ہر رومان کی طرح یہ رومان بھی اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کی رفتار البتہ ہماری تو قع سے کہیں زیادہ ہے۔
اربابِ اقتدار میں وزیر اعظم عمران خان کے دوستوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ان کے مداحوں کا اضطراب بھی۔ دوست نہیں، اب تو دوستوں کے خاندان بھی نوازے جا رہے ہیں۔ لوگ اسے اقربا پروری کہتے ہیں۔ رومان میں لپٹی توقعات کی گٹھڑی اٹھائے مسافر ہیں‘ جنہیںدشتِ سیاست کی بے سمت مسافت در پیش ہے۔ منزل کا دور دور تک پتا نہیں۔ مایوسی کے سائے گہرے ہوتے جاتے ہیں۔
عمران خان صاحب کے حامی دفاع تو کرتے ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ ان کا دل ان کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہا۔ وہ دراصل اپنے آپ سے لڑ رہے ہیں۔ یہ خود شکستگی ہے۔ دنیا میں اس سے کمزور مقدمہ کوئی نہیں ہو سکتا، جس کو لڑنے والے ہی اس کے قائل نہ ہوں۔ عمران خان کا دفاع ایسا ہی ایک مقدمہ ہے۔ تحریکِ انصاف کے حامی اس مشکل میں کیوں ہیں؟ اگر وہ سیاسی حقیقت پسندی کے ساتھ اس کا جائزہ لے سکیں تو شاید اس داخلی اضطراب سے بچ جائیں۔
یہ جو کچھ ہو رہا ہے، ہمارے سیاسی کلچر کے لیے کسی طور اجنبی نہیں۔ شریف خاندان تو اس باب میں اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے جماعتی اور حکومتی مناصب کو اپنے خاندان اور زیادہ سے زیادہ شخصی وفاداروں کے ایک حلقے تک محدود رکھا۔ یہ بات میں اس وقت بھی لکھتا رہا جب وہ برسرِ اقتدار تھے۔ عمران خان نے اسے 'خاندانی بادشاہت‘ کہا اور اس کے خلاف عوامی سطح پر نفرت پیدا کی۔ سیاست میں یہ سودا بکتا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ سیاست کبھی اس سے آزاد نہیں ہوئی۔ ہمارے سماجی پس منظر میں، فی الحال ہو بھی نہیں سکتی۔
سیاست عوامی جذبات کی تجارت کا نام ہے۔ عمران خان یہ بات جانتے ہیں۔ انہوں نے انتخابات میں یہی تجارت کی۔ ان کو کرپشن سے نفرت ہو گی لیکن اب ایسی بھی نہیں کہ ہر جگہ گوارا نہ ہو۔ اگر یہ کرپشن ان کو اقتدار تک پہنچانے میں معاون ہے تو ان کے لیے قابلِ قبول ہے۔ نواز شریف اور جہانگیر ترین کے بارے میں عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ ایک ہے۔ فرق دونوں میں یہ ہے کہ نواز شریف کا سرمایہ عمران خان کے سیاسی عزائم میں حائل رہا۔ اس کے بر خلاف جہانگیر ترین کا سرمایہ ان کا معاون تھا۔ اب ظاہر ہے کہ دونوں کے بارے میں ان کی رائے ایک نہیں ہے۔
عمران خان صاحب کے متاثرین دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو ان کے حامی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا معاملہ دلیل کا نہیں ہے۔ ان کے نزدیک عمران خان کی طرف کسی غلط بات کی نسبت ہی ناقابلِ یقین ہے۔ ایک بڑا طبقہ البتہ وہ ہے جو ان کے مقدمے کو دلیل کی بنیاد پر قبول کرتا‘ اور یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کو روایتی اہلِ سیاست سے نجات حاصل کرنی چاہیے‘ اور عمران خان چونکہ غیر روایتی سیاست دان ہیں، اس لیے ہم ان سے یہ توقع رکھ سکتے ہیں۔
یہ طبقہ مگر یہ نہیں جان سکا کہ عمران خان خود تو روایتی سیاست دان نہیں مگر ان کی سیاست روایتی ہے۔ ان کے اعوان و انصار روایتی ہیں اور اس کا اسلوبِ سیاست بھی روایتی ہے۔ اسی روایتی سیاست کا ایک پہلو عوام کا جذباتی استحصال ہے۔ برسرِ اقتدار آنے کے بعد اب عوامی جذبات کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ اب سیاست روایتی ڈگر پر آ چکی۔ اقربا پروری اس سیاست کا جزوِ لاینفک ہے۔
عمران خان نے دوستوں کو مناصب دیے، رشتہ داروں کو نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو چند رشتہ دار سیاست کی ابتدا میں ان کے ہم سفر تھے، وہ انہیں چھوڑ چکے۔ آج کل ان کے کچھ خدمت گزار ہیں‘ جنہیں عرفِ عام میں دوست کہا جاتا ہے۔ وہ ان کی کچھ شخصی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں‘ جس کے باعث انہیں عمران خان صاحب کی قربت حاصل ہے۔ خدمت گزار اور دوست میں فرق یہ ہے کہ دوستی برابر کی سطح کا رشتہ ہوتا ہے اور دو طرفہ بھی۔ ان دوستوں پر اقتدار کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔
عمران خان نے اگر اقربا پروری اور قریبی لوگوں کو شریکِ اقتدار کرنے پر تنقید نہ کی ہوتی تو انہیں بھی آج تنقید کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اس لیے وہ بات جو انہونی نہیں یا کوئی بڑا سیاسی جرم بھی نہیں، ان کے پاؤں کی زنجیر بنتی جا رہی ہے۔ اقربا پروری کوئی جرم نہیں اگر میرٹ کا خیال رکھا جائے۔ محض حکمران سے قربت کسی منصب کے لیے نا اہلیت کی دلیل نہیں ہو سکتی۔
حسب و نسب کا علم بتاتا ہے کہ بعض خاندانوں میں قیادت کے جینز ہوتے ہیں۔ وہ جس شعبے میں بھی جائیں، ان کی حیثیت قائدانہ ہوتی ہے۔ انہیں اس بنا پر قیادت سے نہیں روکا جا سکتا کہ وہ حکمران کے رشتہ دار ہیں۔ حفیظ اللہ نیازی اور انعام نیازی تحریکِ انصاف میں ہوں یا نہ ہوں، بہرحال قائدین ہی میں شمار ہوں گے۔ حفیظ اللہ اسلامی جمعیت طلبہ میں تھے تو قائدین میں شامل تھے۔ انعام اللہ مسلم لیگ میں بھی اہم ہیں۔ یہ اگر تحریکِ انصاف میں ہوتے تو کیا اس وجہ سے منصب سے محروم کر دیے جاتے کہ عمران خان صاحب کے رشتہ دار ہیں؟
خلیفہ راشد سیدنا عثمان ؓ پر مخالفین نے جو الزامات عائد کیے، ان میں یہ الزام بھی شامل تھا کہ انہوں نے اپنے خاندان بنو امیہ کے افراد کو منصب دیے۔ حضرت عثمانؓ نے اس کا دفاع کیا‘ اور اس کے اسباب بیان کیے۔ اس میں شبہ نہیں کہ سیدنا عمرؓ نے اپنے متوقع جانشینوں کی فہرست میں اپنے بیٹے کا نام شامل نہیں ہونے دیا تھا؛ تاہم انہوں نے بھی اس کے اسباب بیان کیے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ یہ عزیمت کا اعلیٰ ترین مقام ہے، جس کی توقع اصحابِِ پیغمبر ہی سے کی جا سکتی ہے یا ان کے پیروکاروں سے۔
عملی سیاست کے تقاضوں کے پیشِ نظر مسئلہ یہ نہیں کہ انہوں نے اپنے دوستوں کو مناصب کیوں دیے۔ اصل سوال یہ ہے کیا وہ اس کے اہل ہیں؟ اگر ہیں تو یہ اعتراض زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کہ انہوں نے دوستوں کو مناصب کیوں دیے۔ یہ ثابت کرنا اب عمران خان صاحب کا کام ہے کہ ان لوگوں کہ اہلیت کیا ہے۔ مثال کے طور پر زلفی بخاری کی بہن کو اگر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نگران بنایا گیا ہے تو کس بنیاد پر؟ اگر ان کی واحد قابلیت زلفی بخاری کی بہن ہونا ہے تو پھر یہ گورننس کی بد ترین صورت ہے۔ اگر وہ اس کی اہلیت رکھتی ہیں تو پھر یہ سوال زیادہ اہم نہیں کہ وہ کس کی بیٹی اور کس کی بہن ہیں۔
رشتہ داروں یا دوستوں کو مناصب دینے میں فی نفسہ کوئی برائی نہیں۔ برائی اس میں ہے کہ اہل لوگوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، محض دوستی کی بنیاد پر لوگوں کو نوازا جائے۔ یہ اخلاقی جرم توہے ہی لیکن اس کی ایک قیمت ہے جو ہم اداروں کی بربادی کی صورت میں بھی ادا کرتے ہیں۔
عمران خان نے عوامی جذبات کی تجارت کی۔ یہی سیاست کی ریت ہے۔ اسی لیے میں ہمیشہ یہ بات کہتا رہا ہوں کہ اہلِ سیاست کے ساتھ رومان پالنا حماقت ہے۔ سیاست دانوں کو حقیقت کی نظر سے دیکھنا چاہیے کیونکہ وہ بھی سیاست اور لوگوں کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ عمران خان صاحب کی ذات میں اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنے والوں کو اب سمجھنا ہو گا کہ وہ ایک سیاست دان ہیں اور سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ ان سے وہ اتنی ہی توقع رکھیں جو وہ پوری کر سکیں۔ نواز شریف اور جہانگیر ترین کے بارے میں عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ ایک ہو سکتا ہے مگر عمران خان کی رائے ایک نہیں ہو سکتی۔ کرپشن دشمنی کا تقاضا یہ ہے کہ تمام کرپٹ لوگوں سے ایک جیسی نفرت کی جائے۔ یہاں ایسا نہیں ہے۔ اسی طرح زلفی بخاری اور عون چوہدری کی جگہ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا۔
جس دن عوام نے سیاست کو حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھنا شروع کر دیا، ان کے صدموں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آ جائے گی۔ آزمائش شرط ہے۔