''آدم بو، آدم بو۔غدار ،غدار،مصلوب کرو،پھانسی لگاؤ۔۔‘‘ ایک شور بر پا ہے اور کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔
مذہب اور وطن، دو دائرے ایسے ہیں جہاں ہمیشہ جذبات کی حکمرانی رہی ہے۔یہاں دلیل بے زبان ہے۔حیرت در حیرت یہ ہے کہ آخری الہام بار بار تعقل، تدبر،تفکر کی صدا لگا تا ہے لیکن کوئی کان دھرنے کوتیار نہیں۔وطن کا معاملہ بھی یہی ہے۔ان دائروں میںانسانی جذبات کا ظہور فطری ہے۔اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب مذہب اور قومی مفاد کی تاویل کا سوال اٹھتا ہے۔
وجودِ مذہب پر کوئی اختلاف نہیں مگرایک خاص معاملے میںمذہب کی تعلیم کیاہے ؟اس کے ایک سے زیادہ جواب ہوسکتے ہیں۔جب کسی سوال کے کئی جواب ممکن ہوں تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ دلیل کی مانی جائے اور دوسرے کا حقِ اختلاف تسلیم کیا جائے۔ اسی طرح قومی مفاد کیا ہے؟اس سوال کے بھی ایک سے زیادہ جواب ہوتے ہیں۔یہاں بھی دلیل ہی کو حکمران مانا جائے گا۔اب مذہب ہو یا وطن،ہمارا اصرار یہ ہے کہ ہماری تاویل ہی کو واحد حق تسلیم کیا جائے۔ بصورتِ دیگر آپ مذہب دشمن یا پھر غدارِ وطن ہیں۔
غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں قومی مفاد کی آب یاری، کیا درست حکمتِ عملی ہے؟ہمیں ابتدا ہی سے یہ سوال درپیش ہے۔ 1948ء میں کشمیر کی آزادی کے لیے کچھ مقامی گروہوں نے اقدام کیاتو ہمیں اس وقت بھی اس سوال کا سامنا کرنا پڑا ۔اس کے خلاف پہلی آواز مو لانا مو دودی کی تھی۔وہ چونکہ دین کے ایک عالم تھے،اس لیے انہوں نے اس باب میں اپنااعتراض دینی حوالے سے پیش کیا۔ انہیں جہادِکشمیرکا مخالف اور ایک پہلو سے غدارِ وطن کہا گیا۔
جہادِ افغانستان کے دنوں میں یہ بحث ایک بارپھراٹھی۔ پہلے دن ہی سے ایک طبقہ مو جود تھا جوغیر ریاستی تنظیموں کے خلاف تھا۔اس کے نزدیک قومی مفاد کے حوالے سے یہ ایک تباہ کن حکمت ِ عملی ہے۔ ہمیں قومی مفاد کے لیے غیر ریاستی عناصر کو استعمال نہیں کر نا چاہیے۔اس طبقے کی سب سے موثر اور نمائندہ آواز محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی تھی۔انہوں نے اسے غلط کہا اور فوجی حکومت کے موقف پر سرِعام تنقید کی۔
بے نظیر بھٹو جب وزیر اعظم بنیں تو انہیں تجویز پیش کی گئی کہ غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں قومی مفاد کی آب یاری کی جائے۔انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح ِ عمری''دخترِ مشرق‘‘ میں اس کی پوری رو داد لکھ دی ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ بحیثیت وزیراعظم ،جب وہ جی ایچ کیو کا دورہ کرنے گئیں تو جنرل اسلم بیگ نے انہیں عسکری معاملات پر ایک بریفنگ دی۔اسی ضمن میں جنرل بیگ نے بتا یا کہ ایک لاکھ مجاہدین سری نگرکو آزاد کرانے کے لیے ہماری مدد کو تیار ہیں۔آپ حکم دیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح فاتحِ کشمیر کا پر، آپ کے تاج میں سجتا ہے۔ بی بی نے اس تصور کو مسترد کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں قومی مفاد کی آب یاری کو پاکستان کے لیے نقصان دہ سمجھتی تھیں۔ان کے الفاظ ہیں:
I vetoed the idea,refusing to support non-kashmiri fighters' involvement in the Kashmiri insurgency. (Daughter of the East,P.406)''میں نے اس تصور( منصوبے )کو ویٹو کر دیا اور کشمیریوں کی جدو جہدِ آزادی میںغیر کشمیری جنگجوئوں کی مداخلت کو مسترد کر دیا‘‘۔
بے نظیر بھٹو صاحبہ کی کتاب کا یہ حصہ چشم کشا ہے۔انہوں نے ابلاغ کے اعلیٰ ترین معیار پریہ بتا یا کہ کس طرح اس ملک میں قومی مفاد کے باب میں دو نقطۂ ہائے نظر مو جود رہے ہیں ۔ایک موقف وہ ہے جو غیرسیاسی ذہن سے پھوٹا ہے اور ایک وہ جوسیاسی قیادت کی سوچ کا حا صل ہے۔آج نوازشریف صاحب جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ سوفی صد وہی بات ہے جو بے نظیر بھٹو کہتی رہی ہیں۔میں عمران خان کے بھی ایک سے زیادہ انٹر ویو پیش کر سکتا ہوں جن میں انہوں نے بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی تائید کی ہے۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ نوازشریف صاحب کا جو جملہ اس وقت سب سے زیادہ زیرِ بحث ہے، کرداروں کے اختلاف کے ساتھ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بھی اپنی کتاب میںلکھاہے۔ نوازشریف صاحب نے کہا:Call them non- state actors,should we allow them to cross the border and kill 150 people in Mumbai (جنہیں غیر ریاستی عناصر کہیں،ہمیں کیا انہیں یہ' اجازت‘ دینی چاہیے کہ وہ سر حد پار کریں اور ممبئی جا کر ایک سو پچاس افراد کو قتل کر ڈالیں؟)اب دیکھیے بے نظیر صاحبہ کا جملہ کیا ہے۔وہ فاٹا کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لکھتی ہیں:Musharraf's regime has allowed terrorists to rule these areas (p.430)(مشرف عہد میں دہشت گردوں کو 'اجازت‘ دی گئی کہ وہ ان علاقوں (فاٹا) پر حکمرانی کریں)۔
اب دونوں جملوں میں،میرے نزدیک اجازت کا مطلب 'صرفِ نظر‘ ہے ۔ یعنی یہ لوگ متحرک تھے اور ریاست نے انہیں نظر انداز کیا۔یہ با لکل ایسے ہی جیسے ہم کہتے ہیں کہ 'دہشت گردوں کواب اس کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ عوام کی جان ومال سے کھیلیں‘۔گویااب اس باب میں صرفِ نظر یا تساہل نہیں ہو گا۔یقیناً اس جملے کا ایک پہلو بین السطور بھی ہے۔یہ وہی ہے جسے بے نظیر صاحبہ نے ویٹو کر دیا تھا۔اس بنا پر میرا کہنا یہ ہے کہ یہ قومی مفاد کے باب میںدو نقطہ ہائے نظر کااختلاف ہے اور اسے اسی دائرے میں رکھناچاہیے۔بصورتِ دیگرمولانامودودی سے لے کر عمران خان تک،ہمیںہرسیاست دان کی حب الوطنی کو شک کی نظر سے دیکھنا پڑے گا۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ نوازشریف صاحب نے سر ِ عام ایسا کیوں کہا؟اس سے دنیا کے سامنے پاکستان کا مقدمہ کمزورہوا ہے۔ میراکہنا یہ ہے کہ ایک سیاست دان اگر رائج بیانیے سے مختلف بیانیہ رکھتاہے تو اسے کہاں بیان کرے؟ظاہر ہے عوام کے سامنے ہی کرے گا۔ متعلقہ فورمز پروہ یہ بات کہتے رہے ہیں۔اب ان کے خیال میں وقت آگیا ہے کہ وہ اسے عوام کی عدالت میں پیش کریں تاکہ قومی سلامتی کے باب میں ایک نئے بیانیے کو اختیار کیا جائے۔اب اس بیانیے پر تو بات ہوسکتی ہے، اس طرزِ عمل سے کوئی اصولی اختلاف نہیں ہو سکتا۔رہی بات دنیا کی تو دنیا پہلے ہی ہمارے موقف کی تائید نہیں کرتی۔اس سے کوئی عملی فرق پڑناہوتا تو بے نظیر بھٹو صاحبہ کی کتاب سے پڑجاتا جو 2007ء میں شائع ہوئی۔
میرے نزدیک اس کا ایک انسانی اور شخصی پہلو بھی ہے۔اگر نوازشریف پر سب دروازے بند کر دیے جائیں گے توان کی طرف سے ردِ عمل کے لیے تیاررہنا چاہیے۔وہ بھی دوسروں کی طرح ایک انسان ہیں۔ پتھر وہی مارے جس نے خود کوئی گناہ نہ کیا ہو۔تاہم ،یہ بات اس سے بہت بہتر انداز میںکہی جا سکتی تھی۔میاں صاحب کو اب اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنے دائرہ مشاورت کو توسیع دیں اور اس میں تنوع لائیں۔ان کی رائے میں عدم ِتوازن پیدا ہوتا جا رہا جو کوئی نیک شگون نہیں۔بقا کے اپنے تقاضے ہیں اور عزیمت کے اپنے۔ان میں توازن کی تلاش ہی حکمت ہے۔
رائے سازوں اور ارباب ِ حل و عقد سے بھی درخواست ہے کہ وہ ہرمعاملے میں غدار تلاش کرنے کے بجائے،اس کا تجزیہ کریں اور اپنا موقف پیش کریں۔وہ اس مقدمے پر گفتگو کریں کہ قومی مفاد کی آب یاری کے لیے،غیر ریاستی افراد کا استعمال کیاقومی مفاد میں ہے ؟پیپلزپارٹی والوں کو بالخصوص چاہیے کہ بے نظیر صاحبہ کی کتاب کوپڑھیں اور پھر اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ 'شہید‘بے نظیر اورتادمِ تحریر،غازی نوازشریف کے موقف میں کیا فرق ہے؟
جب ایک معاشرے میں' آدم بو،آدم بو‘ کا شور بلند ہونے لگے،تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جنگل سے قریب ہو رہا ہے۔کیا ہم پاکستان کو جنگل بنانا چاہتے ہیں؟معاشرے انتقام سے نہیں، اختلافِ رائے کے احترام سے قائم رہتے ہیں۔