کس نے کس کو ساتھ لے کے چلنا ہے۔نواز شریف نے نون لیگ کویا نون لیگ نے نواز شریف کو؟
نون لیگ کامخمصہ کیا ہے؟ بیانیہ نواز شریف کے پاس ہے اور عوامی تائید بھی۔اس بیانیے میں رومان کاپہلو غالب ہے۔عملی صورتِ حال یہ ہے کہ 'اب راج کرے گی خلقِ خدا‘ طرز کے اس بیانیے کے لیے حالات زیادہ سازگار نہیں۔ شہبازشریف صاحب کی نون لیگ یہی کہہ رہی ہے۔سیاست کا معاملہ یہ ہے کہ وہ زمینی حقائق پر اپنی بنیاد رکھتی ہے۔ یہ ہمیشہ تلخ ہوتے ہیں۔ رومان پرور دھیرے دھیرے کانِ نمک میں نمک بن جاتے ہیں یا پھر رزقِ خاک۔
سیاسی رومان اور انقلاب کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔انقلابی سیاست کا دور گزر چکا۔ نواز شریف صاحب نے ایک ایسے وقت 'نظریاتی‘ سیاست میں قدم رکھا ہے جب نظریے کی سیاست قصۂ پارینہ بن چکی۔شہباز شریف کی نون لیگ زمینی حقائق سے مطابقت چاہتی ہے کہ بقا کا راستہ یہی ہے۔ اس کا مخمصہ یہ ہے کہ عوامی تائید نوازشریف کے ساتھ ہے مگرطاقت کے دوسرے مراکز میں نواز شریف کے لیے تائید موجود نہیں۔ پاکستان میں عوامی تائید کے ساتھ طاقت کے ان مراکز کی تائید بھی لازم ہے۔ اب نون لیگ کیا کرے؟ ایک طرف اُس کا گھر ایک طرف مے کدہ!
نواز شریف کا مخمصہ کیا ہے؟ وہ کبھی مشاورت کے زیادہ قائل نہیں رہے۔ ان کی کل کائنات ''پانچ پیارے‘‘ ہی ہوتے ہیں۔ دورِ اوّل میں ان کے ساتھ جو پیارے تھے ،وہ عملی سیاست کے لوگ تھے۔ انہوں نے کوشش کی کہ نواز شریف زمینی حقائق سے متصادم نہ ہوں۔ سادہ لفظوں میںطاقت کے مراکز سے بنا کر رکھیں۔ان کی یہ کوشش بڑی حد تک کامیاب رہی، اگرچہ نواز شریف مزاجاًطاقت کے ان مراکز سے زیادہ مطابقت قائم نہیں کر سکے۔ دورِ ثانی میں پانچ پیارے تبدیل ہو گئے۔ اب ان میں کچھ رومان پرور آگئے۔ وہی جو اب بھی خیال کرتے ہیں کہ خلقِ خدا راج کرے گی۔ یہ آواز نواز شریف کو اپنے دل کی آواز محسوس ہوئی۔ وہ ان کے قریب ہو گئے اور نظریاتی بن گئے۔ اب انہوں نے رومانوی سیاست میں قدم رکھ دیا۔ یہ رومان پرور جانتے ہیںکہ 'راج کرے گی خلقِ خدا ‘کی منزل جس راستے سے گزرکے جاتی ہے، اس میں مقتل بھی ایک پڑاؤ ہے۔
ہرراہ جو اُدھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے
نوازشریف کا مخمصہ یہ ہے کہ مقتل کی راہ کے ہم سفر بہت کم ہوتے ہیں۔ ایک آدھ جاوید ہاشمی۔ ایک آدھ پرویزرشید۔
موسم آیا تونخلِ دار پہ میر
سرِ منصور ہی کا بار آیا
یہ موسم آچکا۔ ''نون لیگ‘‘ مگرمنصوروں کی جماعت نہیں ہے۔اس کی صفوں میںاضطراب ہے۔ نون لیگی مصر ہیں کہ نواز شریف اپنا راستہ بدلیں۔ وہ اُس راہ میں ہی ان کے ہم قدم ہو سکتے ہیں جس میں کوئی مقتل نہ پڑتا ہو۔اب نواز شریف کیا کریں؟ انہیں انتخاب کرنا ہے۔ وہ تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں یا اپنے عہد میں؟
مکرر عرض ہے کہ آج سیاست کا بیانیہ ایک ہی ہے۔ یہ نواز شریف کا بیانیہ ہے۔ سیاسی استحکام کی کوئی صورت اس کے سوا ممکن نہیں۔ طاقت کے مراکز میں عوامی نمائندے کی برتری کوبالآخر تسلیم کرنا پڑے گا۔ انہیں بھی اس جدو جہد میں شامل ہونا ہو گا جو آج ان کی سرپرستی پر نازاں ہیں۔یہ تاریخ کا دلچسپ باب ہے کہ کل نواز شریف ان کی جگہ کھڑے تھے اور نوازشریف کی جگہ کوئی اور تھا۔ آج مکان وہی ہیں لیکن مکین بدل گئے۔ سوال یہ ہے کہ اپنے بیانیے کو امر ِواقعہ بنانے کے لیے ،کیا نواز شریف کے پاس کوئی اور راستہ موجود ہے؟
ایک راستہ ہے۔ وہ نون لیگ کوہم نوا بنائیں۔اپنی مشاورت کا دائرہ بڑھائیں۔وہ اس وقت جس بیانیے کے علم بر دار ہیں،لازم ہے کہ پارٹی کے سب سے بڑے فورم پر پیش کیا جائے۔یہ ان لوگوں کو اعتماد میں لیں جنہیں عوام کا سامنا کر نا ہے۔اس کے برخلاف اگر کوئی نقطہ نظر ہے اور یقیناً ہے تو اسے سنیں اور مخالفین کو قائل کریں۔اس کے بعد بھی اگر اختلافِ رائے قائم رہتا ہے تو اکثریت کے اصول پر فیصلہ کریں۔مسئلہ نوازشریف صاحب کے بیانیے میں نہیں،اسے پیش کرنے کے انداز میں ہے۔اسے کہیں بہتر صورت میں مرتب اور بیان کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت نو ن لیگ سب سے بڑی جماعت ہے۔اندازے یہی ہیں کہ 2018 ء کے انتخابات میں بھی وہ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔گزشتہ پانچ سال میں اس کی کارکردگی اس کی سیاسی قوت کی سب سے مضبوط اساس ہے۔شہباز شریف یہ جانتے ہیں ،اس لیے وہ ان امکانات کو ختم نہیں کر نا چاہتے۔ مسئلہ اب یہی ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے لیے صرف عوامی تائید کافی نہیں۔شہباز شریف سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ اس کے لیے طاقت کے دیگر مراکز کے ساتھ حسنِ تعلقات کی بھی ضرورت ہے۔اس راستے میں نوازشریف حائل ہیں۔
آج نون لیگ کا مستقبل روشن مگر نوازشریف صاحب کا مخدوش ہے۔عوام نوازشریف کے ساتھ ہیں۔غداری کی سیاست پہلے کامیاب ہوئی ہے نہ اب ہوگی۔بھٹو خاندان پر حب الوطنی کے حملے ہو چکے۔دونوں ناکام رہے۔تاہم یہ فیصلہ تاریخ کا ہے۔بھٹو کو تاریخ کی اس گواہی کے لیے،اپنا آج قربان کرنا پڑا۔نوازشریف بھی لگتا ہے اسی راہ کے مسافر ہیں۔تاہم انہیں اپنے بیانیے کو باندازِ دیگر پیش کر نا پڑے گا۔
نوازشریف صاحب یہ چاہتے ہیں کہ وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئیں اور سیاسی حرکیات ہی کو بدل ڈالیں۔اگرنون لیگ ان کے ہم رکاب نہیں ہوگی تو یہ ممکن نہیں۔اگر وہ نون لیگ کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں تووہ اپنے مقدمے کو پاکستان کے داخلی حالات ہی سے اٹھائیں۔خارجہ امور سے ایسی حساسیت وابستہ ہے جسے ان کے خلاف استعمال کر نا آسان ہو گا۔ابھی عوامی شعور اس سطح تک نہیں پہنچا کہ قومی مفاد کے رائج بیانیے کوپوری طرح رد کرنے پر آمادہ ہو جائے۔
رومان اور حقیقت پسندی میں اعتدال کی ایک ہی صورت ہے۔نوازشریف صاحب اپنا بیانیے کو عوامی بنائیں اورعملی سیاست کی باگ شہبازشریف کو تھما دیں۔نوازشریف صاحب اپنے رومان کو زندہ رکھیں اور اُس وقت کا انتظار کریں جب ان کے لیے حالات سازگار ہو جائیں۔یہ مرحلہ 2023 ء میں آ سکتا ہے۔ممکن ہے کہ اس سے پہلے آ جائے۔غیب کی بات اللہ کے سواکون جان سکتا ہے۔
میرا اصرار ہے کہ مستقبل صرف نوازشریف کے بیانیے کا ہے۔پاکستان کے لیے اس کے علاوہ کوئی بیانیہ ہو ہی نہیں سکتا ہے۔آج یا کل اسے واقعہ بننا ہے۔جو آج رومان دکھائی دیتا ہے اسے حقیقت بنائے بغیرچارہ نہیںورنہ یہ ملک مستقل اضطراب میں مبتلا رہے گا۔تاہم اس وقت زمینی حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ اسے تدریج کے ساتھ آگے بڑھایا جا ئے۔پاکستانی عوام کو ہم نوا بنایا جائے یہاں تک کہ ہر کوہ ودمن سے اس کی تائید میں آوازیں بلند ہونے لگیں۔ اس وقت نوازشریف کا بیانیہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔یہ پنجاب سے زیادہ کے پی میں مقبول ہو رہاہے۔پنجاب اٹھے نہ اٹھے،لگتا ہے کے پی نوازشریف کے حق میں اٹھ رہا ہے۔
آج نوازشریف اور نون لیگ میں ہم آہنگی ناگزیر ہے۔یہ نوازشریف کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ پارٹی کو ساتھ لے کر چلیں۔پہلے پارٹی کی مرکزی قیادت کو قائل کریں تاکہ وہ گلی اور محلے کی سطح پر اس کا ابلاغ کرے۔اس کے لیے انہیں اپنی مشاورت کا دائرہ بڑھانا ہو گا۔دوسرے نقطہ نظر کو جگہ دینا ہو گی۔جب پارٹی میں واضح طور پر دو گروہ بنتے دکھائی دیں تو انہیں وحدت میں پرونا لیڈر کا کام ہے۔ لیڈر ناراض نہیں ہو تا۔اسے دیکھنا ہے کون دو قدم چل سکتا ہے اور کون دس۔مقتل تک ساتھ دینے والی کم ہی ہوتے ہیں۔کوشش یہی ہونی چاہیے کہ یہ نوبت نہ آئے۔