ایک طرف تحریکِ انصاف ہے اور اس کے اتحادی ق لیگ اور ایم کیو ایم۔ دوسری طرف ن لیگ ہے اور اس کے اتحادی پیپلز پارٹی وغیرہ۔ عمران خان ق لیگ کے اکلوتے وارث گجرات کے چوہدریوں اور ایم کیو ایم کے بارے میں جو کچھ کہتے رہے ہیں، ٹی وی چینلز پر ہم ان کی صدائے بازگشت ہر روز سنتے ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف اور شہباز شریف، آصف زرداری صاحب کے بارے میں جو خیالات رکھتے ہیں، وہ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ کیا یہ اہلِ سیاست کا تضاد ہے؟ کیا سیاسی اتحاد سیاست دانوں کو ناقابلِ اعتبار ثابت کرتے ہیں۔
عمومی خیال یہی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ لوگ دوسروں کے طرزِ عمل کو اشتہار بناتے اور اپنے رویے کو نظر انداز کرتے ہیں۔ کل ہی علیم خان صاحب نے فرمایا: ''دیکھا! ہم نہ کہتے تھے نواز زرداری بھائی بھائی ہیں۔‘‘ جواباً کہا جا رہا ہے؛ ''دیکھو! کل جسے ڈاکو کہتے تھے، آج اسے بھائی بنا لیا۔‘‘ ایک طبقہ دونوں کو الزام دیتا اور اہلِ سیاست کو فی الجملہ مسترد کرتے ہوئے، ایک مسیحا کا تصور پیش کرتا ہے۔ اس طبقے کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ یہ مسیحا بندوق بردار ہے اور مسلح افراد کا ایک جھتا منظم کرتا اور طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قابض ہو کر اپنی خلافت کا اعلان کر دیتا ہے۔ حقیقت کہیں وسط میں ہے جسے تلاش کرنا چاہیے، اگرچہ جذبات فروشی کے ماحول میں صرف انتہا پسندی فروغ پاتی ہے، میانہ روی نہیں۔
سیاسی اتحاد کسی مشترکہ مقصد کے لیے تشکیل پاتے ہیں۔ اس کے لیے کلی اتفاق لازم نہیں۔ کلی اتفاق تو ایک جماعت میں محال ہے، کجا یہ کہ اسے کسی اتحاد میں تلاش کیا جائے۔ ایسے اتحاد مذہبی مقاصد کے لیے بنتے ہیں اور سیاسی مقاصد کے لیے بھی۔ اس میں کوئی بات ایسی نہیں جو غیر اصولی ہو یا غیر اخلاقی۔
ہمارے ملک میں مذہبی اتحادوں کی ایک تاریخ ہے۔ پہلا اتحاد بائیس نکات پر ہوا۔ اس میں ہر مسلک کے علما شامل تھے۔ اس اتحاد کا مقصد ریاست کی نظریاتی سمت کا تعین تھا۔ پھر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے اتحاد ہوا۔ اس میں شیعہ سنی سب شامل تھے۔
اسی طرح کے اتحاد سیاست میں بھی وجود میں آتے رہے ہیں جب کسی مشترکہ مقصد کی خاطر دوسرے اختلافات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ایوب خان کے خلاف بھی ایسا ہی ایک اتحاد محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں وجود میں آیا۔ مولانا مودودی اسلام میں عورت کی حکمرانی کو درست نہیں سمجھتے تھے لیکن انہوں نے صدارت کے منصب کے لیے ایک خاتون کی تائید کی۔ وجہ ایک بلند تر مقصد آمریت سے نجات اور جمہوریت کی بحالی تھی۔ زندگی میں بارہا ایسا لمحہ آتا ہے کہ ایک بڑی برائی کے خلاف ایک کم تر برائی کو گوارا کرنا پڑتا ہے۔ مولانا مودودی نے اس نکتے کی شرعی تاویل کے لیے مضامین لکھے‘ جو ان کے ایک مجموعہ مضامین، 'تفہیمات‘ (سوم) میں شامل ہیں۔
مولانا کی زندگی ہی میں، جماعتِ اسلامی نے 1977ء میں اے این پی وغیرہ کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابی اتحاد بنایا۔ اس اتحاد میں بائیں بازو کے لوگ شامل تھے جن کے خلاف جماعت اسلامی نے طویل فکری اور سیاسی جنگ لڑی تھی۔ اسی اتحاد میں دوسری مسلکی جماعتیں بھی شامل تھیں۔ اس سے پہلے 1973ء کے آئین کے لیے سیاسی جماعتیں متحد ہوئیں۔ مولانا مودودی، مفتی محمود صاحب، نواب زادہ نصراللہ خان، یہ وہ لوگ ہیں‘ جن کے حسنِ کردار کا ایک زمانہ معترف ہے۔ کوئی انہیں 'اقتدار کے بھوکے‘ سیاست دان نہیں کہہ سکتا۔
ایسے اتحادوں میں شریک لوگ جانتے ہیں کہ یہ اتحاد ایک خاص مقصد کے لیے ہوتے ہیں۔ مقصد پورا ہو جائے تو ان کا ختم ہونا فطری ہے۔ باایں ہمہ یہ بھی ممکن ہے کہ مقصد کے حصول سے پہلے، کسی کی رائے بن جائے کہ اتحاد اپنے مقصد سے ہٹ رہا ہے تو وہ اس سے الگ بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح حکومت سازی کے لیے بھی اتحاد ہو سکتے ہیں۔ کسی معاہدے کے تحت، اگر کوئی جماعت شریکِ اقتدار ہوتی ہے تو اس پر کوئی اصولی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ اخلاقی پابندی بس اتنی ہے کہ دونوں معاہدے کی پاس داری کریں۔
آج بھی دونوں طرح کے اتحاد وجود میں آ رہے ہیں۔ حکومت سازی کے لیے بھی اور حکومت کے خلاف بھی۔ اس میں کوئی کسی کو طعنہ نہیں دے سکتا اور دینا بھی نہیں چاہیے۔ یہ سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ اتحاد پر اس وقت اعتراض ہو سکتا ہے جب کوئی منفی جذبہ یا محض انتشار اس کا محرک ہو۔ سیاسی مخالفین ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہیں گے کہ یہ بھی سیاسی عمل کا حصہ ہے۔
اپوزیشن کی جماعتیں اگر یہ سمجھتی ہیں کہ انتخابی عمل شفاف نہیں تھا تو وہ یہ حق رکھتی ہیں کہ اس ایک نکتے پر جمع ہوں اور تحقیقات کے لیے کوئی مہم چلائیں؛ تاہم میری تجویز یہ ہو گی کہ وہ اس کے لیے قانونی اور جمہوری طریقہ اختیار کریں۔ نظمِ اجتماعی کو اس طرح متاثر نہ کریں کہ ادارے مفلوج ہو جائیں۔ اپوزیشن کو اصل سوال یہ در پیش ہے کہ ان کی تحریک کا ہدف کون ہے؟ انتخابات کے شفاف انعقاد کی ذمہ داری تحریک انصاف کی نہیں تھی۔ پارٹی قیادت کو البتہ اس کے ذمہ داروں میں شامل کیا جا سکتا ہے جو کئی ماہ سے جاری عمل کا حصہ رہی ہے۔
اپوزیشن کا اشارہ کسی سیاسی جماعت کی طرف نہیں، کسی دوری جانب ہے۔ یہ منظر 1977ء سے مختلف ہے۔ اس وقت سیاسی جماعتیں جس فریق کے خلاف متحد تھیں، وہ بھی ایک سیاسی جماعت تھی۔ اس بار ایسا نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ریاستی اداروں ہی کو فریق سمجھا جا رہا ہو تو پھر ثالثی کون کرے گا؟
یہ ہے حالات کی وہ سنگینی جو سب کی توجہ چاہتی ہے۔ سیاسی جماعتوں سے زیادہ ریاستی اداروں کی۔ بظاہر یہ چیلنج تحریکِ انصاف کی حکومت کے لیے ہو گا لیکن اصلاً یہ ریاستی اداروں کے لیے ہے۔ میرا خیال ہے کہ آنے والے دن حالات کی سنگینی میں اضافہ کریں گے۔ اہلِ دانش کو اس کا کوئی حل تجویز کرنا پڑے گا۔ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب میڈیا کو مکمل آزادی میسر ہو اور لوگ کسی خوف کے بغیر اپنی بات کہہ سکیں۔
عمران خان کے لیے تو معاملہ وہی ہے کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ ان کا سامنا اب ڈاکوئوں کے کسی گروہ سے نہیں، منتخب عوامی نمائندوں سے ہے۔ ان کا مقابلہ ایک ایسی قوت سے ہے جس کے ووٹوں کی مجموعی تعداد ان کو ملنے والی ووٹوں سے زیادہ ہے۔ جنہیں وہ انتخابی مہم میں ڈاکو کہتے تھے، آج ان کا احترام ان کی آئینی مجبوری ہے۔ انہیں سیاسی جماعتوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ انہیں حکومت سازی ہی نہیں، حکومت بچاؤ کی مہم بھی شروع کرنا ہو گی۔ اس کی واحد صورت اپوزیشن سے رابطہ ہے۔
مجھے ان کے گرد و پیش کوئی ایک ایسا آدمی دکھائی نہیں دیتا جو صورتِ حال کو اس زاویے سے دیکھ رہا ہو۔ جو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت محسوس کر رہا ہو۔ سب وہ انتہا پسند ہیں جو عمران خان کی ہیجان خیز مہم کے نتیجے میں سامنے آئے۔ عمران خان کو آج ایک نئی سیاسی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جو ظاہر ہے کہ انتخابی حکمتِ عملی سے مختلف ہو گی۔ عمران خان اب جان چکے کہ سیاست آئیڈیل ازم کا نام نہیں۔ اگر اقتدار کے حصول کے لیے چوہدری پرویز الٰہی اور ایم کیو ایم کو ساتھ ملایا جا سکتا ہے تو اس کے بچاؤ کے لیے آصف زرداری اور شہباز شریف کو بھی گلے لگایا جا سکتا ہے۔ اگر اُس میں شرم نہیں تو اِس میں کیا شرم!