عدالتِ عظمیٰ نے ٹی وی میزبان شاہد مسعود صاحب پر تین ماہ کی پابندی عائد کر دی۔ عدالت نے جس طرح مناسب جانا، اپنی ذمہ داری ادا کی۔ کیا ایسے معاملات میں اربابِ میڈیا کی بھی کوئی ذمہ داری ہے؟
میڈیا کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ یہ مقدمہ میری سمجھ میں کبھی نہیں آ سکتا۔ میں اسے ایک جدید سماجی ادارہ سمجھتا ہوں۔ رائے سازی عام طور پر ریاست کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔ یہ ریاست کا کام نہیں کہ وہ لوگوں کو کسی نظریے، تصور یا خیال کا پابند بنائے۔ یہ انسان کی آزادی کا وہ دائرہ ہے جس میں ریاست مداخلت نہیں کر سکتی۔ ریاست اگر کبھی ضرورت محسوس کرے تو ترغیب دے سکتی ہے۔ اس کے لیے قوتِ نافذہ استعمال نہیں کر سکتی۔
رائے سازی یا ذہن سازی اصلاً سماجی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ تاریخی تعامل یہی ہے کہ ہر سماج میں چند روایتی رائے ساز ادارے ہوتے ہیں۔ یہ کسی سماج کو ایک نظامِ اقدار کا پابند رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلم روایت میں یہ کام مدرسے، مکتب، مسجد، چوپال اور جرگہ جیسے سماجی اداروں نے کیا۔ دورِ جدید میں میڈیا بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ اس لیے میڈیا میرے خیال میں ریاستی نہیں، ایک سماجی ادارہ ہے۔ یوں اس کی ذمہ داری کا تعین بھی سماجی حوالے ہی سے ہونا چاہیے۔
میڈیا کا مگر اپنے بارے میں یہ خیال نہیں ہے۔ میڈیا بزعمِ خویش نا صرف ریاستی ادارہ ہے بلکہ اس سے بڑھ کر بادشاہ گر بھی ہے۔ وہ جس کو چاہے مسندِ اقتدار پر بٹھا دے‘ اور جس کو چاہے تحت سے اتار دے۔ یہ سوچ حسبِ توفیق میڈیا مالکان سے لے کر ایک رپورٹر تک غالب ہے، الا ماشااللہ۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک نیوز ایڈیٹرکا ایک ڈی ایس پی سے جھگڑا ہو گیا۔ انہوں نے اس اندازِ نظر کا اظہار ایک بڑے بلیغ جملے سے کیا۔ فرمایا: ''ایک ڈی ایس پی تو میں دو کالمی سرخی کے نیچے دے کر مار دیتا ہوں‘‘۔ یہی ہے وہ سوچ جو اس وقت میڈیا پر غالب ہے۔ لوگوں کے ساتھ معاملہ ان کی اوقات کے مطابق کیا جاتا ہے۔ کسی کی اوقات دو کالمی سرخی ہے اور کسی کی شہ سرخی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقتدار کے کھلاڑی بھی اس بات پر ایمان لا چکے۔
پوسٹ ماڈرنسٹ ایک اور بات کہتے ہیں۔ وہ 'ہائپر ریالٹی‘ (Hyper reality) کا تصور دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے دنیا میں کوئی حقیقت نہیں پائی جاتی۔ ہر تصور یا خیال سماجی تشکیل کے عمل سے گزر کر ہم تک پہنچتا ہے۔ میڈیا بھی دراصل خبر کی تشکیلِ نو کرتا ہے۔ یوں ہم تک جو پہنچتا ہے وہ ریالٹی نہیں، 'ہائپر ریالٹی‘ ہے۔ میڈیا کی حد تک مجھے اس بات سے اتفاق ہے۔ یہی اتفاق میڈیا پر میری تنقید کی بنیاد ہے۔ جو کچھ لوگ دیکھتے ہیں، یہ سچائی نہیں، اس کی تشکیل ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشروں میں میڈیا اگر ہائپر ریالٹی کی تشکیل کا مرتکب ہوتا ہے تو یہ کسی جرم سے کم نہیں۔ یہاں تو میڈیا کو ایک سماجی کردار ادا کرنا ہے‘ جو فی الجملہ سماجی مفادات کا نگہبان ہوتا ہے۔ جس طرح ماضی میں خاندان کے بزرگ، مسجد کا امام، محلے کا ایک بڑا آدمی اس بات کو اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا کہ خاندان اور محلے کا نظم قائم رہے‘ اور اس میں کوئی خرابی نہ پھیلے، اسی طرح میڈیا کا یہ فریضہ ہے کہ وہ بھی ان اداروں کی طرح اپنی روایت، سماجی وحدت اور معاشرتی امن کا خیال رکھے۔ اس بات کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ اس کے لیے نظامِ اقدار کا دفاع لازم ہے۔
ہمارا میڈیا اس ذمہ داری سے فی الجملہ بے خبر ہے۔ مثال کے طور پر اسی سچ کی قدر کو دیکھیے۔ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ سچی بات کہے۔ اس کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ وہ افواہ سازی اور اس کے فروغ میں ملوث نہ ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے لیے اپنے دروازے بند رکھے، جنہوں نے دروغ گوئی کو شعار کیا‘ جن کی شہرت ہی یہ ہے کہ وہ خبریں تراشتے اور پھر ان کی تشہیر کرتے ہیں۔ یہی ان کا کاروبار ہے اور اس کا ثبوت اس رویّے پر ان کا استمرار ہے۔ مشاہدہ مگر اس کے برعکس ہے۔ میڈیا کے نزدیک دروغ گوئی اب کوئی جرم نہیں۔ ایسی شہرت کے حامل کسی فرد پر کوئی ٹی وی چینل یا اخبار اپنے دروازے بند نہیں کرتا۔ اور اگر کوئی ایک بند کرے تو تین اس کے استقبال کے لیے چشم براہ ہوتے ہیں۔
اسی طرح انتہا پسندی ہے۔ لوگ کھلم کھلا اس کے وکیل ہیں۔ ٹی وی پہ جذباتی تقریریں کرتے ہیں۔ لوگوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرتے ہیں۔ نظمِ اجتماعی کے خلاف عوام میں بغاوت پیدا کرتے ہیں۔ اس کے لیے مذہب سمیت ہر قدر کا بے دردی سے استعمال کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا میڈیا کے ذمہ داران میں یہ حساسیت موجود ہے کہ اس انتہا پسندی نے اس ملک اور قوم کو کس تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے؟ کیا کبھی انہوں نے غور کیا کہ وہ اس معاشرے کو کیا دے رہے ہیں؟ وہ اس کی تعمیر میں حصہ دار ہیں یا اس کی تخریب میں؟ کیا ایک ٹی وی چینل کسی قانون ضابطے کا پابند نہیں؟
ہمارے روایتی سماجی ادارے برباد ہو رہے ہیں۔ والدین کو بچوں کے گریڈوں سے دلچسپی ہے، ان کے اخلاق سے نہیں۔ محلے کا کلچر باقی نہیں رہا۔ چوپال‘ جرگے اب صرف کاروکاری اور ونی جیسی سماجی برائیوں کے تحفظ کے لیے رہ گئے۔ اس کے ساتھ میڈیا جیسے جدید سماجی ادارے یہ ماننے ہی کے لیے تیار نہیں کہ ان کی کوئی سماجی ذمہ داری بھی ہے۔ میڈیا خود کو سیاسی کھیل کا کھلاڑی، ریاست کا چوتھا ستون یا بادشاہ گر سمجھتا ہے۔ جو کم تر کھیل میں شریک ہیں، پیسے اور دولت کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے ریٹنگ اہم ہے۔ اگر کوئی سماجی قدر اس کی زد میں آتی ہے تو انہیں اس کی پروا نہیں یا پھر اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں۔ اگر پہلی بات ہے تو یہ بے حسی اور اگر دوسری ہے تو یہ بے بصیرتی کی علامت ہے۔
ہمارا میڈیا یہ خیال کرتا ہے کہ 23 مارچ کو ایک قومی نغمہ سنا کر، اس نے تعمیرِ وطن کے باب میں اپنی ذمہ داری ادا کر دی۔ یا 14 اگست کو خبر پڑھنے والوں کو سبز سفید لباس پہنا کر حب الوطنی کے سب تقاضے پورے کر دیے۔ اس کے بعد اس کا کام ختم ہو گیا۔ اس کے ساتھ اقتدار کے کھلاڑیوں کا معاملہ یہ ہے کہ میڈیا میں اپنے ہم خیال تلاش کرتے ہیں۔ اگر کہیں نہ ہوں تو انہیں وہاں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی دلچسپی بس اس بات سے ہے کہ وہ ان کے بیانیے یا ڈاکٹرائن کی تشہیر کریں۔ اس کے علاوہ وہ کیا کرتے ہیں، اس پر سوچنے کے لیے ان میں کوئی آمادگی نہیں پائی جاتی۔ سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کا یہ کردار بہت افسوس ناک ہے۔
اس صورتِ حال کا کیا کسی کو احساس ہے؟ کیا میڈیا کے ذمہ داران واقف ہیں کہ ان کی سماجی ذمہ داری کیا ہے؟ کیا وہ اقتدار کے کھیل سے نکل کر اس ملک کے گلی کوچے میں پھیلے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں؟ وہ یہ تو سوچتے ہیں کہ لوگ کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی سوچا کہ لوگوں کو کیا دیکھنا چاہیے؟ کیا وہ خود کو کسی اخلاقی ضابطے کا پابند بنا سکتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر میڈیا کے ذمہ داران کو غور کرنا ہو گا۔ سماج کی تشکیل اور اس کے نظم کی حفاظت سماجی اداروں کی ذمہ داری ہے‘ اور آج کا سب سے مؤثر سماجی ادارہ میڈیا ہے۔ وہ معاشرے کے بناؤ اور بگاڑ میں پوری طرح حصہ دار ہے۔ ایک سماجی ادارہ اسی وقت مؤثر ہوتا ہے جب اس کی اخلاقی ساکھ مضبوط ہو۔
شاہد مسعود صاحب کے معاملے میں عدالت عظمیٰ نے جو مناسب سمجھا فیصلہ سنا دیا۔ میرے لیے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ میڈیا کا فیصلہ کیا ہے؟ اسی سے سماجی اقدار کے باب میں اس کی حساسیت کا اندازہ ہو گا۔