یہ شاید پاکستان کی پہلی 'منتخب‘ حکومت ہے جس نے اپنی بنیاد جذبۂ انتقام پر رکھی ہے، سیاسی استحکام پر نہیں۔
حنیف عباسی کا معاملہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ یوں تو یہ سارا قصہ ہی ہمارے نظام کے لئے تادیر سوالیہ نشان بنا رہے گا‘ اس وقت لیکن اس کی آخری قسط (تا دمِ تحریر) کا بیان مطلوب ہے جس کا تعلق 'جمہوری‘ حکومت سے ہے۔ واقعہ بس اتنا تھا کہ نواز شریف کی رہائی کے وقت حنیف عباسی سپرنٹنڈنٹ جیل کے کمرے میں پائے گئے۔ قانون شکنی کی اس غیر معمولی واردات پر صوبائی ہی نہیں، مرکزی حکومت بھی حرکت میں آ گئی: ایک مجرم اور یہ جرأت؟ مرکز نے صوبے کو ڈانٹا کہ پنجاب میں لا قانونیت کا یہ عالم کیوں؟ فوری تحقیقات ہوئیں اور حنیف عباسی کو اٹک جیل منتقل کر دیا گیا۔ یوں فوری انصاف، عدل اور قانون کے احترام کے تمام تقاضے پورے ہوئے۔
حنیف عباسی دل کے مریض ہیں۔ حال ہی میں ایک ہسپتال سے دل کی رگ میں پیوند لگوا کر جیل واپس گئے ہیں۔ عدالت نے انہیں عمر قید ہی کی سزا نہیں سنائی، ان کے تمام بینک اکائونٹس بھی منجمد کر رکھے ہیں۔ اٹک جیل میں وہ گھر ہی نہیں، ہسپتال سے بھی دور ہوں گے۔ ان کی اہلیہ کا واویلا ہے کہ ہسپتال سے یہ دوری کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ وقت کی منتخب حکومت کو مگر اعلیٰ اقدار کی پاسداری کرنی ہے۔ انسانی جان اتنی قیمتی نہیں کہ اس کے لیے عدل جیسی قدر کو داؤ پر لگا دیا جائے۔ یوں بھی ان کا نام حنیف عباسی ہے، پرویز مشرف نہیں۔
قانون اور نفاذِ قانون کے درمیان ایک فاصلہ ہوتا ہے۔ اس کو حکمران اپنی بصیرت سے طے کرتے ہیں۔ کبھی نفاذ میں سختی کہ حالات متقاضی ہوتے ہیں۔ کبھی نرمی کہ اس سے بہتر نتائج کی توقع ہوتی ہے۔ کبھی مجرم آئین شکنی جیسے جرم کا مرتکب ہوتا اور یوں کسی رعایت کا مستحق نہیں ہوتا۔ کبھی 'مجرم‘ سیاسی ہوتا ہے اور نرمی کے ساتھ سیاسی مفاہمت کا پیغام دیا جاتا ہے۔ یہ دونوں راستے قانون ہی کے دائرے سے نکلتے ہیں۔ انتخاب البتہ حکمران کرتے ہیں۔ سیدنا امیر معاویہؓ نے، جن کا شمار دنیا کے کامیاب ترین حکمرانوں میں ہوتا ہے، اس کو بیان کیا ہے۔ فرمایا: ''میں عوام کے ساتھ ایک ڈوری سے ساتھ بندھا ہوا ہوں۔ وہ کھینچتے ہیں تو میں ڈھیل دے دیتا ہوں۔ وہ ڈھیل دیتے ہیں تو میں کھینچ لیتا ہوں‘‘۔
حنیف عباسی کے معاملے کو بھی دونوں زاویوں سے دیکھا جا سکتا تھا۔ ایک قیدی ہے‘ جس کا لیڈر رہا ہو رہا ہے۔ وہ اس کو خدا حافظ کہنے آ گیا ہے۔ جیل سپرنٹندنٹ نے اس کی اجازت دے دی۔ اگر کوئی چاہتا تو اسے معمولی واقعہ قرار دے کر نظر انداز کیا جا سکتا تھا کہ یہ کوئی غیر معمولی بات یا بڑی قانون شکنی نہ تھی۔ ایسا نہیں ہو سکا۔ اسے غیر معمولی سمجھا گیا اور نون لیگ کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ حکومت سے کسی رعایت کی توقع نہ رکھے۔ یہ رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ حکومت نون لیگ کے ساتھ مفاہمت نہیں، انتقام کے راستے پر چلنا چاہتی ہے۔
دیگر حکومتی اقدامات سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ وزرا کا لہجہ بدستور تلخ ہے جیسے وہ انتخابی فضا سے ابھی باہر نہیں آئے۔ عمران خان صاحب نے بھی اپنی کسی تقریر میں اپوزیشن کو مفاہمت کا کوئی پیغام نہیں دیا۔ اب تک انہوں نے کوئی ایک ایسا جملہ ادا نہیں کیا جس میں اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ چلنے کی دعوت دی گئی ہو۔ تحریکِ انصاف کی لغت میں کرپشن کی تعریف یہ ہے کہ 'وہ بد عنوانی (حقیقی یا فرضی) جو شریف خاندان نے کی ہو‘۔ اسی خاندان کی مبینہ نا جائز دولت کی تلاش میں دوسرے ملکوں سے معاہدے ہو رہے ہیں۔ دکھائی یہی دیتا ہے کہ یہ محض قانون کی حکمرانی کا تصور نہیں، جذبۂ انتقام ہے جس کی تسکین مطلوب ہے۔ یا پھر وہ خوف ہے جو مریم نواز کی صورت میں ایک مزاحمتی تحریک میں ڈھل رہا ہے۔
انقلابی تحریکوں کی بنیاد جذبۂ انتقام پر ہوتی ہے۔ وہ کسی ایک یا ایک سے زیادہ طبقات کے ردِ عمل میں برپا ہوتی ہیں۔ ان کا اصل پیغام یہ ہوتا ہے کہ فلاں فلاں گروہ عوامی مسائل کا سبب ہیں۔ ان کے گھر دراصل محروموں کے گھروں کو برباد کر کے آباد کئے گئے ہیں۔ ہمیں ان سے سب کچھ چھین کر محروموں میں بانٹ دینا ہے۔ اسی خیال کے ساتھ عوام کو ساتھ ملایا جاتا ہے اور پھر جب انقلابی جیت جاتے ہیں تو ان کے ساتھ چلنے والوں کا بھی مطالبہ ہوتا ہے کہ اب لوٹنے والوں سے انتقام لیا جائے۔
تحریکِ انصاف اگرچہ ایک سیاسی جماعت ہے مگر اسی انقلابی تصور پر کھڑی ہے۔ اس نے جس سیاسی کلچر کو فروغ دیا ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اس کے متاثرین کے لیے یہ طے شدہ امر ہے کہ شریف خاندان بد عنوان ہے۔ عمران خان صاحب کی ہر بات کو وہ آسمانی صحیفہ سمجھتے ہیں۔ جب انہوں نے کہہ دیا کہ شریف خاندان کے تین سو ارب روپے ملک سے باہر پڑے ہیں تو اب مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ اب حکومت اُن کے پاس ہے، اس لیے ان کے متاثرین کا بھی مطالبہ ہے کہ وہ یہ پیسے واپس لائیں۔
تحریکِ انصاف کے ساتھ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک جمہوری نظام کے تحت کام کرنے پر مجبور ہے۔ اس کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ قانون کے سخت نفاذ کا راستہ اپنائے۔ اگر قانون ساتھ نہ دے تو نئی قانون سازی کرے۔ اس پس منظر میں حنیف عباسی کے ساتھ روا سلوک کی توجیہہ کی جا سکتی ہے۔ اس سوچ کے تحت، عباسی اس کے سوا کیا ہیں کہ استحصالی گروہ کے کارندے ہیں۔ اس اندازِ نظر کے ساتھ مفاہمت کا کوئی راستہ نہیں نکل سکتا۔
اس رویے کا ایک تقابل نواز شریف صاحب کے رویے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ 2013ء میں جب نون لیگ برسرِاقتدار آئی تونوازشریف نے دیگر سیاسی قوتوں کو کمزور یا ختم کرنے کے بجائے،ان کے ساتھ مفاہمت کا رویہ اپنایا اور ان کو کام کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا۔وہ عمران خان کے گھر بنی گالہ گئے اور ان کی فرمائش پر یہاں کی سڑک بنوائی۔کسی صوبائی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیںکیا۔افسوس کہ انہیں اس کا مثبت جواب نہیں ملا۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ اس وقت سیاست کا کون سا اسلوب ملک کے مفاد میں ہے؟انقلابی جو جذبۂ انتقام پر مبنی ہے یا جمہوری جو دوسروں کے لیے کام کے مواقع پیدا کرتا ہے؟ یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ جمہوریت یہ طے کرتی ہے کہ کس کو حکومت ملے گی۔ اس کا یہ مفہوم کبھی نہیں ہوتا کہ دیگر گروہ بے نوا ہو جائیں۔ جمہوریت میں اختلافِ رائے کے احترام کو بنیادی قدر کی حیثیت حاصل ہے۔ انقلابی سوچ کی ناکامی کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ ماضی کے طرف دیکھتی ہے۔ جمہوری سوچ آگے کی طرف دیکھتی اور مفاہمت کے راستے تلاش کرتی ہے۔
پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو مخالفین کے وجود کو تسلیم کرنا ہو گا۔ انتقام کے بجائے مفاہمت کی پالیسی اپنانا ہو گی۔ مفاہمت کا مطلب یہ نہیں کہ قانون کو غیر مؤثر بنا دیا جائے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی ایک فرد، خاندان یا گروہ کو سامنے رکھتے ہوئے قانون بنایا جائے نہ اس کا استعمال کیا جائے۔ انتقام کے بجائے انصاف کا راستہ اختیار کیا جائے۔ بڑے مناصب پر اگر چھوٹے لوگ بیٹھ جائیں تو وہ انتقامی سوچ اپناتے اور یوں معاشرے مستقبل کے بجائے ماضی کی طرف دیکھتے ہیں۔ بڑے لوگ افراد پر نہیں، اقدار پر نظر رکھتے ہیں۔ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی انقلاب فتحِ مکہ ہے۔ رسالت مآبﷺ نے اس موقع پر اپنے اسوۂ حسنہ سے بتا دیا کہ بڑے لوگ انتقام پر یقین نہیں رکھتے۔
حنیف عباسی کے قصے اور دیگر آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حکومت پر انتقامی جذبہ غالب ہے۔ عمران خان کی حکومت کے طرزِ عمل سے یہ طے ہو گا کہ یہ استحکام کے راستے پر چلنا چاہتی ہے یا انتقام کے راستے پر؟