نواز شریف صاحب جب عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو ہر بارچند مخصوص چہرے اُن کے ارد گرد دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟ پاکستان کی سیاست کو بہتر بنانے اور جمہوریت کے فروغ میں ان کا کیا کردار ہے؟
میں پرویز رشید جیسوں کی بات نہیں کر رہا۔ اُن کے سیاسی کردار سے ایک زمانہ با خبر ہے۔ دورِ طالب علمی سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایک نصب العین کے ساتھ سیاست میں ہیں اور اس کی قیمت ادا کی ہے۔ نظریاتی سیاست کا دعویٰ بہت لوگ کرتے ہیں‘ مگر کم ہوں گے جو اُن کی طرح اس راہ کی صعوبتیں اٹھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ میری مراد کچھ اور خواتین و حضرات سے ہے۔
ان لوگوں کی کوئی سیاسی تاریخ نہیں ہے۔ سیاسی فکر کے ارتقا میں ان کا کوئی حصہ ہے نہ سیاسی جدوجہد میں۔ کوئی کتاب لکھی ہے نہ کسی سیاسی تحریک میں شامل رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ کچھ کی شہرت اُن کا پیسہ اور جائیداد ہے۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف صاحب یا مسلم لیگ کے لیے ان کی کیا خدمات ہیں کہ انہیں ہمیشہ اپنے لیڈر کا قرب حاصل رہتا ہے۔ یہ جیتنے کی سکت نہیں رکھتے، پھر بھی انہیں پارٹی ٹکٹ مل جاتا ہے۔ انہیں سینیٹر وغیرہ بھی بنا دیا جاتا ہے۔ اقتدار مل جائے تو یہ شریکِ اقتدار بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کا راز کیا ہے؟ یہ معاملہ صرف نواز شریف صاحب یا مریم نواز صاحبہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ آصف زرداری صاحب اور عمران خان صاحب کی کہانی بھی یہی ہے۔
یہ لوگ دو طرح کا کام کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ پارٹی اور لیڈر پر اپنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب پارٹی کسی بحران میں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر مشرف عہد میں جب اسلام آباد میں نون لیگ سے اس کا مرکزی دفتر چھین لیا گیا، ان میں سے کسی نے اپنی وسیع عمارت دفتر کے لیے پیش کر دی۔ جب جلسے کے لیے جگہ نہ ملی تو اپنے فارم ہاؤس کا دروازہ کھول دیا۔ گویا اپنی دولت سے پارٹی کی ضرورت پوری کی۔
کچھ ذاتی خدمت گار ہیں۔ وہ لیڈروں کی نجی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر لیڈر کو پسینہ آ گیا تو آگے بڑھ کر ٹشو پیپر پیش کر دیا۔ گفتگو کے دوران میں گلا بیٹھنے لگا تو پانی کا گلاس اٹھا لائے۔ ایک ڈاکٹر صاحب نے ہسپتال میں خدمت کی تو زرداری صاحب نے نہ صرف سینیٹر بنا دیا بلکہ صدر بنے تو ایوانِ صدر ایک طرح سے ان کے حوالے کر دیا۔ ایک صاحب کا کل اثاثہ یہ ہے کہ عمران خان کے جلسے میں گلا پھاڑ کر نعرے لگاتے تھے۔ خان صاحب نے انہیں سینیٹر بنا کر قانون سازی کا کام سونپ دیا۔ بعض تو لیڈر کے ایسے مزاج شناس ہیں کہ طلب سے پہلے رسد کا اہتمام کرتے ہیں۔ طلب کی فہرست حسبِ ذوق مرتب ہوتی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ میرا خیال ہے ایک درجے میں یہ فطری ہے۔ اگر کوئی مشکل میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا یا ضرورت کے وقت آپ کی مدد کرتا ہے‘ تو اس کے لیے آپ کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہو جاتا ہے‘ یا اگر کوئی ذاتی خدمت بجا لاتا ہے تو اس کے لیے بھی شکر گزاری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ رویہ اعلیٰ ظرفی میں شمار ہوتا ہے کہ آسودہ حال ہو جانے کے بعد، مشکل دنوں کے ساتھیوں کو یاد رکھا جائے۔ اگر سیاست ذاتی معاملہ ہے تو یہ توجیہہ قابلِ قبول ہو سکتی ہے‘ لیکن اگر یہ قومی ذمہ داری ہے تو پھر اس دلیل کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔
اگر پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہے اور اسی میں سے وزرا کا انتخاب ہونا ہے تو پھر لازم ہے کہ پارٹی ٹکٹ جاری کرتے وقت، ان لوگوں کا چناؤ کیا جائے جو اس منصب کے اہل ہوں۔ ایک پراپرٹی ڈیلر آخر قانون سازی میں کیا مدد دے سکتا ہے؟ اس کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں کہ پارلیمنٹ کی توقیر کا انحصار اس بات پر ہے کہ کس ذہنی اور اخلاقی سطح کے لوگ اس محترم ادارے کے رکن بنتے ہیں۔ اگر اس باب میں معیار کو نظر انداز کیا جائے گا تو اس کا اثر پارلیمنٹ کی ساکھ پر پڑے گا۔
اگر سیاسی جماعتوں کی قیادت پارٹی عہدوں اور پارلیمان کی رکنیت کے لیے اچھے اور با صلاحیت افراد کا انتخاب نہیں کرے گی تو اس سے سیاسی عمل زوال کا شکار ہو گا۔ پھر غیر سیاسی اداروں کو موقع ملے گا کہ وہ امورِ ریاست پر غالب آئیں۔ پھر محض پارلیمان کی برتری کا نعرہ کسی کے کام نہیں آئے گا۔ لوگ سیاست دانوں کا مذاق اڑائیں گے اور کوئی ان کا دفاع نہیں کر پائے گا۔
اگر یہ مقدمہ درست ہے تو پھر جمہوریت کے مستقبل کا انحصار سیاسی جماعتوں پر ہے۔ اس کا آغاز سیاسی جماعتوں کی تنظیم کو بہتر بنانے سے ہو گا۔ اس راہ میں ایک مسئلہ حائل ہے جس کا تعلق وسائل سے ہے۔ قومی سطح کی سیاسی جماعت کو کام کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہے۔ اگر صاحبانِ وسائل سرمایہ فراہم نہ کریں تو پارٹیاں متحرک نہیں رہ سکتیں۔ اب جو سرمایہ لگاتا ہے، جواباً توقعات بھی رکھتا ہے۔ یوں یہ پیسے والے پارٹی کی مجبوری بن جاتے ہیں۔ اس لیے بعض اوقات قیادت بادلِ نخواستہ بھی انہیں ممنون کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کی تنظیمِ نو کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پارٹی سطح پر وسائل جمع کریں‘ اور پارٹی کے مالیاتی نظام کو بہتر بنائیں۔ پاکستان میں مثال کے طور پر جماعت اسلامی نے اپنا مالیاتی نظام چندے کی بنیاد پر قائم کیا ہے۔ اس سے یہ امکان کم ہوا کہ کوئی صاحبِ وسائل ہونے کی وجہ سے اہم منصب تک پہنچ جائے؛ اگرچہ مہنگا انتخابی عمل جماعت کو بھی مجبور کرتا ہے کہ وہ پیسے والوں کو ٹکٹ جاری کرے۔ دیگر جماعتیں اس نظام کو بہتر بنا کر اختیار کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر پارٹی فنڈ کی اساس کو وسیع کرتے ہوئے، اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے کہ ایک خاص حد سے زیادہ چندہ کوئی نہیں دے سکتا تاکہ کوئی پیسے کی بنیاد پر پارٹی پر اثر انداز نہ ہو۔
خبر ہے کہ نواز شریف صاحب نے احسن اقبال صاحب کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی تنظیمِ نو کریں۔ یہ ایک اچھی خبر ہے۔ نون لیگ اس وقت ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ اسے سیاسی کلچر کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس وقت الیکشن کمیشن میں نون لیگ کے صدارتی انتخابات کو چیلنج کیا گیا ہے‘ اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر کا انتخاب ایک جعلی عمل کا نتیجہ ہے۔
الیکشن کمیشن میں یہ درخواست پارٹی کے ایک دیرینہ کارکن ملک شجاع الرحمٰن نے دائر کی ہے۔ مسلم لیگ کے لیے ملک شجاع صاحب نے جو قربانیں دیں، وہ کسی دوسرے سے کم نہیں۔ مشرف عہد میں ان کی جرأت مندی کا میں عینی گواہ ہوں۔ ان کی دیانت اور اخلاص کی شہادت دینے والے بھی کم نہیں۔ پارٹی نظم میں شفافیت کی کمی نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنا مقدمہ الیکشن کمیشن کے پاس لے جائیں۔ ملک شجاع کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ میں کبھی رکن سازی ہوئی ہے‘ نہ پرائمری، سٹی اور ڈسٹرکٹ سطح پر تنظیم سازی اور جنرل کونسل کے انتخابات ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنرل کونسل کی جعلی فہرست تیار کی گئی‘ اور اس کی بنیاد پر صدارتی انتخابات ہوئے۔
احسن اقبال صاحب نے الیکشن کمیشن میں اپنا جواب دے دیا ہے‘ لیکن صورتِ احوالِ واقعہ کیا ہے، انہیں اچھی طرح معلوم ہے۔ اگر وہ پارٹی کی تنظیمِ نو کرنے چلے ہیں تو انہیں دیرینہ کارکنوں کے جذبات کو سمجھنا ہو گا۔ میں ووٹ کی عزت کے لیے نواز شریف صاحب کے مقدمے کا پُر زور حامی ہوں‘ لیکن اس کے لیے انہیں عملی مثال بھی پیش کرنا ہو گی۔ انہیں بتانا ہو گا کہ مسلم لیگ میں ایک کارکن کے ووٹ کی کیا اہمیت ہے۔
جمہوریت کا انحصار اس بات پر ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوری اقدار، صلاحیت اور اخلاص کی اہمیت زیادہ ہے یا سرمایے، خوشامد اور ذاتی وفاداری کی۔ دیکھیے احسن صاحب کسے اہم تر سمجھتے ہیں۔