کمزورپہلوئوں کے بارے میں تعلیم دیں‘ جن سے ان کی معصومیت پر حملہ کیا جا تا ہے۔ اس تعلیم کو ہم اپنے سماجی حساسیت کا خیال رکھتے ہوئے مرتب کر سکتے ہیں۔ میں جب پہلی بار انڈونیشیا گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں کی سب سے بڑی مذہبی جماعت 'نہضتہ العلما‘ کے شعبۂ خواتین 'المسلمات‘ نے ایک تربیتی پروگرام تشکیل دیا ہے کہ کیسے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والی بچیوں کو آئندہ آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں پہلے سے آگاہ کیا جائے۔ دنیا بھر میں ایسے حادثات کم سن بچیوں اور بچوں دونوں کو پیش آتے ہیں۔ ضروری ہے کہ سب کو اس کی تعلیم دی جائے کہ وہ کیسے خود کوایسے حادثات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
تیسری بات:یہ عام جرم نہیں ہے۔ اکثر ایسے واقعات میں ملوث مجرم نفسیاتی مریض ہوتے ہیں۔ ایسی درندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسانی فطرت مسخ ہو جائے۔ اس کا جائزہ بھی لینا چاہیے کہ ہمارے ہاں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا جنسی اعتبار سے ایک ناآسودہ اورغیر مطمئن (frustrated) معاشرے میں ایسے واقعات کا امکان بڑھ جا تا ہے؟ رشتوں پر غیر فطری انحصار کیا ایسے حادثات کا سبب بن سکتا ہے؟
میر احساس ہے کہ اس واقعے کو ایک سنجیدہ سماجی مسئلے کا عنوان بننا چاہیے۔ حکومت کی نااہلی اپنی جگہ مگر یہ اس کا صرف ایک پہلو ہے۔ لازم ہے کہ سماجی طبقات اس کو دوسرے حوالوں سے بھی سمجھیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ کچھ ٹی وی چینلز پر اس حادثے کو سماجی حوالے سے زیرِ بحث لایا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے،'اڈاری‘ کے عنوان سے ایک ٹی وی سیریل میں بچوں کے جنسی استحصال کو مو ضوع بنایا گیا تھا۔ یہ بات اب ہمیں سمجھنا ہو گی کہ ایسے موضوعات مغرب کا ایجنڈا نہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کے سلگتے مسائل ہیں۔ اس کے لیے سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ والدین کی تربیت کی جائے۔
میرے شہید دوست ڈاکٹر فاروق خان ایک مذہبی سکالرہو نے کے ساتھ ایک ماہر نفسیات بھی تھے۔ انہوں نے 1990 ء کی دہائی میں کہا تھا کہ بچوںکوجنسی معاملات کے بارے میں تعلیم دی جائے۔ انہیں سمجھایا جائے کہ کیسے اس پہلو سے ان کا استحصال ہو سکتا ہے۔ افسوس کہ اسے ایک مغرب زدہ فکر قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔ آج ان واقعات کا تسلسل چیخ چیخ کر اس کی اہمیت کو نمایاں کر رہا ہے۔
چوتھی بات: جو لوگ ایسے حادثات کو سیاست کا موضوع بناتے ہیں، ان کے خلاف سماجی سطح پر مہم اٹھانی چاہیے۔ ایسے واقعات میں انتظامی نااہلی تو ہو سکتی ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ کوئی صوبائی حکومت خود چاہے کہ ایسے واقعات ہوں۔ اگر کہیں سیاسی قوتیں ایسے مجرموں کی پشت پناہی کریں تو پھر ایسے سیاسی کرداروں کے خلاف بھرپورآواز بلند ہونی چاہیے۔ کیا المیہ ہے کہ مذہبی لبادے میں ایک سیاست دان لواحقین کی اجازت اور آمد کا انتظار کیے بغیرجنازے کی امامت کوپہنچ جاتا ہے۔ دوسرا مذہبی راہنمااحتجاج کی امامت کرنے کو موجود ہو تا ہے۔ اس رجحان کا خاتمہ لازم ہے۔
پانچویں بات: ہمارا سماجی ڈھانچا کمزور ہو چکا۔ خاندان، پڑوس ،سب رشتے اور تصورات دم توڑتے جا رہے ہیں۔ ہمارے تو بدمعاش بھی جرم سمجھتے تھے کہ محلے کی بہو بیٹی کی طرف میلی آنکھ سے دیکھیں۔ آج فضا بدل چکی۔ اقدار کا کوئی لحاظ نہیں۔ افسوس یہ ہے کہ کسی کو رشتوں اورتعلقات کی کوئی پروا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سماجی روایات کی تشکیل اور حفاظت پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ سماج کسی کی دلچسپی کا میدان نہیں۔ ہر کوئی ہیجان پھیلانے میں مصروف ہے۔ اگر ہیجان سماجی قدر بن جائے تو پھر وہی کچھ ہو تا ہے جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔
زینب کواگر سب اپنی بیٹی سمجھیں تو کوئی اس کی لاش کو سیاست کا موضوع نہ بنائے۔ اربابِ حکومت اگرہر گھر میں بیٹھی زینب کو اپنی بیٹی جانیں تو ایسے حادثات پر ان کی نیندیں اچاٹ ہو جائیں۔ میڈیا اگر بریکنگ نیوز کی تلاش میں چادر اور چاردیواری کے تقدس کو ملحوظ رکھے تو یوں معاشرے میں اشتعال کو ہوا نہ دے۔
زینب کا خون ہم سے ایک ہی سوال کر رہا ہے: میرے بعد کیا ہوگا؟ ہم زخموں پر مرہم رکھیں گے، انہیں سیئیں گے یا پھر اس کی تجارت کریں گے؟
(پس تحریر: پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کی مہارت علم الحروف میں ہے۔ گزشتہ کالم میں علم الاعداد کا ذکر ہوا جو ایک سہو تھا۔)