عوام اور اہلِ سیاست کا باہمی رشتہ کیا ہے: رومانوی، نظریاتی یا پھر عملی؟
اہلِ عرب کے اس بصیرت آمیز جملے کو مولانا ابوالکلام آزاد نے برِصغیر میں مقبول بنایا کہ: 'سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ سیاست دانوں سے دل نہیں لگایا جا سکتا۔ اگر سیاست کے سینے میں دل نہیں تو سیاست دانوں کے سینے میں دل کہاں؟ سیاست اقتدار کے لیے کی جاتی ہے۔ تاریخ کا سبق بھی یہ ہے کہ اقتدار کی کشمکش میں رشتے قربان کر دیے جاتے ہیں۔ یہ وہ قربان گاہ ہے جہاں باپ اور بھائیوں کو بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ ماضی کے قصے نہیں، آج کی کہانی بھی ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ رومانوی تعلق وہی قائم کر سکتا ہے جو عقل و خرد سے بیگانہ ہو جائے۔
سیاست دان عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ انہیں سبز باغ دکھاتے ہیں۔ ان سے دلی تعلق جتاتے ہیں۔ کبھی مذہب کا واسطہ دیتے ہیں۔ کبھی ملک و قوم کی دہائی دیتے ہیں۔ اس کی اہمیت بالعموم ایک سیاسی حربے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ان باتوں میں ایک حد تک سچائی بھی ہو سکتی ہے مگر اس کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب سیاسی مفادات اور ان جذبات کا باہم ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اس امتحان میں دیکھا یہی گیا ہے کہ مفادات کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔ یہ عوام کی سادہ لوحی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو دل دے بیٹھتے ہیں جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔
تو کیا ان سیاست دانوں سے تعلق نظریاتی ہونا چاہیے۔ میرا احساس ہے کہ یہ بھی ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔ نظریاتی سیاست کا ایک دور تھا جو گزر چکا۔ اب نظریات سیاسی عمل کی تشکیل میں زیادہ اہم نہیں رہے۔ آج جنہیں ہم نظریات کہتے ہیں، وہ دراصل عصری سیاسی و سماجی حقائق کی فکری تجسیم ہے۔ نظریاتی سیاست یہ ہے کہ آپ کوئی نظریہ رکھتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ سیاست کی صورت گری اس کی روشنی میں ہو جیسے بیسویں صدی میں اشتراکیت یا اسلامی نظام کی سیاست تھی۔
ان نظریاتی تحریکوں کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ایک نظریہ آیا اور پھر اس پر ایمان لانے والوں نے ریاستی و سماجی اداروں کو ان نظریات کی روشنی میں ترتیب دینا چاہا۔ بعض لوگ کسی حد تک اس میں کامیاب رہے جیسے اشتراکیوں نے سوویت یونین کی ریاست کھڑی کر دی۔ کامیابی اور ناکامی سے قطع نظر، یہ ایک دور تھا جو گزر گیا۔ اب دنیا میں کہیں بھی نظریاتی سیاست نہیں ہو رہی۔ آج یہ سب کتابی باتیں ہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ اب صرف ذہنی طور پر پسماندہ لوگوں کا مشغلہ ہے۔ وہ جو ابھی بیسویں صدی میں زندہ ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا بھی ان کے ساتھ تھم گئی ہے۔ یہ لوگ اب بھی لوگوں کو ایک نظریاتی ریاست کا خواب دکھاتے ہیں‘ اور ان سے وفاداری کی بیعت لیتے ہیں۔ ممکن ہے ان میں کچھ مخلصین بھی ہوں لیکن اخلاص کبھی ذہنی بلوغت کا متبادل نہیں ہو سکتا‘ لہٰذا اس مشق کا کوئی عملی نتیجہ برآمد نہیں ہونے والا۔
تو کیا عوام اور سیاست دانوں کا رشتہ عملی ہونا چاہیے؟ میرا رجحان یہی ہے۔ اس عملی رشتے سے مراد کیا ہے؟ سیاست ریاستی امور کی صورت گری کا نام ہے۔ ریاست کی ضرورت انسان کو دو وجہ سے پیش آئی۔ ایک یہ کہ انسانی معاشرے کو ایسا سیاسی بندوست میسر آ جائے جو جنگل کے قانون کا متبادل ہو۔ وہ معاشرے کو کسی نظم کے تابع کر دے۔ ایسا نظام جو عام لوگوں کے جان و مال کو تحفظ دے سکے۔ جہاں طاقت ور کمزور کے حقوق غصب نہ کرے۔ دوسرا یہ کہ جہاں ایک با صلاحیت فرد کو ایسے مواقع فراہم ہوں جو اس کے سماجی ارتقا کو ممکن بنائیں۔
ایسے نظام کی فراہمی اہلِ سیاست کا کام ہے۔ عوام کو صرف یہ دیکھنا ہے کہ سیاست دانوں میں کون ایسا ہے جو انہیں قانون کی حکمرانی دے سکتا ہے؟ کون ہے جو ان کے جان و مال کے تحفظ کا اہتمام کر سکتا ہے؟ کون ہے جو ان کے لیے ایسے مواقع بہم پہنچا سکتا ہے جو ان کے سماجی و معاشی ارتقا کی ضمانت بن جائیں۔ مثال کے طور پر معاشی ارتقا ممکن نہیں اگر کسی ملک میں معاشی سرگرمیوں کی افراط نہیں۔ ایسے سرگرمیاں وہیں جاری رہ سکتی ہیں جہاں سرمایے کے نشوونما کے لیے سازگار ماحول میسر آئے۔
عوام کو دیکھنا یہ ہے کہ کون سا سیاست دان ایسا ہے جو ان کے سیاسی و سماجی ارتقا کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کر سکتا ہے۔ کون ہے جو ان کے حقوق کی حفاظت کر سکتا ہے۔ کون ہے جو انہیں امن دے سکتا ہے۔ کون ہے جو انہیں داخلی اور خارجی خطرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ یہ اندازِ نظر اسی وقت پیدا ہو گا جب سیاست دانوں کے ساتھ عوام کا عملی تعلق ہو گا۔ لوگ اپنی عملی ضروریات کے پیمانے پر سیاست دانوں کو پرکھیں گے۔ وہ حقیقت پسندی کے ساتھ یہ دیکھیں گے کہ کون اس کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے‘ اور اس باب میں اس کا اخلاص محسوس کیا جا سکتا ہے۔
رومان محبت کو جنم دیتا ہے اور نظریہ عقیدت کو۔ محبت اور عقیدت کا مشترکہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ حقیقت کو قبول کرنے میں حجاب بن جاتے ہیں۔ محبت محبوب کی خامیوں سے صرفِ نظر سکھاتی ہے اور عقیدت نام ہی اندھے اعتماد کا۔ سیاست دانوں سے اگر محبت اور عقیدت کا رشتہ قائم ہو جائے تو لوگ ان کا احتساب نہیں کر سکتے۔ موروثی سیاست کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ لوگ کسی فرد یا خاندان کی محبت میں ایسے گرفتار ہو جاتے ہیں کہ اس کا حقیقت پسندانہ تجزیہ نہیں کر سکتے۔ اہلِ سیاست انہی جذبات کا استحصال کرتے ہیں اور پھر برسوں عوام کی گردنوں پر سوار رہتے ہیں۔
اگر اہلِ سیاست سے عملی تعلق ہو تو لوگ ہر لمحہ ان کا احتساب کرتے ہیں۔ پھر وہ یہ دیکھتے ہیں کہ سیاست دانوں نے عوام کے لیے کیا کیا یا کیا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر وہ حکمران رہ چکے ہوں تو لوگ دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اس عرصۂ اقتدار میں عوام کے لیے کیا کیا۔ انہیں امن فراہم کیا یا نہیں؟ ان کے لیے معاشی ترقی کے مواقع پیدا کیے یا نہیں؟ ان کے حقوق کا تحفظ کیا یا نہیں؟
جمہوریت عوام اور سیاست دانوں میں عملی تعلق پیدا کرتی ہے۔ وہ سیاسی رومان کو مسترد کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری نظام میں یہ ہر وقت ممکن ہوتا ہے کہ لوگ اپنے اربابِ اقتدار کو بدل ڈالیں۔ رائے کی تبدیلی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب ہم حقیقت پسندی کے ساتھ کسی کے قول و فعل کا جائزہ لینے پر آمادہ ہوں۔ ہم سیاست دانوں کو ان کی کارکردگی کے پیمانے پر ناپیں۔ رومانوی یا نظریاتی سیاست کے علم بردار یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ ہیجان میں مبتلا رہیں۔ وہ کبھی سنجیدگی کے ساتھ مسائل پر غور نہ کریں۔ یہ لوگوں کو ایک خیالی جنت کے خواب دکھاتے ہیں۔ ایسی سیاست میں لوگوں کو شخصیات کا اسیر بنایا جاتا ہے، ان کے سیاسی پروگرام یا صلاحیت کا کم ہی ذکر ہوتا ہے۔
آج عوام انتخابات کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ ان کے پاس ہر طرح کے لوگ آئیں گے۔ کوئی خود کو مسیحا بنا کر پیش کرے گا کہ لوگ اس کے ساتھ ایک رومان میں مبتلا رہیں۔ کوئی نظریات کا نعرہ بلند کرے گا کہ لوگوں کا فکری اور مذہبی استحصال کر سکے۔ اس ملک کے عوام کو میرا مشورہ یہ ہو گا کہ وہ کسی محبت اور عقیدت میں مبتلا ہوئے بغیر یہ دیکھیں کہ کون ان کے مسائل حل کر سکتا ہے۔ کون ان کو معاشی خوش حالی دے سکتا ہے؟ کون ان کے بنیادی مسائل حل کر سکتا ہے؟ کون انہیں غیر ضروری دشمنیوں اور قضیوں سے نجات دلا سکتا ہے۔ سیاست ہمیشہ عملی ہوتی ہے اور اس کا کام عوام کو جان و ما ل کا تحفظ دینا اور ان کی سماجی و معاشی ترقی کے اسباب فراہم کرنا ہے۔ عوام کو انتخابات میں صرف یہ دیکھنا ہے کہ کون اس کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔