''چور کو چور نہ کہیں تو پھر کیا کہیں... کیا سادھو کہیں‘‘؟
یہ سوال نما استدلال کس نظامِ اخلاق سے پھوٹا ہے؟ میں اطمینان سے عرض کر سکتا ہوں کہ یہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی، اخلاقیات کا کوئی نظام اس استدلال کو قبول نہیں کرتا۔ اگر ان دو کے علاوہ بھی دنیا میں کوئی اخلاقی نظام پایا جاتا ہے تو کم از کم میں اس سے واقف نہیں۔ اور اگر کسی سیاسی ضرورت نے اسے وجود بخشا ہے تو پھر دوسری بات ہے۔ سیاسی استدلال عام طور پر سیاسی مطالبات سے جنم لیتا ہے۔ گویا سیاست کا نظامِ اخلاق، سیاسی ضروریات کے ٹیکسال میں ڈھلتا ہے۔
مذہب کا نظامِ اخلاق آفاقی ہے اور اس کا ماخذ انسان کے باطن میں ہے۔ غیر مذہبی نظامِ اخلاقیات یا ہیومن ازم، آفاقی نہیں، مقامی یا سماجی ہے۔ اس کا ماخذ انسان کے اندر نہیں، اس کے خارج میں ہے۔ دونوں میں اس کو برا سمجھا جاتا ہے کہ انسان کو ان القاب سے پکارا جائے جن کو وہ اپنے لیے پسند نہیں کرتا۔ کسی معاشرے میں اخلاقی عیب سے منسوب کرنے کی روایت مستحکم ہو جائے تو یہ اخلاقی گراوٹ کی دلیل ہے۔
مذہب کا مقدمہ تو دو اور دو چار کی طرح واضح ہے۔ قرآن مجید نے اس کو بیان کیا ہے اور قدیم صحائف نے بھی۔ سورہ حجرات میں ہے: ''آپس میں ایک دوسرے پر برے القاب چسپاں نہ کرو۔‘‘ (49:11)۔ سورہ حجرات مدینہ میں نازل ہوئی جب ایک مسلمان معاشرہ استحکام کے لیے کوشاں تھا۔ اللہ تعالیٰ راہنمائی فرما رہے ہیں کہ معاشرتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے لوگوں کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ ہدایت جس حکمت پر مبنی ہے، مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر میں، اس کی جانب متوجہ کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں: ''اچھے القاب سے ملّقب کرنا جس طرح کسی فرد یا قوم کی عزت افزائی ہے، اسی طرح برے القاب کسی پر چسپاں کرنا اس کی توہین اور تذلیل ہے۔ ہجویہ القاب لوگوں کی زبانوں پر آسانی سے چڑھ جاتے ہیں اور ان کا اثر نہایت دور رس اور نہایت پائیدار ہوتا ہے۔ ان کی پیدا کی ہوئی تلخیاں پشت ہا پشت تک باقی رہتی ہیں۔ اور اگر معاشرے میں یہ ذوق اتنا ترقی کر جائے کہ ہر گروہ کے شاعر، ادیب، ایڈیٹر اور لیڈر اپنی ذہانت اپنے حریفوں کے لیے برے القاب ایجاد کرنے میں لگا دیں تو پھر اُس قوم کی خیر نہیں ہے۔ اُس قوم کی وحدت لازماً پارہ پارہ ہو کر رہتی ہے۔‘‘ (تدبرِ قرآن، جلد ہفتم، صفحہ 507)۔
آج کے مغرب میں، جہاں غیر مذہبی اخلاقی نظام کا غلبہ ہے، یہ بات قبول نہیں کی جاتی کہ لوگوں کو القاب سے بلایا جائے یا ان کی سرِ عام توہین کی جائے۔ صدر ٹرمپ کا استثنا ہے۔ ہیومن ازم تو ایک ایسا اخلاقی نظام ہے جو انسان کی مرکزیت پر کھڑا ہے۔ اس میں فرد کو جہاں مطلق آزادی دی گئی ہے‘ وہاں اس کے جان و مال اور عزت کو بھی تحفظ دیا گیا ہے۔ اس مطلق آزادی میں بھی کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کی توہین کرے۔
یہ ممکن ہے کہ کوئی فرد کسی جرم میں ملوث ہو۔ جرم کا معاملہ جزا و سزا کے قانون سے متعلق ہے۔ ہر معاشرہ اپنے سیاسی نظم کے تحت، مجرموں سے نمٹتا ہے۔ وہ مجرموں کو سزا دیتا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کسی سزا یافتہ کو بھی معاشرے میں اس کے جرم کی نسبت سے پکارا جائے۔ اسلام اس معاملے میں جتنا حساس ہے، شاید ہی کوئی اخلاقی نظام ہو۔ رسالت مآبﷺ نے ایک مرتبہ دیکھا کہ لوگ ایک سزا یافتہ مجرم کو برے لفظوں سے یاد کر رہے ہیں تو آپ نے اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔
اسلام جرم اور گناہ میں بھی فرق کرتا ہے۔ بہت سے گناہ ہیں جن کی کوئی دنیاوی سزا، شریعت نے مقرر نہیں کی، جیسے غیبت لیکن اللہ کی نظر میں ان کا شمار بڑے گناہوں میں ہوتا ہے۔ جرم یا گناہ دونوں صورتوں میں اس کو پسند نہیں کیا گیا کہ لوگوں کو ان گناہوں یا جرائم کے حوالے سے یاد کیا جائے۔ ہمارا معاملہ تو بہت عجیب ہے۔ ہم اسے اپنا صواب دیدی حق سمجھتے ہیں کہ پہلے کسی کو، بغیر عدالتی کارروائی کے، ایک جرم میں ملوث قرار دیں اور پھر اسے اس نسبت سے پکارنے لگیں۔ یہی ہے وہ رویہ جس کے لیے استدلال کیا جاتا ہے کہ 'چور کو چور نہ کہیں تو کیا کہیں۔‘‘
آج ہمارے ہاں اہلِ اقتدار، اہلِ سیاست، اہلِ صحافت، حتیٰ کہ اہلِ مذہب اس بے تکلفی کے ساتھ دوسروں کو چور، ڈاکو ملعون، ملعونہ اور معلوم نہیں کیا کیا کہتے ہیں کہ ان کی دلاوری پر حیرت ہوتی ہے۔ جب اخلاق یا مذہب کا معاملہ اتنا واضح ہو تو اس کی خلاف ورزی کے لیے بڑی ہمت چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی اور جذبہ یا مفاد ہے جسے ہم مذہب اور اخلاق پر مقدم سمجھتے ہیں۔
اگر اسے اخلاق سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، خالصتاً مفاد یا دنیاوی نظر سے دیکھا جائے، تو بھی اس کی تائید نہیں کی سکتی۔ ہم صحابہ کے معاشرے میں نہیں رہتے۔ یہ اخلاقی طور پر ایک کمزور معاشرہ ہے جس میں کم و بیش سب ایک ہی اخلاقی درجے کے لوگ رہتے ہیں، الا ماشااللہ۔ اگر سیاسی قیادت ہی کو دیکھا جائے تو کوئی راہنما ایسا نہیں جس کی شہرت بے داغ ہو۔ کسی سے ایک طرح کی کرپشن منسوب ہے تو کسی سے دوسری طرح کی۔ روایتیں ہیں کہ تواتر کے درجے تک پہنچی ہوئی ہیں۔ کرپشن صرف پیسے ٹکے کی نہیں ہوتی۔ اس کے اور بھی بہت سے مظاہر ہوتے ہیں اور بعض سنگین تر۔ کون ایسا ہو گا جسے معصوم کہا جا سکے؟
تھوڑی دیر کے لیے تصور کیجیے کہ سب اپنے اپنے مخالفین کو ان سے منسوب اخلاقی رذائل کی نسبت سے پکار رہے ہیں۔ اب ایک دیکھنے اور سننے والے کو کیا محسوس ہو گا؟ وہ کیا سوچے گا، میں کہاں آ گیا ہوں؟ کیا وہ یہ نہیں سمجھے گا کہ میں ایک جہنم میں کھڑا ہوں جہاں میرے چاروں طرف مختلف اخلاقی جرائم میں ملوث لوگ پھر رہے ہیں؟ کیا ہم ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں لوگوں کے اخلاقی عیب نمایاں ہوں اور سب برہنہ کھڑے ہوں؟
اگر حکومت معاشرے کو جرائم سے پاک کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ قانون کو متحرک کرے اور نفاذ سے وابستہ افرادِ کار کو۔ اس کے خیال میں اگر کوئی کسی جرم میں ملوث ہے تو اس کو عدالت میں ثابت کرے۔ اگر سیاسی فائدے کے لیے گلی گلی 'چور چور‘ کی پکار لگائی جائے گی‘ تو اس کا جواب بھی گلیوں سے آئے گا۔ اس سے معاشرتی سطح پر پراگندگی اور انتشار پیدا ہو گا۔ پھر مقابلہ صرف گالیوں کا ہو گا۔ حکومت کو تمام وسائل میسر ہیں۔ ریاستی ادارے تعاون کر رہے ہیں۔ اسے اپنا مقدمہ عدالتوں میں ثابت کرنا ہے نہ کہ پروپیگنڈے کے محاذ پر۔
اہلِ مذہب کو تو کام ہی یہ ہے کہ وہ معاشرے کی اخلاقی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان میں جو علما ہیں، انذار ان کی ذمہ داری ہے۔ جو مذہب کے نام پر سیاست کر رہے ہیں، ان سے اتنی توقع تو رکھی جانی چاہیے کہ وہ کم از کم درجے میں مذہبی اخلاق کا لحاظ رکھیں گے اور دوسروں کو برے القاب سے نہیں پکاریں گے۔ مذہبی لوگ اگر اہم مناصب پر فائز لوگوں کی مذہبی شناخت کو بغیر کسی ثبوت کے مشتبہ بنائیں گے تو اس سے خود ان کا وقار مجروح ہو گا اور معاشرے کی بے چینی اس کے علاوہ۔
میڈیا کا کام تھا کہ وہ نگرانی کی ذمہ داری ادا کرتا۔ افسوس کہ وہ بھی القاب دینے کی اس مہم کا حصہ بن گیا۔ تجزیہ کرنے والے منصف کے لہجے میں کلام کرتے ہیں اور دوسروں کو ایسے ایسے القاب سے نوازتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ممکن ہے اس سے کسی کو کوئی سیاسی فائدہ یا کسی گروہ کی تائید میسر آ جاتی ہو‘ لیکن یقین کیجیے، اس سے معاشرے کی اخلاقی بنت برباد ہو رہی ہے۔ اس کے تار تار الگ ہو رہے ہیں۔ معاشرہ اخلاقی اساس سے محروم ہو جائے تو پھر معاشی خوش حال بھی اسے تباہی سے نہیں روک سکتی۔