تحریکِ پاکستان اپنے عروج پر تھی تو مسلم لیگی حلقوں میں ایک نعرہ گونجتا تھا: مسلم ہے تومسلم لیگ میں آ۔تقسیمِ ہند کے مطالبے میںاسی وقت وزن پیدا ہو سکتا تھا جب مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت قرار پاتی۔
تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوا تو مسلم لیگ کایہ نعرہ ابھی امر واقعہ نہیں بناتھا۔کانگرس سمیت بہت سی جماعتیں تھیں جو خود کو مسلمانوں کا نمائندہ قرار دیتی تھیں‘تاہم 1945-46 ء کے انتخابات نے مسلم لیگ کی یہ حیثیت مستحکم کر دی کہ وہ مسلمانوں کی اگر واحد نہیں تو سب سے بڑی جماعت ضرور ہے۔اس بنیاد پر کانگرس اور انگریز سرکار نے مسلم لیگ کو مسلمانوں کا حقیقی نمائندہ مان لیا۔پاکستان کا قیام مسلم لیگ کی جیت تھی۔یوں اس نئی مملکت کی باگ ڈور فطری طور پر مسلم لیگ کے ہاتھ میں آ گئی۔ اس طرح وہ مسلمان پس منظر میں چلے گئے ‘جو مسلم لیگ کے ہم نوا نہیں تھے۔
مسلم لیگ کا اپنا ایک تصورِ تاریخ ہے۔جب ریاست کے معاملات مسلم لیگ کے ہاتھ میں آئے‘ توسرکاری سطح پراسے مسلمانوں کا واحد نمائندہ تصورِتاریخ بنا کر پیش کیا گیا۔اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اس کے علاوہ کوئی تصورِ تاریخ یا تو موجود نہیں تھا اور اگر تھا بھی توبہت ناقص اور ناقابلِ ذکر۔جنہوں نے مسلم لیگ سے اختلاف کیاوہ ہندووں کے ایجنٹ تھے یا کسی دوسری پاکستان مخالف قوت کے۔دیگر نقطہ ہائے نظر تعلیمی نصاب کا حصہ بن سکے نہ سنجیدہ تحقیق کا موضوع۔مسلم لیگ کی مخالفت کو ایک قومی جرم بنا دیا گیا۔اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ ان جماعتوں نے بھی خود کو تحریکِ پاکستان کا ہراول دستہ ثابت کرنا شروع کر دیا جو اس کے مخالف تھیں۔
یہ بات تاریخی اعتبار سے درست نہیں کہ تقسیم ِ ہند سے پہلے مسلم لیگ تنہا مسلمانوں کی نمائندگی کر رہی تھی۔'مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘ مسلم لیگ کا نعرہ تو تھا‘ امر واقعہ نہیں تھا۔مسلمانوں کی بہت سی جماعتیں اور بہت سی شخصیات مسلم لیگ کے علاوہ بھی تھیں اور تحریکِ پاکستان کا حصہ نہیں تھیں۔ ایسی شخصیات اور ان کے افکار پر ایک اعلیٰ درجے کی تحقیقی کتاب حال ہی میں کیمبرج یونیوسٹی پریس سے شائع ہوئی ہے۔اس کا عنوان ہے:'مسلم مسلم لیگ کے مخالف‘۔ ذیلی عنوان ہے:'تصورِپاکستان پر تنقیدات‘۔کتاب انگریزی میں ہے (Muslims against the Muslim League)۔علی عثمان قاسمی اور میگن ایٹن روب نے اسے مرتب کیا ہے۔ تاریخ ان کا موضوع اورتحقیق ان کا میدان ہے۔علی 'لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز‘ اور روب یونیورسٹی آف پینسلوینیا‘امریکہ سے وابستہ ہیں‘جن شخصیات کے مقالات اس کتاب میں شامل ہیں‘علم ِتاریخ میں ان کی حیثیت مسلمہ ہے۔مولانا اشرف علی تھانوی‘ مولانا حسین احمد مدنی‘مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی‘علامہ عنایت اللہ مشرقی‘خان عبدالغفار خان‘اللہ بخش سومرواورسکندر حیات خان سمیت بہت سی شخصیات کے خیالات اور نقطہ ہائے نظر اس کتاب میں زیر بحث ہیں۔
علی عثمان قاسمی اس سے پہلے اہلِ قرآن کی تحریک اور قادیانی تحریک پر محققانہ کتابیں لکھ چکے ہیں ۔وہ تحقیق کے جدید رجحانات اور علمی دیانت کا لحاظ رکھنے والے ایک سنجیدہ محقق ہیں۔علی کا تعلق ایک علمی گھرانے سے ہیں۔وہ مولانابہائو الحق قاسمی کے پوتے‘ہر دل عزیزادبی شخصیت عطاالحق قاسمی کے صاحب زادے اورمعروف کالم نگار یاسر پیرزادہ کے بھائی ہیں۔اس پس منظر نے ان کے علمی ذوق کو جلا بخشی ہے۔اس کتاب میں شامل ان کا مقالہ اس کی شہادت ہے جو مسلم لیگ اور قائد اعظم پر مولانا مودودی کی تنقید سے متعلق ہے۔
یہ ایک علمی کتاب ہے۔سیاسی پروپیگنڈے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔اہلِ علم نے سنجیدگی کے ساتھ اُن مسلم شخصیات کے افکار کو سمجھنے کوشش کی ہے جو مسلم لیگ یا تصورِ پاکستان سے پوری طرح متفق نہیں تھے‘تاہم مخالفین کی اس فہرست میں مولانا اشرف علی تھانوی اور چوہدری رحمت علی کا تذکرہ‘ عام آدمی کو عجیب معلوم ہوتا ہے۔مولانا تھانوی کی عمومی شہرت یہی ہے کہ وہ قائداعظم اور مسلم لیگ کے حامی تھی۔چوہدری رحمت علی تو لفظ 'پاکستان‘ کے خالق ہیں۔پھر یہ ماجرا کیا ہے؟
کتاب میں میگن روب کا مقالہ مولانا تھانوی کے بارے میں ہے۔ان کا حاصلِ تحقیق یہ ہے کہ 1920ء اور1940ء کے درمیانی عرصے میںمسلم لیگ کے بارے میں مولانا تھانوی کاموقف تبدیل ہوتا رہا۔انہوں نے مسلم لیگ کی حمایت تو کی لیکن یہ مشروط تھی۔وہ مسلم لیگ کو 'لشکرِاللہ‘کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔حضرت تھانوی ہندووںکے ساتھ کسی طرح کے اتحاد کے حق میں نہیں تھے۔ان کی خواہش تھی کہ مسلمانوں کا اپنا ایک مرکز ہو۔مسلم لیگ جب مسلمانوں کے سیاسی محاذ کے طورپر سامنے آئی تو انہوں نے اس کا خیرمقدم کیا۔
مولانا مسلم لیگ کو وڈیروں کی ایک جماعت سمجھتے تھے اور اس بارے میں متشکک تھے کہ وہ اسلام کے نفاذمیں سنجیدہ ہے یا نہیں۔تاہم وہ اسے کانگرس پر ترجیح دیتے تھے۔ان کے خیال میں جب اندھے اور کانے میں انتخاب کا معاملہ ہو تو کانے ہی کو ترجیح دی جا سکتی ہے۔ روب کی تحقیق یہ ہے کہ مو لانا تھانوی کا قائد اعظم سے براہ راست رابطہ ایک مرتبہ ہی ہو سکا۔اس سے پہلے انہوں نے ایک خط مسلم لیگ یو پی کے صدر نواب اسماعیل خان کو لکھا جس میں ان سے استفسار کیا کہ مسلم لیگ کے اندر علما کا مقام کیا ہو گا۔
6۔جون 1938ء کو پٹنہ میں کل ہند مسلم لیگ کا اجلاس ہوا۔اس میں مولانا تھانوی کی طرف سے ایک چار رکنی وفد نے شرکت کی جس میں مو لانا شبیر احمد عثمانی بھی شامل تھے۔اس اجلاس میں ظفر احمد عثمانی نے مولانا تھانوی کی طرف سے مسلم لیگی قائدین کے نام ایک خط پڑھ کر سنایا۔اس میں مسلم لیگ کی تحسین کی گئی کہ اس نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا اور پھر اسے' اللہ کا لشکر‘بننے کی تلقین کی۔اس کے لیے چار شرائط بیان کیں‘ایک اللہ پر ایمان ‘دوسرا مسلم لیگ کے اراکین مغربی‘ہندو اور دنیاوی اثرات سے آزادہوں‘تیسرا غیر مسلمانوں سے ظاہری ہیت میں امتیاز اور اس کے لیے داڑھی کی سنت پر عمل‘چوتھا فتح کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا۔
مولاناتھانوی کا مشورہ یہ بھی تھا کہ مسلم لیگ میں علما کی مجلس شوریٰ ہو جو دین کے معاملات میں رہنمائی کرے۔انہیں مسلم لیگ کی اس صلاحیت پر اعتماد نہیں تھا کہ وہ دین کے مطابق مسلمانوں کی راہنمائی کر سکے گی۔ روب کی تحقیق یہ ہے کہ مسلم لیگ ان خطوط پر منظم نہیں ہو سکی جیسے مولانا تھانوی چاہتے تھے‘اس لیے ان کی زندگی میں مسلم لیگ کے ساتھ گرم جوشی باقی نہیں تھی؛تاہم ان کی وفات کے بعد تھانوی روایت سے وابستہ لوگ مسلم لیگ سے زیادہ قریب ہوئے۔مولانا شبیر احمد عثمانی مولانا تھانوی کی وفات سے ایک سال بعد ‘1944ء میں مسلم لیگ کے رکن بن گئے۔
یہ کتاب تاریخ کے بہت سے نئے گوشے ہمارے سامنے لاتی ہے۔اختلاف اور اتفاق سے قطع نظر‘یہ ہمیں آمادہ کرتی ہے کہ ہم ان مسلم شخصیات کے نقطہ ہائے نظر کوبھی سنجیدگی سے سمجھیں‘ جن کے خیال میں تقسیمِ ہند مسلمانوں کے مسائل کا حل نہیں تھایا اگر تھا بھی تو ان کے خیال میں نئے مملکت کا وہ تصور درست نہیں تھا جو مسلم لیگ پیش کر رہی تھی۔اس کے علاوہ بھی‘ یہ ہمیں بعض قائم شدہ تصورات پر بھی نظرثانی کی دعوت دیتی ہے۔
یہ کتاب متقاضی ہے کہ اس کے ہر باب پر ایک کالم لکھا جا ئے۔میں نے اپنی رائے دینے کے بجائے‘خود کو اس کے تعارف تک محدود رکھا ہے۔اس کتاب نے میرے اندر یہ تحریک پیدا کی ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی اور خان عبدالغفار خان جیسے لوگوں کے افکار اور سیاسی کردار کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھا جا ئے۔میں اختلاف کے باوجود یہ سمجھتا ہوں کہ یہ میرا ورثہ ہے اور تصورِ پاکستان سے وابستگی کا مطلب اس روایت سے اظہارِ لاتعلقی نہیں ہے۔