ایک بار پھر بحث اٹھ کھڑی ہوئی ہے کہ یومِ اقبال پر تعطیل ہونی چاہیے یا نہیں۔ فکر کی اس بلند پروازی پر اقبال ہی کو یاد کیا جا سکتا ہے۔
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
حال ہی میں ڈاکٹر محمد خالد مسعود صاحب کی تصنیف ''اقبال کا تصورِ اجتہاد‘‘ کا نیا ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ 1977ء میں علامہ اقبال کے صد سالہ یومِ ولادت پر بہت سی علمی سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے ایک مقالہ لکھا جسے بعد میں وسعت دی گئی تو اس نے کتابی صورت اختیار کر لی۔ یہ کتاب پہلی بار 1985ء میں شائع ہوئی۔ اب یہ نایاب تھی۔ تینتیس سال بعد ''ادارہ تحقیقات اسلامی‘‘ نے اسے دوبارہ شائع کیا تو گویا یہ ایک متاعِ گمشدہ کی بازیافت ہے۔ بعض فنی تبدیلیوں نے بھی اسے نیا پن دے دیا ہے۔
کچھ دن پہلے اسلامی نظریاتی کونسل میں اس کتاب پر ایک علمی مذاکرہ ہوا۔ ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کے علاوہ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بھی خطاب کیا۔ میں نے سوال اٹھایا: اس ملک میں، ریاست یا معاشرے کی سطح پر، کیا اقبال کا کوئی فکری وارث موجود ہے؟ میرا اپنا جواب تو نفی میں ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان میں پروفیسر فتح محمد ملک یا ڈاکٹر خالد مسعود جیسے افراد موجود ہیں‘ جو ایک آوازہ لگا رہے ہیں کہ ہمیں راہنمائی کے لیے اقبال کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ان کی ان مساعی کی نوعیت تکبیرِ مسلسل کی ہے مگر یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ ریاستی یا اداراتی سطح پر ان کی آواز پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں۔
علامہ اقبال کے ساتھ ہماری وابستگی جذباتی ہے یا رسمی۔ اس میں کچھ دخل ہمارے تعصبات کا ہے اور کچھ نیم خواندگی کا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کلامِ اقبال سے خلافت دریافت کر رہا ہے اور کوئی جمہوریت۔ کوئی جمہوریت کے خلاف اپنا مقدمہ قائم کرنے کے لیے، ان کے اشعار کا سہارا لے رہا ہے اور کوئی نظیر پیش کر رہا ہے کہ اقبال تو پارلیمنٹ کی بالا دستی کے قائل تھے۔ یہ سب ادھورے مطالعے اور نیم خوانگی کے مظاہر ہیں۔ گستاخی معاف کچھ الجھاؤ خود اقبال کے ہاں بھی ہے‘ جس نے ڈاکٹر جاوید اقبال کو بھی سوالات اٹھانے پر مجبور کیا۔
مثال کے طور پر اقبال کے اسی تصورِ اجتہاد کو دیکھیے۔ ہم اقبال سے محبت کرتے ہیں‘ مگر ان کے تصورِ اجتہاد سے ہمارا کوئی عملی تعلق نہیں۔ ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کی اس کتاب کے مطالعے سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے۔ اقبالیات کے باب میں، سب سے زیادہ کتابیں اسی موضوع پر لکھی گئیں۔ میرا طالب علمانہ تاثر یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد خالد مسعود صاحب کی کتاب، اس موضوع کا سب سے وقیع مطالعہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اقبال کے تصورِ اجتہاد کو تاریخی روایت کے پس منظر میں رکھ کر دیکھا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اقبال جب اجتہاد کی بات کرتے ہیں تو یہ محض روایتی تصور اجتہاد کی خوشہ چینی نہیں بلکہ وہ اس تصور کی تفہیمِ نو ہے۔ وہ ماخذاتِ دین کی طرف نئے انداز میں رجوع کرتے ہیں اور یوں نئے معانی دریافت کرنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ اس طرح اقبال اپنی فکری تشکیل میں منفرد ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اگرچہ اقبال کے مشہور خطبے ''اسلام کا تصورِ حرکت‘‘ کو بنیاد بنایا ہے لیکن ان کی بحث اس تک محدود نہیں۔ انہوں نے اسے فکرِ اقبال کو فی الجملہ سامنے رکھتے ہوئے اس تصور کو سمجھا ہے۔
علامہ اقبال نے اس موضوع پر صرف نظری کام نہیں کیا بلکہ اپنے عہد کے بعض بڑے مسائل پر اپنے اصولِ اجتہاد کو منطبق بھی کیا ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کو دو بڑے فکری مسائل کا سامنا تھا۔ ایک معاشرتی جس کا تعلق طلاق سے ہے۔ دوسرا خلافت اور جمہوریت کی بحث ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ ان دونوں موضوعات پہ اقبال نے کس اجتہادی شان کے ساتھ نگاہ ڈالی ہے۔
ریاست اگرچہ دعویٰ کرتی آئی ہے کہ وہ اقبال کو اپنا فکری راہنما مانتی ہے‘ مگر واقعہ یہ ہے کہ اس نے قانون سازی اور ادارہ سازی کے باب میں کبھی اقبال کی طرف رجوع کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس نے فکری مسائل کے لیے ہمیشہ روایتی اہلِ علم پر اعتماد کیا ہے۔ اس لیے ریاست کو مذہب و سیاست کا باہمی رشتہ قائم کرنے میں ہمیشہ مشکل کا سامنا رہا۔ اس کا اظہار حدود قوانین کے نفاذ کے وقت ہوا اور حقوقِ نسواں کے باب میں قانون سازی کے وقت بھی۔
علامہ اقبال ایک دیانت دار صاحبِ فکر آدمی تھے۔ وہ جانتے تھے کہ علم و تحقیق کی دنیا میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ اس لیے انہوں نے جب اجتہاد کے تصور کی تشکیل نو کی تو اپنے نتائجِ فکر کو قبول کرنے پر اصرار نہیںکیا‘ بلکہ مسلمان اہلِ علم کو توجہ دلائی کہ وہ اجتہاد کے عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے مسائل پر غور کریں۔ میرا احساس ہے کہ فکر اقبال سے وابستگی کا صحیح منہج یہی ہے۔ وہ دراصل ہمیں متوجہ کرنا چاہتے تھے کہ ریاست و اجتماع کی صورت اب تبدیل ہو گئی ہے۔ مسلم شناخت کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے جہاں روایت کے ساتھ وابستگی ضروری ہے، وہاں نئے مسائل پر نئی آراء قائم کرنا بھی لازم ہے۔
اجتہاد کا ہمارے ہاں عمومی مفہوم یہ ہے کہ اگر ہمیں کسی مسئلے کا حل قرآن و سنت میں نہیں ملتا‘ تو پھر ہمیں ان سے استنباط کرتے ہوئے اپنی رائے قائم کرنی چاہیے۔ اقبال اجتہاد کو اصول حرکت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس میں ماخذاتِ دین کی تفہیم نو بھی شامل ہے۔ وہ اس پر بھی گفتگو کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی طرف کس طرح رجوع کرنا چاہیے۔ اسی طرح احادیث کے باب میں تو ان کا نقطۂ نظر بڑی حد تک منفرد ہے۔
ڈاکٹر خالد مسعود نے چونکہ علامہ اقبال کے خطبے کو بطور خاص موضوع بنایا ہے، اس لیے اس کی شانِ نزول بھی بیان کی ہے۔ اس موضوع پر لکھنے سے پہلے کون سی کتب اقبال کے پیشِ نظر رہیں، کن اہلِ علم سے انہوں نے مشورہ کیا، ڈاکٹر صاحب نے اس کا بھی کھوج لگایا ہے۔ اس سے ان کی علمی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ حقیقی علم، انسان میں جو عاجزی پیدا کرتا ہے، اقبال اس کا بھی مظہر تھے۔ اس خطبے کے کیا اثرات مرتب ہوئے اور لوگوں کی تنقید سے اقبال کیسے دل گرفتہ ہوئے، اس کتاب میں اس کا بھی تذکرہ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ روایتی دینی حلقوں میں اس خطبے کا خیر مقدم نہیں ہوا۔ ہمارے دینی منظر نامے پر چونکہ ابھی تک انہی حلقوں کا غلبہ ہے، اس لیے ابھی تک اقبال کے ان خیالات کو عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا۔ لوگ ان کے شعروں سے حظ اٹھاتے اور ان سے حسبِ ضرورت معانی اخذ کرتے ہیں۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ ایک طرف منکرینِ حدیث انہیں اپنا فکری راہنما مانتے ہیں اور دوسری طرف مذہبی انتہا پسند بھی انہیں اپنی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ وہی ادھورا مطالعہ اور فکری تعصبات ہیں۔
یہ پہلو بھی قابلِ توجہ ہے کہ بعض امور میں، ان کی اصل رائے تک رسائی فی الواقعہ مشکل ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ ایک طرف اجتہاد کے علم بردار ہیں اور دوسری طرف اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہیں کہ وہ فقہ حنفی پر قائم رہے۔ یا ایک طرف وجودی تصوف کو اسلام کی سرزمین پر اجنبی پودا قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف وجودِ صوفیا کو اپنا پیر بھی مانتے ہیں؛ تاہم اس سے ان کی فکری اور علمی عظمت متاثر نہیں ہوتی کہ غیر انبیا کے ہاں فکری تضاد سے رہائی اگر معدوم نہیں تو شاذ ضرور ہے۔
ہمارے پاس لیکن ان موضوعات پر غور کرنے کا وقت نہیں۔ ہمیں ابھی تو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یومِ اقبال پر چھٹی ہونی چاہیے یا نہیں۔ اقبال سے وابستگی کا آخر ہمیں کوئی ثبوت تو دینا ہے۔