فوج اور عوام میں تعلق کی ایک ہی اساس ہو سکتی ہے:محبت۔اگر یہ باقی ہے تو ملک باقی ہے۔اگر یہ خطرات کی زد میں ہے تو پھر ملک بھی خطرات کی زد میں ہے۔سوال یہ ہے کہ اس تعلق کو خطرات کب لاحق ہوتے ہیں؟
ملک اگر کھیت ہے تو فوج اس کی باڑ۔ایوب خان برسرِ اقتدار آئے تو پہلی بار یہ تعلق خطرات میں گھر گیا۔نوبت یہاں تک آپہنچی کہ کم وبیش ساری قوم سر برا ہ کے خلاف کھڑی ہوگئی۔قوم کی قیادت قائد اعظم کی بہن کر رہی تھیں جن کی حب الوطنی پرکوئی دیوانہ ہی شک کر سکتا تھا۔مولانا مودودی کی تفہیمِ مذہب یہ کہتی ہے کہ اسلام میںعورت کی حکمرانی جائز نہیں۔اس کے باوصف،ان کی نظر میںیہ معاملہ اتنا اہم تھا کہ انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کا پرچم تھام لیا۔یہی دن تھے جب انہوں نے کہا تھا کہ باڑ جب خود کھیت کو کھانے لگے تو کھیت کو بچا یا نہیں جا سکتا۔افسوس کہ ان کی بات سچ ثابت ہوئی۔ ملک کا بڑامشرقی حصہ، پاکستان سے الگ ہو گیا۔
اگر عوام اور فوج کے باہمی تعلق کی اساس محبت ہے تو کیامحترمہ فاطمہ جناح ، مولانا مودودی،نواب زادہ نصراللہ خان اور پاکستان کے کثیر عوام کو فوج سے محبت نہیں تھی؟اس سوال کاجواب ،سب نے اُن ہی دنوں دے دیا جب بھارت اور پاکستان کا معرکہ برپا ہوا۔یہی لیڈر اور یہی قوم ایوب خان کے شانہ بشانہ کھڑی تھی۔بھارت کے خلاف ان کی قیادت میں متحد تھی۔جیسے ہی خارجی قوت کے ساتھ تصادم کے دن گزرے،یہ قوم ایوب خان کے خلاف کھڑی ہوگئی۔ کیا یہ کوئی تضاد ہے؟میرا خیال ہے،نہیں۔یہ ایک سماجی و سیاسی عمل ہے اورآج اسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
فوج ایک ریاستی ادارہ ہے۔یہ کسی قوم کی ایک اجتماعی ضرورت کا فطری جواب ہے۔یہ ضرورت بیرونی جارحیت سے ملک کادفاع ہے۔ایک ملک میں رہنے والے،اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ ہم اپنی سرحدوں کے اندر ایک دوسرے سے اختلاف کر سکتے ہیں ۔معاملہ اگر کسی خارجی قوت سے ہو تو پھر ہم مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔فوج اسی سوچ کی تجسیم ہے۔اس وجہ سے فوج داخلی مذہبی وسیاسی اختلافات سے لاتعلق رہتی ہے۔اس کی صفوں میں شیعہ ہو تے ہیں اور سنی بھی۔ پنجابی ہو تے ہیں اور سندھی بھی۔بلوچی ہوتے ہیں اور پختون بھی۔یہ فوج کے ادارے کی ناگزیر ضرورت ہے کہ وہ ان اختلافات سے دور رہے جو سماجی سطح پر فطری ہیں اور معاشرتی ارتقا کے لیے ضروری۔
فوج اگر کسی مذہبی معاملے میں کسی ایک گروہ کے خلاف کھڑی ہو جائے گی یا کوئی اقدام کرے گی تواس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ فوج اور عوام کے اس گروہ کے مابین ایک خلیج واقع ہو جائے گی۔تنازعے کی صورت میں وہ محبت متاثر ہو گی جو عوام اورفوج کے باہمی تعلق کی بنیادی ضرورت ہے۔یہی معاملہ سیاسی ،علاقائی یا نسلی معاملات کا ہے۔
1960 ء کی دھائی میں فوج اور بنگالی عصبیت کے مابین ایک خلیج پیدا ہوگئی تھی۔بنگالیوں نے یہ جانا کہ فوج ان کے خلاف ہے۔ایسا تھا یا نہیں اس سے قطع نظر،بنگالیوں میں یہ تاثر پیدا ہو گیا۔ فوج چونکہ اقتدار میں بھی تھی ،اس لیے وہ براہ راست تنقید کی زد میں آگئی۔1970ء میںجب فوجی آپریشن ہوا تو گویا یہ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا تھا۔اس خلیج کو پھر پاٹا نہ جا سکا۔
کہنا یہ ہے کہ فوج جب کسی سیاسی ،مذہبی یا لسانی گروہ کے خلاف ہوجا تی ہے تو پھر اس کے اور عوام کے مابین ایک فاصلہ پیدا ہو جا تا ہے۔اگر کسی مذہبی گروہ،کسی علاقائی اکائی یا سیاسی جماعت میں یہ تاثرپیدا ہو جا ئے کہ فوج اس کے خلاف ہے تو یہ قومی یک جہتی کے لیے زہرقاتل ہے۔اسی بنا پر یہ فوجی قیادت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ وہ فوج کو ملک کی داخلی سیاست سے الگ رکھے۔وہ کسی کویہ موقع نہ دے کہ وہ فوج کو متنازعہ بنائے۔اگر فوجی قیادت اس باب میں حساس ہو توایسی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
ہماری تاریخ میں بدقسمتی سے ایسے بہت سے موڑبھی آئے جب فوج داخلی سیاست میں الجھ گئی۔یہ تاثر پیدا ہوا کہ جیسے فوج ایک سیاسی جماعت ہے۔میں اس حوالے سے قومی سیاست میں ایک افسوس ناک تسلسل دیکھتا ہوں۔1960ء کی دھائی میں فوج بمقابلہ عوامی لیگ،1970 ء میں فوج بمقابلہ بلوچ قوم پرست ۔1980ء کی دھائی میں فوج بمقابلہ پیپلزپارٹی۔2000ء کی دھائی میں فوج بمقابلہ مسلم لیگ ۔ان دنوں بھی ایسا ہی ایک تاثر گہرا ہو تا جا رہا ہے۔یہ قومی وحدت کے لیے کسی طرح نیک شگون نہیں۔
میری تشویش میں اس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ دیگر ادارے بھی اس کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات بہتری نہیں، خرابی کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔یہ قومی وحدت اور سلامتی کے لیے نیک شگون نہیں۔بطور قوم ناگزیر ہے کہ ہم اس کیفیت سے باہر آئیں۔ان دنوںاہلِ سیاست نے جس اخلاقی اور فکری دیوالیہ پن اور افلاس کا مظاہرہ کیا ہے،قومی تاریخ میں شاید ہی اس کی مثال تلاش کی جا سکے۔اُن کے پاس اس کے سوا کوئی دلیل نہیں کہ کل نوازشریف نے بھی یہی کیا۔
اس فضا میں اہلِ صحافت اور علما یہ کام کر سکتے تھے کہ وہ ثالث بالخیر بن کر کھڑے ہو جائیں اور قوم کو اس صورتِ حال سے نکالنے کی کوشش کریں۔اہلِ صحافت کا معاملہ یہ ہے کہ نادیدہ قوتوں نے انہیں بھی اس تنازعے میں گھسیٹ لیا ہے اور انہیں اپنی ترجمانی سونپ دی ہے،الا ماشااللہ۔ افسوس کہ علما بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔خلقِ خدا اب جانتی ہے کہ کون کب اور کس کے اشارے پر کوئی تنازعہ پیدا کر دے۔علما کا کوئی گروہ آزادانہ موقف رکھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
بد قسمتی سے اظہار کے مواقع بھی سمٹتے جا رہے ہیں۔جن ہاتھوں میں حقیقی اقتدار ہے،وہ آہستہ آہستہ ہر مخالفانہ آواز کا گلاگھو نٹے کے درپے ہیں۔میرے نزدیک اس کا سب سے زیادہ اثر اداروں اور عوام کے باہمی تعلقات پر پڑے گا۔یہ طرزِ عمل فاصلوں کو بڑھا ئے گا۔ہمیں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اظہارِ رائے پر پابندی کا دور گزر چکا۔آج ایک متبادل میڈیا،جسے سوشل میڈیا کہتے ہیں،وجود میں آ چکا۔اس کی رسائی کا دائرہ وسیع تر ہو تا جا رہا ہے۔عرب بہار میں اس کی قوت سامنے آ چکی۔ میرا مشاہدہ ہے کہ عوام ہر بات سے آگاہ ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ سیاست میں حقیقی فریق کون ہیں۔یہ سب کچھ جاننے میںجاوید ہاشمی اورسراج الحق صاحب جیسے سیاست دان بھی وقتاً فوقتاً ان کی مدد کرتے ہیں۔
بطور پاکستانی مجھے یہ گوارا نہیں کہ فوج اور عوام کے مابین ،محبت کے سوا بھی باہمی تعلق کی کوئی اساس ہو۔اگر ایسے حالات پیدا ہوں کہ یہ اساس مجروح ہو تو کسی کو آگے بڑھ کر اسے روکنا چاہیے۔کیا علما ، سماجی کارکنوںیا صحافیوں میں کوئی ایک ایسا ہے جو آگے بڑھے؟کوئی وفد ترتیب دیا جائے اور ُان لوگوں سے بات کی جائے جن کے ہاتھ میں زمامِ کار ہے؟
افسوس کہ عبدالستار ایدھی کے بعد کوئی ایک ایسا نہ اٹھا جس پر پوری قوم اعتماد کرتی ہو۔نہ عالم نہ صحافی نہ کوئی دانش ور۔قحط الرجال کایہ عالم ہم نے دورِ غلامی میں بھی نہیں دیکھا۔کیا انفرادی دانش کی ناکامی کا تدارک کسی اجتماعی دانش سے ہو سکتا ہے؟ آج میں آسمان کی طرف نگاہ کرتا اور غالب کے الفاظ میں فریاد کرتا ہوں:
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب
اک آبلہ پا وادیٔ پُرخار میں آوے