"KNC" (space) message & send to 7575

پاک پتن اور رجال الغیب

پاک پتن، کیا مراکزِ اقتدار میں ایک نئے مرکز کا اضافہ ہے؟
کہا جاتا ہے کہ اقتدار کے مراکز دو طرح کے ہیں۔ ایک دنیاوی اور ایک روحانی۔ دنیاوی مراکز وہ ہیں جنہیں ہم دارالحکومت کہتے ہیں۔ یہ دنیاوی اقتدار کی مرکزیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ روحانی اقتدار کے مراکز وہ خانقاہیں ہیں جو بظاہر ان صاحبانِ اقتدار کی آخری آرام گاہیں ہیں۔ دنیاوی اقتدار ایک عارضی شے ہے۔ آج ہے تو کل قصۂ پارینہ۔ روحانی اقتدار دائمی ہے۔ تختِ لاہور پر نہیں معلوم کتنے لوگ بیٹھے اور اٹھا دیے گئے۔ تاریخ کی کتابیں اب ان کا مدفن ہیں۔ لیکن یہاں شیخ علی ہجویریؒ کا اقتدار ہزار سال سے قائم ہے۔ اس کو زوال نہیں۔ اسی طرح تختِ دلی پر براجمان ہونے والوں کے تذکروں سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں‘ لیکن ان کے نام انسانی حافظے سے محو کر دیے گئے۔ شیخِ اجمیرؒ کا اقتدار لیکن قائم و دائم ہے۔
کیا ان دو طرح کے مراکزِ اقتدار میں کوئی باہمی تعلق بھی ہے؟ صوفیا کے تذکروں میں لکھا ہے کہ دنیاوی اقتدار کے بہت سے مراکز ایسے ہیں جو ان روحانی مراکز ہی کے طفیل قائم تھے اور ہیں۔ علاؤالدین خلجی کے بارے میں نظامی حضرات کا دعویٰ ہے کہ ان کی فتوحات سلطان المشائخ کی کرامت تھی۔ مغلوں کے بارے میں بھی کہا گیا کہ خاندان سُور پر ان کی فتح حضرت غوث گوالیارؒ کی مدد سے ہوئی۔ کیا روحانی فیض کا یہ سلسلہ آج بھی برقرار ہے؟ کیا ان دونوں مراکزِ اقتدار کا باہمی تعلق بس اتنا ہی اور غیر مرئی ہے؟
بہت سے لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ آج بھی قائم ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دنیا کا یہ اقتدار روحانی شخصیات کے فیض سے ملتا ہے۔ اس کا پس منظر، یہ نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے نظم کو، جس میں انسانی معاشروں کا سیاسی اقتدار بھی شامل ہے، بعض انسانوں کے سپرد کر رکھا ہے جنہیں وہ رجال الغیب کہتے ہیں۔ یہ ہر دور میں ہوتے ہیں۔ قطب ابدال وغیرہ انہی رجال کے مختلف طبقات ہیں۔ یہ عام لوگوں پر اپنی اس حیثیت کو ظاہر نہیں کرتے؛ تاہم بعض خواص پر ظاہر ہو جاتے ہیں اور ان کے توسط سے بعض اوقات عامۃ الناس کو آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں متنبہ کرتے رہتے ہیں۔
آج کے معروف صوفی سرفراز شاہ صاحب نے اپنی کتاب 'کہے فقیر‘ میں بیان کیا کہ ایک مرتبہ جب وہ اپنے شیخ سے ملے تو ان کی طبیعت کو مکدر پایا۔ وجہ معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ گزشتہ شب وہ ترکی کے قریب سمندر میں تعینات تھے‘ جہاں انہیں زلزلہ برپا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ زلزلے سے ظاہر ہے کہ زمین ہلتی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ طبیعت میں متلی محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ زلزلہ جاپان کی زمین پر ظاہر ہو گا۔ شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ دو دن بعد اخبارات سے معلوم ہوا کہ جاپان میں زلزلہ آیا ہے اور اس کی شدت وہی تھی جو پیر صاحب نے بتائی تھی۔
اقتدار کے خواہش مند ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ انہیں کسی ایسی ہستی کی تائید میسر آ جائے تو دنیا میں ان کا اقتدار قائم ہو سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور نواز شریف کیسے ایسے لوگوں کے متلاشی رہتے تھے اور جس کے بارے میں انہیں گمان ہوتا کہ وہ ان کی مطلوب شخصیت ہے، وہ اس کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ ان روحانی شخصیات کا یہ امتیاز ہے کہ یہ جس کو چاہیں اقتدار سونپ دیتے ہیں لیکن خود کبھی دنیاوی اقتدار کا حصہ نہیں بنتے۔ یہ واضح ہے کہ ان کی مداخلت ماورائے اسباب ہوتی ہے۔
روحانی اقتدار یا تصرف کا دعویٰ رکھنے والا ایک دوسرا طبقہ بھی ہے۔ یہ نہ صرف خود اقتدار میں شریک ہوتا ہے بلکہ اسباب کی دنیا میں بھی معاونت کرتا ہے۔ ہم اسے جوڑ توڑ کی سیاست میں عام سیاست دانوں کی طرح مصروف دیکھتے ہیں۔ یہ اپنی روحانی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے عوام سے ووٹ مانگتے ہیں اور پیسے بھی۔ یوں ان کا معاشرے سے ایک دنیا دارانہ تعلق بھی قائم ہو جاتا ہے۔ یہ عام طور پر خود کسی روحانی مرتبے پر فائز نہیں ہوتے۔ یہ کسی روحانی شخصیت کے گدی نشین ہوتے ہیں اور یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ اس جانشینی کے ناتے، انہیں بھی نسلی طور پر روحانی کمالات حاصل ہو گئے ہیں۔
اس کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ جیسے شاہ محمود قریشی صاحب۔ یہ انگریزوں کے دور سے دنیاوی اقتدار کے معاون و مددگار چلے آتے ہیں اور خود بھی دنیاوی مناصب پر فائز رہے ہیں۔ یہ سلسلہ نسل در نسل جاری ہے یا پھر سندھ میں جناب طالب المولیٰ کا خاندان۔ ان کا شمار اولین مترجمینِ قرآن میں ہوتا ہے؛ تاہم ان کی اولاد سے کوئی بڑا علمی کارنامہ منسوب نہیں۔ ان کے صاحب زادے امین فہیم اگرچہ شاعر تھے لیکن ان کی شہرت ایک سیاست دان ہی کی تھی۔ وہ بارہا اقتدار کا حصہ رہے اور جوڑ توڑ کی سیاست بھی کرتے رہے۔
ان لوگوں کی وجہ سے ملک کی بہت سے خانقاہیں اور گدیاں جہاں عام لوگوں کے لیے روحانی فیض کا مرکز ہیں، وہاں دنیاوی اقتدار کے مراکز کے طور پر بھی عوامی توجہ کا مرکز ہیں۔ لوگ ایک طرف اُن سے بیماروں کی شفا کے لیے دعا کراتے ہیں اور دوسری طرف بیٹے کو تھانے سے اٹھانے کے لیے ان کی سفارش بھی چاہتے ہیں۔ پاک پتن کی گدی ابھی تک روحانی کمالات کے لیے زیادہ مشہور تھی۔ کیا اب وہ دنیاوی اقتدار کا ایک مرکز بھی بننے جا رہی ہے؟ کیا یہ وہی ماڈل ہے جس کے مظاہر شاہ محمود قریشی اور امین فہیم وغیرہ کی صورت میں موجود ہیں؟ 
کیا عمران خان بھی اقتدار کے لیے کسی روحانی سہارے کی تلاش میں پاک پتن جا پہنچے؟ کیا انہیں بھی رجال الغیب کی تلاش تھی؟ ان کا کہنا ہے کہ وہ تو یہاں ابنِ عربی پڑھنے گئے تھے۔ وہ ابن عربی سے کتنا واقف ہو پائے، اس کی ہمیں خبر نہیں، مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ وہاں سے ان کی خانہ آبادی کا سامان ہو گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نکاح سے پہلے انہوں نے اپنی اہلیہ کی صورت تک نہیں دیکھی تھی۔ خاور مانیکا صاحب بتا چکے کہ یہ نکاح ایک روحانی فیصلہ ہے۔ میرے پاس یقینی معلومات یہی ہیں۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے، وہ قیاس آرائی ہے۔ تاہم ان معلومات سے یہ واضح ہے کہ یہاں معاملے کی روحانی اور دنیاوی جہتیں مدغم ہو گئی ہیں۔
خاور مانیکا اور ان کے خاندان کی بارے میں جو نئی خبریں آ رہی ہیں، وہ متضاد ہیں۔ ''دنیا‘‘ ہی کے دو محترم کالم نگار دو مختلف باتیں کہہ رہے ہیں اور میں دونوں کی دیانت پر بھروسہ کرتا ہوں۔ ان کا اختلاف نقطہ نظر کا اختلاف نہیں، صحتِ خبر کے باب میں ہے۔ اگر ایک کو درست مان لیا جائے تو دوسرے کی تردید لازم ہو جاتی ہے۔ میں خبر کی دنیا کا آدمی نہیں، اس لیے کسی کی تائید یا تردید نہیں کر سکتا۔ میں مذہب اور سماجیاتِ مذہب (Sociology of Religion) کا طالب علم ہوں اور اسی حوالے سے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
اگر عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پاک پتن میں اس روحانی ہاتھ کو تلاش کر لیا جو دراصل رجال الغیب کا ہاتھ ہے، اگرچہ بظاہر یہ ایک خاتون کا ہاتھ ہے‘ تو آنے والے دنوں میں معاملات کا رخ کوئی اور ہو گا۔ پھر فیصلے انسانی عقل کے بجائے، کسی روحانی اشارے کی بنیاد پر ہوں گے۔ بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ صوفیا کے ایک طبقے کے نزدیک رجال الغیب میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔ اگر میرا حافظہ ساتھ دے رہا ہے تو ابن عربی نے ایسی ہی ایک خاتون سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ میرا تاثر یہ ہے کہ یہ شاہ محمود قریشی اور امین فہیم طرز کا ماڈل ہے جسے عمران خان رجال الغیب کا ماڈل سمجھ رہے ہیں۔ واللہ اعلم۔
میرے نزدیک حکومت سراسر تدبیر کا معاملہ ہے۔انسان اپنی عقل سے، پوری دیانت کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور پھر کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے۔ ریاست مدینہ میں یہی ہوتا تھا۔ عمران خان کے لیے بھی کامیابی کا واحد ماڈل یہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں