فزکس میرا میدان نہیں‘ تو کیا میں سٹیفن ہاکنگ کے بارے میں کلام کر نے کا استحقاق رکھتا ہوں؟
اگر ہاکنگ محض ایک ماہرِ طبیعات ہوتے تو میرا جواب نفی میں ہوتا۔ ان کا میدان نظری طبیعات تھا۔ انہوں نے ایسے موضوعات پر کلام کیا جن کا مذہب اور فلاسفے سے بھی علاقہ ہے۔ پھر یہ کہ ان کے سبب سائنس کے مباحث ان لوگوں تک بھی پہنچے جواس علم میں اختصاص نہیں رکھتے۔ بعض لوگ چونکہ سائنس کو مذہب کے بالمقابل ایک ماخذِ علم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور پھر یہ کہ ہما شما کا یہ حق سمجھا جاتا ہے کہ وہ مذہب کے میدان میں طبع آزمائی کرے، قطع نظر اس کے کہ وہ مذہب کے مبادیات سے بھی واقف ہے یا نہیں، اس لیے سٹیفن ہاکنگ صرف ان لوگوں کی دلچسپی کا موضوع نہیں جن کا میدان فزکس ہے۔ یوں ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ جواز پیدا ہو جاتا ہے کہ ان کے بارے میں جاری بحث کا حصہ بن جائیں۔
ہاکنگ کی کتاب 'وقت کی مختصرتاریخ‘ کا شمار سب سے زیادہ بکنے والی کتب (Best Seller) میں ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اس فہرست میں شامل‘ آج تک سب سے کم پڑھی جانی والی کتاب ہے۔ گویا لوگ فیشن کے طور پر خرید تو لیتے ہیں مگر پڑھنے کا حوصلہ یا صلاحیت نہیں رکھتے۔ بعض اوقات کسی وجہ سے‘ ایک مصنف کی کتب کا حوالہ پڑھا لکھا ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ یہ تاثر مستحکم ہو جاتا ہے کہ اس سے عدم واقفیت جہالت کی علامت ہے۔ یوں لوگ اس کی کتابوں کو خرید لیتے ہیں تاکہ بوقتِ ضرورت حوالہ دے سکیں۔ سٹیفن ہاکنگ بھی انہی لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان لوگوں کی یہ برکت ضرور ہوتی ہے کہ کسی بہانے سے ہی‘ علم کی بات تو ہونے لگتی ہے۔
ہاکنگ کی وفات پر‘ صرف اردو اخبارات اور ویب سائٹس پر اتنے مضامین پڑھنے کو ملے کہ خوشگوار حیرت ہوئی۔ لوگوں کی زیادہ دلچسپی مذہب اور سائنس کے باہمی تعلق سے رہی۔ یوں ان مباحث کا احیا ہوا جو صدیوں سے فکر و فلسفے میں زیرِ بحث ہیں۔ ان مضامین سے بھی یہ تاثر ملا کہ لوگ مذہب اور سائنس کو متوازی ماخذاتِ علم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ مقدمہ محلِ نظر ہے۔
یہ محض اتفاق ہے کہ ہاکنگ کا انتقال ہوا تو ماہنامہ 'الرسالہ‘ میرے زیرِ مطالعہ تھا۔ مارچ 2018ء کا یہ شمارہ مولانا وحید الدین خاں کی ایک طویل تحریر پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے 'امتِ مسلمہ کا فائنل رول‘ کو موضوع بنایا ہے۔ مولانا، میرے علم کی حد تک دورِ جدید کے پہلے عالم ہیں جنہوں نے اس بات کا ادراک کیا کہ مذہب کو علمِ جدید کا ایک چیلنج درپیش ہے اور یہ چیلنج ایک نئے علمِ کلام کا متقاضی ہے۔
ماضی میں سرسیّد احمد خان، مولانا شبلی نعمانی اور علامہ اقبال ایسی شخصیات ہو گزری ہیں جنہوں نے اس کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھا۔ سرسیّد نے اپنے عہد کے فلسفۂ سائنس اور سائنسی تحقیق کے نتائج یا مفروضوں کو معیار مان کر مذہبی تصورات کی تاویل کی۔ علامہ اقبال نے فلسفیانہ حوالے سے اس چیلنج کی نشاندہی کی۔ شبلی نے فنی پہلو سے جدید علمِ کلام کا خاکہ پیش کیا۔ ان قابلِ قدر کاوشوں نے فکرِ اسلامی کو آگے بڑھایا اور اس بات کی ضرورت واضح ہوئی کہ مذہب کا مقدمہ علمِ جدید کے معیار پر پورا اترنا چاہیے۔
مولانا وحید الدین خاں کا کام اپنے دائرے میں سب سے منفرد ہے۔ انہوں نے جدید فلسفۂ سائنس کو اچھی طرح سمجھا اور اس کے ساتھ دین کو بھی اصل ماخذات کی روشنی میں جانا۔ ان کے نزدیک جدید سائنس نے اس بات کا موقع پیدا کر دیا ہے کہ اسلام کا مقدمہ پوری علمی شان کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔ جیسے جیسے کائنات کے اسرار سے پردہ اٹھ رہا ہے، مذہب کو سمجھنا آسان تر ہو گیا ہے۔ جدید سائنس نے مسلمانوں کے لیے بظاہر چیلنج مگر بباطن ایک موقع پیدا کر دیا ہے کہ وہ مذہب کا مقدمہ زیادہ قابلِ قبول صورت میں (Convincingly) پیش کر سکیں۔ 1960ء کی دہائی میں انہوں نے اس موضوع پر 'علمِ جدید کا چیلنج‘ کے عنوان سے پہلی کتاب لکھی۔ گزشتہ پانچ دہائیوں میں وہ اس سبجیکٹ پر بہت وقیع لٹریچر سامنے لا چکے ہیں۔
'الرسالہ‘ مارچ کے شمارے میں مولانا وحید الدین نے اپنا یہ مقدمہ دہرایا ہے کہ مغربی تہذیب، جو سائنس کے اصولوں پر کھڑی ہے، اسلام کی محارب نہیں بلکہ موئد و معاون ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اسلام کی بنیاد ہے۔ اس معرفت کا ایک معیار وہ ہے جسے ہم عقلِ عام (Common Sense) کہتے ہیں۔ معرفت کی دوسری سطح 'سائنٹیفک معرفت‘ ہے۔ جدید سائنس نے اس سطح پر مذہب کے مقدمے کو ثابت کرنے کے اسباب پیدا کر دیئے ہیں۔ مو لانا کے الفاظ میں ''سائنس کا موضوع کائنات ہے۔ تقریباً چار سو سال کے مطالعے کے ذریعے سائنس نے جو دنیا دریافت کی، وہ استنباط (Inference) کے اصول پر خالق کے وجود کی گواہی دے رہی ہے‘‘۔ مولانا نے ایک اہم بات یہ لکھی کہ سائنس کا مقدمہ خدا کے وجود کے انکار کا نہیں، لاادری (Agnosticism) کامقدمہ ہے۔
اس مضمون کا ایک اقتباس میرے خیال میں بہت اہم ہے جس میں مولانا نے نیوٹن سے سٹیفن ہاکنگ تک کی سائنسی روایت کا احاطہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں ''طبیعاتی سائنس کے میدان میں پچھلی چار صدیوں میں تین انقلابی ڈویلپمنٹ پیش آئی ہیں۔ اوّل برٹش سائنس دان نیوٹن کا مفروضہ کہ کائنات کی بنیادی اینٹ مادہ ہے۔ اس کے بعد بیسویں صدی کے آغاز میں جرمن سائنس دان آئن سٹائن کا یہ نظریہ سامنے آیا کہ کائنات کی تعمیری اینٹ توانائی ہے۔ اور اب آخر میں ہم امریکی سائنس دان ڈیوڈ بام کے نظریاتی دور میں ہیں جبکہ سائنس دانوں کی زیادہ تعداد یہ مان رہی ہے کہ کائنات کی بنیادی اینٹ 'شعور‘ ہے۔ یہ تبدیلیاں لازمی طور پر ایک نئے فلسفے کو جنم دیتی ہیں، جب فلسفہ مادیت سے گزر کر روحانیت تک پہنچ گیا ہے‘‘۔
مولانا وحید الدین نے سٹیفن ہاکنگ کے ایک تصور کا ذکر کیا جسے انہوں نے 'عظیم منصوبہ‘ (Grand Design) کہا۔ وہ سٹیفن ہاکنگ کا ایک جملہ نقل کرتے ہیں: One cannot prove that God does not exist but science made God unnecessary (کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ خدا موجود نہیں؛ تاہم سائنس نے خدا کو غیر ضروری بنا دیا ہے)۔
واقعہ یہ ہے کہ سائنس دان اپنے دائرہ علم میںکلام کرتا اور کوئی رائے دیتا ہے۔ اس سے ماورا امور کی، وہ تائید کرتا ہے نہ تردید۔ وہ کائنات پر غور کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ کوئی 'عظیم منصوبہ‘ کارفرما ہے لیکن وہ منصوبہ ساز کے سوال پر خاموش رہتا ہے۔ مولانا کے نزدیک‘ یہ ناگزیر ہے کہ منصوبہ سامنے آنے پر منصوبہ ساز کا خیا ل پیدا ہو۔ سائنس نے انسان کو عظیم منصوبے تک پہنچا دیا ہے۔ منصوبہ ساز تک پہنچانا مذہب کا کام ہے۔
مولانا وحید الدین خان کا کہنا ہے کہ امتِ مسلمہ کو اس مرحلے پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ کام تخلیق کو خالق سے جوڑنا ہے۔ یہ کائنات کو خالقِ کائنات سے متعلق کرنا ہے۔ خالق اور تخلیق کو الگ کرنے سے الحاد پیدا ہوا۔ اس تعلق کو جوڑنے کے لیے مسیحی اہلِ علم نے قابلِ قدر کام کیا۔ مولانا توجہ دلاتے ہیں''امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فتنۂ الحاد کی فکری اساس کو بے بنیاد ثابت کریں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کے ذریعے فتنۂ الحاد کا خاتمہ کریں، جیسا کہ اس سے پہلے انہوں نے قرآن کی مدد سے شرک کا خاتمہ کیا تھا‘‘۔
میں اگر مولانا سے ملتا تو ان کی خدمت میں عرض کرتا کہ ہمیں ابھی اس سے زیادہ اہم کام درپیش ہیں۔ ہم نے پہلے امریکہ اور مغرب سے لڑنا ہے۔ ہم نے سٹیفن ہاکنگ جیسے لوگوں کی تحقیق سے فائدہ نہیں اٹھانا، انہیں مذہب دشمن ثابت کرنا ہے۔ جب ہم ان فتنوں کا قلع قمع کر لیں گے تو پھر ہمارا غلبہ ہو گا۔ اس کے بعد ہمیں کسی علمی مشقت کی کیا ضرورت؟ دنیا اس کے بغیر ہی ہمارے زیرِِ نگیں ہو گی۔