نواز شریف سے نفرت، کیا ایسا حجاب بن چکا کہ کچھ لوگ پیش پا افتادہ حقائق کو دیکھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکے؟
برادرم فاروق عادل کی کتاب ''جو صورت نظر آئی‘‘ گزشتہ دنوں زیر مطالعہ رہی۔ ایک خوش قلم نے چند شخصیات کے باب میں اپنے تاثرات و مشاہدات کو جمع کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے تہذیبی وقار کو جس حسنِ بیان کے ساتھ نبھایا ہے، وہ قابلِ رشک ہے۔ ہماری تہذیب کا ایک پہلو وہ ہے جسے بہادر شاہ ظفر نے بیان کیا۔ 'طیش میں خوفِ خدا اور عیش میں یادِ خدا‘ اگر نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں تو ہمارا تہذیبی وجود منہدم ہو جاتا ہے۔ گویا تعلق بااللہ اس تہذیب کی ایک اہم قدر ہے۔ ہمیں تو یہ سکھایا گیا ہے کہ کسی قوم کے ساتھ دشمنی میں بھی انصاف کا دامن چھوٹنے نہ پائے۔ تہذیب اب ہمارے لیے شلوار کے پائنچوں اور چہرے کے نقاب تک محدود ہو گئی ہے۔ ہم ان کے طول و عرض میں تہذیب تلاش کرتے اور پھر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم نے اپنی تہذیب کو بچا لیا۔
فاروق عادل صاحب نے یاد دلایا کہ تہذیب کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جذبات و تاثرات کا اظہار کس پیرائے میں ہو۔ حق گوئی کی آڑ میں، اگر کوئی دشنام اور الزام کو روا رکھتا ہے تو اس کو سوچنا چاہیے کہ وہ اس تہذیب کے دائرے سے نکل گیا، بزعمِ خویش، وہ جس سے اپنا تعلق جتاتا ہے۔ مصنف نے اس پل صراط کو کیسے عبور کیا، اس کا بطور خاص مظاہرہ الطاف حسین کے خاکے میں ملتا ہے۔ یہ محض ایک مثال ہے‘ ورنہ ہمیں کتاب کے ہر خاکے ا ور ہر صفحے پر اس کے مظاہر ملتے ہیں۔ اسلوب ایسا دلچسپ ہے کہ پڑھنے والا کتاب اسی وقت ہاتھ سے رکھتا ہے جب وہ ختم ہو جاتی ہے۔ ہر اچھی چیز کا المیہ یہ ہے کہ وہ ختم ہو جاتی ہے۔
کتاب میں ایک خاکہ محمد صلاح الدین شہید کا بھی لکھا ہے۔ یہ ہماری صحافتی تاریخ کا ایک ممتاز نام ہے جس نے جو صحیح سمجھا ، اسے بیان کیا اور اس راہ میں کوئی خوف اور لالچ اس کی راہ میں حائل نہ ہوا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے‘ جنہوں نے پیپلز پارٹی اور بھٹو مخالفت کو سیاسی عقیدے میں بدل ڈالا۔ 1970ء کی دھائی میں اس ملک میں جس سیاسی انتہا پسندی نے جنم لیا، اس کو فروغ دینے میں ان کا کردار بنیادی ہے۔ وہ پیپلز پارٹی دشمنی میں ایک ایسی انتہا پر تھے کہ انہوں نے اس کے لیے اپنی پہلی محبت جماعت اسلامی کو بھی قربان کر دیا۔
اپنے ہفت روزے ''تکبیر‘‘ کے فورم سے انہوں نے اس موقف کو سیاسی عقیدے کی صورت میں پیش کیا کہ پاکستان میں پیپلز پارٹی سے بڑی برائی کوئی نہیں۔ یہ عقیدہ انہوں نے جماعت اسلامی سے لیا تھا۔ جب جماعت اسلامی ہی کے ایک امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے اس عقیدے کو چیلنج کیا‘ اور یہ تصور دیا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک جیسی برائیاں ہیں تو اس کے رد میں صلاح الدین صاحب نے اپنی تمام صلاحیتیں صرف کر ڈالیں۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا سوادِ اعظم ان کا ہم نوا رہا۔ اس کے ووٹ بینک کے بڑے حصے نے اپنا وزن مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈال دیا۔ پاکستان اسلامک فرنٹ کو 1993ء کے انتخابات میں جو شکستِ فاش ہوئی، اسے واقعہ بنانے میں صلاح الدین صاحب کا کردار بنیادی تھا۔ جماعت اسلامی کی تاریخ میں یہ پہلی اور تادمِ تحریر آخری بار ایسا ہوا کہ اکثریت نے امیر کی بات کو نہیں مانا۔
انہی انتخابات میں نواز شریف صاحب بھٹو مخالف طبقے کے غیر متنازع لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ جماعت اسلامی اور ''تکبیر‘‘ کے درمیان تلخی کی فضا پیدا ہوئی۔ جماعت کے کارکنوں نے ایک بار ''تکبیر‘‘ کے پرچے نذرِ آتش کر دیے۔ اس حادثے پر محترمی منور حسن صاحب کا تبصرہ تھا کہ جھوٹ کے پلندے کو جلایا جا رہا ہے۔ فاروق عادل ''تکبیر‘‘ میں صلاح الدین صاحب کے فریقِ کار تھے۔ اپنی کتاب میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ بعد میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے باب میں اپنی رائے سے رجوع کر لیا تھا۔ فاروق صاحب کا خیال ہے کہ مرحوم کے موقف میں اگر اعتدال پیدا ہوا تو اس میں ان کا بھی حصہ تھا۔
کتاب کے مصنف کے لیے دعا ہے کہ اللہ انہیں اس کا اجرِ خیر دے مگر صلاح الدین شہید جیسے لوگوں کی مساعی سے، اس قوم میں جس سیاسی انتہا پسندی نے جنم لیا، اس کا حساب کون دے گا؟ پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کے باب میں معاشرے کا ایک بڑا طبقہ نفرت میں اتنا آگے چلا گیا کہ وہ ان کو تختہ دار پر چڑھانے کے لیے ایک فوجی آمر کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ وہ ان کی موت پر مٹھایاں بانٹتا رہا۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر اس وقت کی سیاسی جماعتیں بھٹو دشمنی میں ایک فوجی آمر کا ساتھ نہ دیتیں تو شاید وہ انہیں پھانسی دینے کی ہمت نہ کر سکتا۔
اُس وقت کا سیاسی منظر سامنے رکھیے کہ ایک فوجی آمر بھٹو صاحب کو راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔ عدالت کا فیصلے اس کے اس ارادے کی تکمیل میں معاون بن رہا ہے‘ اور سیاسی جماعتیں اسے عوامی تائید فراہم کر رہی ہیں۔ میڈیا کا ایک موثر طبقہ یہ فضا بنا رہا ہے کہ بھٹو جیسی برائی کوئی دوسری نہیں ہو سکتی۔ اس کے نتیجے میں ملک میں ایک ایسی تقسیم کی بنیاد رکھ دی گئی جس نے وفاق کو خطرات کے حوالے کر دیا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے اقتدار کا تسلسل ہے‘ جو دراصل بھٹو کی پھانسی کا وہ تاوان ہے جو سندھ کے لوگ ابھی تک ادا کر رہے ہیں۔
کیا ہم اس منظر کو ایک بار پھر دہرانا چاہتے ہیں؟ مجھے تو یہی دکھائی دے رہا ہے۔ محض نواز دشمنی میں سیاسی جماعتیں خود عدالت میں جا کر پارلیمنٹ کے حقِ قانون سازی کو چیلنج کر رہی ہیں۔ تحسین کے مستحق ہیں سینیٹر فرحت اللہ بابر، جنہوں نے اپنی پارٹی کے اس اقدام کے خلاف سینیٹ میں آواز اٹھائی اور اسے جمہوری قدروں کے خلاف قرار دیا ہے۔ ایسے لوگ اب سیاست میں کم ہوتے جا رہے ہیں۔ عمران خان کی نواز دشمنی تو اتنی واضح ہے کہ کسی دلیل کی محتاج نہیں۔ سیاسی جماعتیں اس حقیقت کو نظر انداز کر رہی ہیں کہ سیاسی امور کے فیصلے جب اہلِ سیاست کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں‘ تو پھر جمہوریت کے پاؤں بھی اُکھڑ جاتے ہیں۔
جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ اس میں کوئی مطلق العنان نہیں ہوتا۔ یہ اختیارات کی تقسیم کے اصول پر آگے بڑھتی ہے۔ اگر ریاست کا کوئی ایک ستون اپنی ذات میں اختیارات کا ارتکاز کرنا چاہے تو اس سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ جمہوریت کو سلامت رکھنے کی زیادہ ذمہ داری اہلِ سیاست اور میڈیا پر ہے۔ سیاست دانوں کو نواز شریف کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنا چاہیے۔ اگر انہوں نے غیر سیاسی کندھوں پر انحصار کیا‘ اور محض نواز شریف کی نفرت میں اختیارات کے عدم توازن کی حمایت کی تو ریاست اور معاشرہ دونوں خسارے میں رہیں گے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس وقت جو سیاسی پیش قدمی ہو رہی ہے اور جس کے نتیجے میں نواز شریف کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے‘ اس کی بنیاد ایک ایسے عدالتی فیصلے پر ہے‘ جسے عمران خان بھی کمزور قرار دے چکے۔ کمزور بنیادوں پر کوئی مضبوط عمارت کیسے کھڑی ہو سکتی ہے؟ یہ اسی عدالتی فیصلے کا ایک نتیجہ ہے کہ ن لیگ ملک کی سب سے بڑی جماعت ہوتے ہوئے بھی سینیٹ کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔ آج نواز شریف کو ملک کی سب سے بڑی اور واحد برائی ثابت کرنے کی مہم اپنے عروج پر ہے۔
مصنف کے شگفتہ اسلوب کا حظ اٹھاتے اٹھاتے بات کسی اور طرف نکل گئی۔ مجھے لگا کہ تاریخ اپنے آپ کو دھرا رہی ہے، صرف اس تبدیلی کے ساتھ کہ پیپلز پارٹی کہ جگہ مسلم لیگ اور مسلم لیگ کی جگہ پیپلز پارٹی نے لے لی ہے۔ بد قسمتی سے صلاح الدین صاحب کی گدی بھی اُسی طرح آباد ہے۔