علم و فضل کے ساتھ، اگر صاحبِ علم خوش طبع بھی ہو تو یہ نور علیٰ نور ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی اس کا مصداق تھے۔ مزاح کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ اگر کوئی ان کے ایسے واقعات اور جملوں کو جمع کر دے تو خاصے کی چیز ہو سکتی ہے۔ اپنی بہت سی علمی آرأ میں مولانا منفرد تھے۔ علم کی دنیا میں تفردات کو اہلِ روایت کے ہاں پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ کم ہی صاحبانِ علم ایسے ہوں گے جن کی آرأ میں تفرد نہ ہو۔ سوچنے والا لکیر کا فقیر نہیں ہو سکتا۔ اگر صاحب علم اپنی رائے کے حق میں دلیل رکھتا ہو تو یہی تفرد اسے مجتہد کے منصب پر فائز کر دیتا ہے۔ علم کی روایت اسی طرح آگے بڑھتی ہے۔ مولانا نے ایک مرتبہ اپنی منفرد رائے کا اظہار کیا تو کسی نے کہا: مولانا! متقدمین میں سے تو کسی کی یہ رائے نہیں۔ مولانا اصلاحی نے جواب دیا ''ہمارے مرنے کا انتظار کیجیے۔ ہمارا شمار بھی متقدمین میں ہو جائے گا۔ پھر آپ کو یہ شکایت نہیں رہے گی‘‘۔
مولانا کا یہ جملہ صرف ان کے حسنِ طبیعت کا اظہار نہیں، تاریخ کے باب میں ایک اہم اصول بھی بیان کر رہا ہے۔ تاریخ بالعموم مذمت کے لیے استعمال ہوئی یا مدح کے لیے۔ معروضیت کم از کم ہماری تاریخ کے باب میں افسانے سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ ایک شخصیت جب تاریخ کے حوالے ہو جاتی ہے‘ تو اس کے گرد محبت یا نفرت کا ایک حصار قائم ہو جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں اچھے لوگ پائے جاتے تھے یا پھر برے۔ نارمل اور متوازن لوگ نہیں تھے۔ عقیدت سے مملو ایسے ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ ماضی کے اوراق میںکشف و کرامات کی ایک پوری دنیا آباد ہے۔ دوسری طرف شیطنت کے ایسے مظاہر بھی تاریخ کے صفحات میں بند ہیں کہ انسانیت منہ چھپاتی پھرے۔ کون سا برا عمل ہے جو لوگ مخالفین کے نامۂ اعمال میں درج نہیں کرتے۔
چند روز پہلے بھٹو صاحب کی برسی گزری۔ ان کے بارے میں مضامین دیکھے۔ اکثر مضامین سے معلوم ہوا کہ کیسا دیدہ ور تھا جو ہم نے کھو دیا۔ بعض آج بھی ان کا شمار تاریخ کے بد ترین کرداروں میں کرتے ہیں۔ ضیاء الحق کی برسی آتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ ایسا صاحبِ بصیرت اور محبِ وطن شاید ہی کسی ماں نے جنا ہو۔ دوسری رائے بھی پوری شدت کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ میں اکثر سوچتا اور حیران ہوتا ہوں کہ ہم اپنے عہد کے لوگوں کو کیوں پہچان نہیں سکتے؟ کیا سبب ہے کہ تاریخ کے آئینے میں لوگ خوش نما ہو جاتے ہیں یا پھر بد نما۔ ہمارے ارد گرد لوگ چلتے پھرتے ہیں، ہمیں ان کی کوئی کرامت دکھائی نہیں دیتی۔ آنکھیں بند ہوتی ہیں تو ان کی کرامات کے چرچے ہونے لگتے ہیں۔
ہم اپنے عہد کے رجال کا اعتراف کیوں نہیں کرتے؟ ہم اعترافِ عظمت کے لیے کسی کے مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟ یہ کم نظری کی دلیل ہے یا کم ظرفی کی؟ ہم اپنے عہد میں نہیں جانتے ہیں۔ جانے والے کو یاد کر کے روتے یا کسی آنے والا کا انتظارکرتے ہیں۔ لمحۂ موجود ہمارے لیے غیر اہم ہے۔ زمان و مکان کے باب میں یہ رویہ کیا کسی ذہنی کجی کی علامت ہے؟
پیغمبروں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مخاطب اقوام کا اصل چیلنج یہی تھا۔ بنی اسرائیل میں آنے والے آخری رسول حضرت عیسیٰ ؑ تھے۔ ان کا انکار کرنے والے سابقہ انبیا پر ایمان لانے والے تھے۔ یہ سب یہودی تھے۔ بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی علما تھے جو سیدنا مسیح ؑ کے خلاف اٹھنے والی تحریک کے قائد تھے۔ ان کی اصل آزمائش تو یہ تھی کہ وہ حضرت مسیحؑ پر ایمان لائیں۔ وہ اپنے عہد کے پیغمبر کو پہچاننے میں ناکام ثابت ہوئے۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ بنی اسماعیل میں تشریف لائے۔ یہ لوگ حضرت ابراہیم ؑ کو مانتے تھے۔ اس قوم کے بڑوں کو توفیق نہ ہو سکی کی وہ آپﷺ کو پہچانتے۔
پیغمبروں کا عہد تمام ہوا۔ اب کسی کو ماننا نہ ماننا، ایمان کا مسئلہ نہیں مگر انسانی بصیرت بدستور معرضِ امتحان میں ہے۔ لوگ اپنے ہم عصر وںکا حقیقت پسندانہ تجزیہ نہیں کرتے۔ وہ تاریخ کا رزق ہو جاتا ہے تو مذمت کرتے ہیں یا مدح۔ گزر جانے والوں کے فضائل کا دفتر کھل جاتا ہے اور ایسی ایسی باتیں منسوب ہوتی ہیں کہ عقل دانتوں میں انگلی دبا لیتی ہے۔ آدمی سوچتا ہے کہ اگر یہ سچ ہے تو میرے ارد گرد ایسے مناظر کیوں دکھائی نہیں دیتے؟
میرا احساس ہے کہ عہدِ صحابہ کے بعد، ہم کم و بیش ایک جیسے دور سے گزر رہے ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ بھی صحابہ کے بعد کسی انسانی امتیاز کو نہیں مانتے۔ اپنے دور اور اس سے پہلے دور کے بارے میں، ان کا مشہور قول ہے: وہ انسان ہیں اور ہم بھی انسان۔ آج بھی ممکن ہے کہ ماضی کی طرح کسی شعبے میں کوئی غیر معمولی آدمی پیدا ہو جائے۔ اسی طرح ماضی میں بھی سماج متنوع لوگوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ ہر عہد کے لوگ اپنے دور کی اخلاقی ابتری کا رونا روتے‘ اور یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں: پہلے ادوار میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ وہی دور جب ماضی بنتا ہے تو اس کے گرد تقدس کا ہالہ بن جاتا ہے۔
انسان کا اصل امتحان یہ ہے وہ اپنے عہد میں کیسے جیتا ہے۔ اپنے ارد گرد موجود افراد کے بارے میں کتنی حقیقت پسندی کے ساتھ رائے قائم کرتا ہے۔ ان کی خوبیوں کا کتنا معترف ہے۔ کس حد تک ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کے تعصبات کہاں تک حق کے راستے میں حائل ہو جاتے ہیں۔ کیا وہ دوسری طرف کھڑے کسی فرد کی کسی خوبی کا اعتراف کر سکتا ہے؟
میرا احساس ہے کہ ہم نظری اور فکری اعتبار سے عدم توازن کا شکار ہیں۔ تاریخ کے باب میں اگر ہم کوئی رائے قائم کریں گے تو اس کی علمی حیثیت ہو سکتی مگر عملی نہیں۔ اگر تاریخ میں کوئی ہو گزرا ہے تو میرے کس کام ہے؟ میں تو غالب کے الفاظ میں اُسے ابنِ مریم مانوں گا جو میرے درد کی دوا کرے گا۔ اگر آج بھی کوئی قطب موجود ہے تو میرے غم کا مداوا کرے۔ ماضی کا کوئی قطب عملاً میرے لیے کوئی افادیت نہیں رکھتا۔ یہ امتیاز صرف علم کو حاصل ہے کہ اس کا خیر زمان و مکان سے ماورا ہو جاتا ہے۔ ہدایت کے لیے ہم آج بھی اس وحی کے محتاج ہیں جو اللہ کے آخری رسولﷺ پر نازل ہوئی۔ اسی طرح وہ علم بھی قابلِ احترام اور ہمارے عہد سے متعلق ہے، ہم جس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
مسلمانوں کے دو گروہوں، سنی اور شیعہ، میں اصل اختلاف تاریخ کے باب میں ہے۔ اگر دونوں ماضی کو علمی اختلاف تک محدود کرتے ہوئے باہمی مشاورت سے لمحۂ موجود کے مسائل کا حل تلاش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ باہمی احترام اور بھائی چارے کے ساتھ نہ رہ سکیں۔ یہی معاملہ سیاست کا بھی ہے۔ ضیاالحق اور بھٹو تاریخی کردار ہیں۔ اس دور میں ان کا مطالعہ تاریخی اور علمی حیثیت رکھتا ہے مگر آج کا فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے عہد کے کرداروں کو پہچانیں۔
لوگ آج خود کو معتبر ثابت کرنے کے لیے ماضی کا حوالہ دیتے ہیں۔ اپنی رائے کی تائید میں ماضی کے کسی عالم کو پیش کرتے ہیں۔ انہیں حال کا حوالہ دیتے وقت تکلف محسوس ہوتا ہے۔ لوگ انتظار کرتے ہیں کہ کب کوئی متقدمین میں شامل ہو‘ اور وہ اس کو اپنی تائید میں لائیں۔ علم اور سیاست کی دنیا میں، ممکن ہے ہمارے ارد گرد موجود افراد میں کوئی حوالہ بن سکتا ہو۔ ہم اگر اس کا اعتراف کریں گے تو خود بھی تاریخی سازی میں شریک ہو جائیں گے۔ ورنہ ماضی پر سب ہی ایمان لے آتے ہیں۔ اصل امتحان اپنے عہد کی صداقتوں کا اعتراف ہے۔