جمہوریت جیت گئی مگر کیا سیاسی جماعتیں بھی فتح مند رہیں؟
سیاست اور اخلاقیات کے تقاضوں کو بیک وقت نبھانا محال ہے، شاید ناممکن۔ سیاست اقتدار کے لیے کی جاتی ہے اور میرے علم میں نہیں کہ تاریخ میں کسی ایسے پر یہ دروازے کھلے ہوں جو اخلاقی اقدار کو مقدم رکھتا ہو، الا یہ کہ اس کے لیے آسمان سے کوئی فیصلہ اترا ہو جیسے اللہ کے رسول یا پھر خلفائے راشدین۔ اللہ نے ان سے اقتدار کا وعدہ کیا (سورہ نور) اور اس سے بڑھ کر وعدہ نبھانے والا کون ہو سکتا ہے۔
تاہم تاریخ میں ایسے جلیل القدر لوگ بھی ہو گزرے ہیں جنہوں نے سیاست کا انتخاب کیا اور ساتھ ہی اخلاقیات کی بھی پاسداری کی ہو۔ ان کے مقدر میں کوئی بڑی کامیابی تو نہ آ سکی مگر انہوں نے سیاست میں اقدار کا علم بلند کیے رکھا۔ نیک نامی کمائی اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔ سیاست میں لوگ نیک نامی کے لیے نہیں آتے، اقتدار کے لیے آتے ہیں اس لیے ایسے لوگ قابلِ تقلید نہیں ٹھہرتے۔ میکائولی کو بلا وجہ مطعون کیا جاتا ہے۔ اُس نے اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ سیاست میں کامیاب لوگوں کے تجربات کو چند سیاسی اصولوں کی صورت میں مدون کر دیا۔
سیاست میں مگر اخلاقیات کا بیان ضرور ہونا چاہیے۔ اخلاقیات کی بات ہوتی رہنی چاہیے تاکہ ایک آئیڈیل ہمیشہ پیشِ نظر رہے۔ آئیڈیل کا ذکر ہوتا رہے تو اس کا یہ فائدہ بہرحال ضرور ہوتا ہے کہ اس کی تلاش جاری رہتی ہے۔ اس سفر میں ایسے مراحل ضرور آتے ہیںجب مسافر نقصان کو فائدے پر ترجیح دیتا ہے۔ اس سے سیاسی عمل ارتقا سے گزرتا اور خیر کی جانب پیش قدمی کرتا ہے۔ سیاست میں ایک کامیابی تو یہ ہے کہ کوئی اقتدار تک پہنچ جائے۔ کامیابی کی ایک صورت یہ بھی ہے آپ سیاست میں کسی مثبت قدر کے فروغ کا باعث بنے ہوں۔ مولانا ابوالکلام آزاد یا مولانا مودودی جیسے لوگ حسبِ خواہش سیاسی تبدیلی نہیں لا سکے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے سیاست میں اختلاف کی شائستہ روایت کو فروغ دیا۔
یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہے کہ وہ سیاسی فوائد کے ساتھ اس بات کو بھی سامنے رکھیں کہ بحیثیت مجموعی وہ سیاست اور سماج میں کن روایات کو فروغ دے رہی ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات بتا رہے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس معاملے میں بحیثیت مجموعی ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی پہلی ذمہ داری اچھے امیدوارں کا انتخاب تھا۔ جمہوری اداروں کی کامیابی یا ساکھ کا بڑا انحصار اس بات پر ہے کہ ان کی نمائندگی کرنے والے اخلاقی اور علمی اعتبار سے کس سطح کے ہیں۔
مجھے افسوس ہے کہ سیاسی جماعتوں نے جن لوگوں کو سینیٹ میں بھیجا، چند کے استثنا کے ساتھ، ان کی وجہ شہرت، سیاسی جدوجہد، علمی وجاہت یا اخلاقی برتری نہیں۔ اکثر کا تعارف محض یہ ہے کہ وہ اہلِ ثروت میں سے ہیں۔ رضا ربانی یا مشاہد حسین سید کے ساتھ شاید کوئی ایک آدھ نام ایسا لیا جا سکتا ہے جن سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ سینیٹ کے وقار میں اضافہ کرے گا۔ ایک وقت تھا جب جماعت اسلامی نے اپنی نمائندگی کے لیے پروفیسر خورشید احمد صاحب کو سینیٹ میں بھیجا۔ سینیٹ میں انہوں نے جو تقاریر کیں، وہ شائع شدہ ہیں۔ ان کی رائے سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس میں شبہ نہیں کہ یہ قومی مسائل کا ایک سنجیدہ جائزہ ہے۔
آج ن لیگ نے کیا مشاہد صاحب کے علاوہ کوئی ایسا فرد سینیٹ میں بھیجا ہے، کل جس کی تقاریر کو شائع کرکے، وہ عوام کو دکھا سکے کہ یہ ہے وہ مظہر جو ثابت کرتا ہے کہ ہم نے پارلیمنٹ کے وقار میں اضافہ کیا ہے؟ اس ملک میں تبدیلی کا دعویٰ کر نے والی جماعت کیا قوم کو بتا سکتی ہے کہ یہ ہیں وہ دو افراد جو جمہوری عمل کو مثبت طور پر متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ سینیٹ کے امیدواروں کے انتخاب میں اس غیر سنجیدگی کے بعد، کیا عوام کے دلوں میں ان اداروں کا احترام پیدا کیا جا سکتا ہے؟ میں یہ بات مان کر اپنی بات آگے بڑھا رہا ہوں کہ سیاست میں سب کچھ مثالی نہیں ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسے مثالی بنانے میں سیاسی جماعتوں نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے۔
دوسرا مرحلہ انتخاب کا تھا۔ پیپلز پارٹی نے بطورِ خاص جس رویے کا اظہار کیا، وہ جمہوریت کے لیے تباہ کن ہے۔ پیپلز پارٹی کو میں اس بات کی داد دیتا ہوں کہ انہوں نے اقلیتوں کی نمائندگی کے لیے عام لوگوں کا انتخاب کیا۔ لیکن بلوچستان سے سرمایے کی بنیاد پر سیاسی فضا کو تبدیل کر نے کا جو عمل شروع ہوا‘ اور پھر سندھ میں اس کا جس طرح ظہور ہوا، اس سے سیاسی عمل ترقیٔ معکوس کا شکار ہوا ہے۔ اس کے اثرات برسوں محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ اس رویے نے اس نقطۂ نظر کو تقویت پہنچائی ہے جو اہلِ سیاست کو مسائل کا سبب قرار دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا عدالتی نظام زرداری صاحب کو صادق اور امین قرار دے چکا ہے۔ وہ کرپشن کے سب الزامات سے بری ہو چکے۔
سیاسی جماعتوں کی اس ناکامی کے ساتھ، جمہوریت کی فتح یہ ہے کہ اس عمل کو سبو تاژ کرنے کی خواہش امرِ واقعہ نہیں بن سکی۔ لوگ یہ تمنا کر رہے تھے کہ نواز شریف صاحب کے نام کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا جائے گا۔ میں ایک عرصے سے یہ بات سمجھانے کی کوشش میں ہوں کہ کسی فرد یا گروہ کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے تو کسی غیر سیاسی عمل سے یہ ممکن نہیں کہ اسے ختم کیا جا سکے۔ آج سیاسی عمل پر نواز شریف کی گرفت سے انکار کے لیے بصارت سے محرومی شرط ہے۔
میں جب عصبیت کی بات کرتا ہوں تو یہ غلط یا صحیح کا تعین نہیں ہوتا۔ اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ عصبیت کسی کے صاحبِ خیر ہونے کی دلیل ہے۔ سیاسیات میں اس کا ذکر بطور امرِ واقعہ کیا جاتا ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ حقِ اقتدار عصبیت کی وجہ سے ثابت ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کا پہلا مقصد استحکام ہے۔ یہ استحکام اسی وقت آتا ہے جب حکمران اور عوام میں اعتماد کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ اگر اہلِ اقتدار عوام کے لیے اجنبی ہوں یا وہ اس سے قربت محسوس نہ کرتے ہوں تو عوامی سطح پر کسی لمحے اضطراب پیدا ہو سکتا ہے۔ بدیسی حکمرانوں کے خلاف آزادی کی تحریکیں اسی جذبے کے تحت چلی ہیں۔
نواز شریف صاحب کی سیاسی عصبیت کا انکار کرتے ہوئے، جس طرح سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی، اب تجربات سے واضح ہو گیا کہ وہ ایک قدم بھی نہیں چل سکا۔ عدالتی فیصلے سیاسی عمل کو متاثر نہیں کر سکے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ عدالتی فیصلے غلط تھے۔ عدالتی فیصلوں کی صحت اور عدم صحت کی بحث دوسری ہے۔ یہ اس کا محل نہیں ہے۔ یہاں صرف یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ سیاسی موت و حیات کے فیصلے میدانِ سیاست میں ہوتے ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو دو دن پہلے سپریم کورٹ کے جج، جسٹس دوست محمد نے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی تنازعات کو عدالتوں میں لانے سے مسائل پیدا ہوئے۔ ان سے مارشل لا کی راہ ہموار ہوئی۔ باندازِ دیگر، میں مہینوں سے یہی بات عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
سینیٹ کے انتخاباتی نتائج ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ سیاست کو اس کے فطری اسلوب میں آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ ان انتخابات کا مثبت پہلو ہے کہ بحران کے باوجود ہمارا سماجی اور سیاسی ارتقا جاری ہے۔ اگر ہم اسی جذبے کے ساتھ عام انتخابات کا مرحلہ بھی طے کر گئے تو اس سے انشا اللہ پاکستان کو وہ سیاسی استحکام نصیب ہو گا ہمیں جس کی شدید ضرورت ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ لوگ نواز شریف صاحب کے وجود کو ایک امرِ واقعہ کے طور پر قبول کر لیں گے۔ سیاست کا میدان البتہ قسمت آزمائی کے لیے ہمیشہ کھلا رہے گا۔ وہاں اگر نواز شکنی کی مشق جاری رہتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔