پس ثابت ہوا کہ اگر ریاست چاہے تو مذہبی انتہا پسندی، برسوں یا مہینوں میں نہیں، دنوں میں ختم ہو سکتی ہے۔
خادم رضوی صاحب گرفتار ہوئے اور ان کے ہم نوا بھی۔ کہیں سے احتجاج کی کوئی لہر نہیں اٹھی۔ کوئی ایک سڑک بند ہوئی نہ ایک دکان۔ کاروبارِ حیات کسی تعطل کے بغیر جاری رہا۔ سوشل میڈیا پر بآواز بلند انتہا پسندی کی مذمت جاری رہی اور اکثر استہزا کے لہجے میں۔ سماج کا ردِ عمل یہ تھا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ خاموشی، سکون اور سلامتی۔ کیا محض چند دنوں میں یہ سماج بدل گیا ہے؟
ایک برس پہلے، صرف ایک برس پہلے، یہی نومبر کے دن تھے۔ خیال ہوتا تھا کہ انتہا پسندی کا عفریت ریاست کے قابو سے باہر ہو چکا۔ دارالحکومت میں داخلے کے مرکزی راستے پر غیر ریاستی عناصر کا قبضہ تھا۔ حکومت بے بسی اور لاچارگی کی مکمل تصویر بن گئی تھی۔ عملاً اسلام آباد کے ایک حصے پر حکومت کی عمل داری باقی نہیں تھی۔ اس لاچارگی میں حکومت نے ایک معاہدہ کیا اور اپنے ہاتھ سے اپنی ناکامی اور بے بسی کی دستاویز لکھ دی۔ ایسی دستاویز جو حکومت کے وجود نہیں، عدم کی گواہی تھی۔ اب ایک سال میں ایسا کیا جادو ہوا کہ سماج کی کایا پلٹ گئی؟ ریاست کو بے بس کرنے والے ریاست کے سامنے بے بسی کی تصویر بن گئے؟ ان سوالات کے جواب اہلِ دانش پر چھوڑتے ہوئے، اس سارے معاملے کو ایک وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں۔
بنیادی مسئلہ وہی ہے جس کی میں بارہا نشان دہی کر چکا: ریاست اور مذہب کا باہمی تعلق۔ اس کی تفہیمِ نو ناگزیر ہو چکی۔ ہم نے اس رشتے کو جس طرح سمجھا اور اسے نبھانے کی کوشش کی ہے، وہ ناکامی اور نامرادی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن چکا۔ یہ تعلق اب تشکیلِ نو مانگتا ہے۔ ہر واقعہ ہمیں اس جانب متوجہ کرتا ہے مگر ہم اس سے مسلسل گریز کی راہ پر ہیں۔ نہ ریاست سنجیدہ ہے اور نہ معاشرہ۔ حکومت ہر واقعے کو انفرادی حیثیت میں دیکھتی اور اس کا مستقل حل تلاش کرنے سے گریزاں ہے۔ ریاستی اداروں کا قصہ یہ ہے کہ وہ تذبذب کا شکار ہیں۔ وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ یہ عناصر ریاست کا اثاثہ ہیں یا مسئلہ۔
اس وقت یہ تعلق کن خطوط پر استوار ہے اور ان سے کیا مسائل جنم لے رہے ہیں، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
1۔ تحریکِ پاکستان اس بنیاد پر اٹھی تھی کہ ہماری قومیت کی اساس مذہب ہے۔ پاکستان بننے کے بعد ہم نے اس موقف کو بدلا اور یہ کہا کہ اب جغرافیہ قومیت کی اساس ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ایک قوم ہیں۔ (میں نے دانستہ اسے 'یو ٹرن‘ کہنے سے گریز کیا ہے) گویا دو قومی نظریہ اب عملاً باقی نہیں رہا۔ انسانی ذہن کا معاملہ مگر یہ ہے کہ اس میں اچانک یو ٹرن لینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ مسلم قومیت پر یقین رکھنے والے یہ سمجھنے میں حق بجانب تھے کہ اب یہ مسلمانوں کا ملک ہے۔ ریاست کے ذمہ داروں کا مسئلہ مگر یہ تھا کہ انہیں بائیس فیصد غیر مسلم آبادی کو بھی ساتھ لے کر چلنا تھا۔ اگر پاکستانی قومیت کی اساس اسلام ہے تو وہ پاکستانی قوم کا حصہ نہیں بن سکتے تھے۔
قائد اعظم کو اس تبدیلی کا احساس تھا جس کا اظہار انہوں نے 11 اگست کی تقریر میں کیا‘ مگر انہیں اتنا وقت نہ مل سکا کہ وہ مذہب اور ریاست کے تعلق کی تشکیلِ نو کرتے۔ وہ ان مسائل کے حل میں مصروف ہو گئے جو اس نوزائدہ ملک کی بقا کے لئے خطرہ تھے‘ جیسے مہاجرین کی آباد کاری۔ اس دوران میں کچھ لوگ یہ مطالبہ لے کر میدان میں نکل آئے کہ جب اسلام کے نام پر ملک بنایا ہے تو اب اسلام نافذ بھی کرو۔ پہلا مرحلہ دستور سازی کا ہے، لہٰذا اسلامی دستور بناؤ۔ قراردادِ مقاصد سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی مگر ناکام ہوئی۔ ایک طرف مذہبی طبقہ تھا جس نے اس پر اکتفا کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسری طرف غیر مسلم آبادی تھی، جس کے دل میں اپنے مستقبل کے بارے میں خدشات پیدا ہو گئے۔
دیگر عوامل کے ساتھ مل کر، یہ مسئلہ پاکستان کو دو لخت کرنے کا باعث بن گیا کیونکہ غیر مسلموں کی اکثریت مشرقی پاکستان میں آباد تھی۔ مسلم بنگالیوں کی محرومی کے اسباب اور تھے۔ غیر مسلم بنگالیوں کے لیے مذہب کا معاملہ اضافی تھا۔ 'نئے پاکستان‘ میں غیر مسلموں کا مسئلہ کمزور ہو گیا کہ اب وہ محض تین فی صد رہ گئے۔ لیکن اس دوران میں عالمی سطح پر بڑی تبدیلیاں آنے لگیں، یہاں تک کہ ہم عالمگیریت کے دور میں داخل ہو گئے۔ اب مذہبی اقلیتوں کا مسئلہ غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا۔ کوئی ملک اس سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ آسیہ بی بی کے مقدمے کا یہ تناظر وہ ہے جو اس وقت ریاست کے گلے کی پھانس بن گیا ہے۔ ریاست کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اسے صرف مقامی تناظر میں دیکھے۔
یہ بات طے ہے کہ اسلامی ریاست کے تمام مروجہ تصورات کے مطابق، ریاست کے مسلم اور غیر مسلم شہریوں کے حقوق برابر نہیں ہو سکتے۔ تحریکِ پاکستان کے دنوں میں ہم اس پر غور نہیں کر سکے کہ پاکستان بن گیا تو ہم مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کو کیسے متشکل کریں گے۔ قائد اعظم کے جن بیانات سے اسلامی ریاست برآمد کی جاتی ہے، وہ اصولی باتیں ہیں جن سے یہ تو معلوم ہوتا کہ وہ اسلام کو راہنمائی کے منصب پر فائز کرتے ہیں مگر ایک قومی ریاست میں اس کی عملی شکل کیا ہو گی، یہ معلوم نہیں ہوتا۔ اس سے دو مختلف طبقات کے لیے یہ گنجائش پیدا ہو گئی ہے کہ وہ ان باتوں کی اپنے نظریات کے تحت شرح کریں۔ تحریکِ پاکستان کے دنوں کا یہ ابہام ابھی تک باقی ہے اور ہم اس کا کوئی حل تلاش نہیں کر پائے۔ اس ابہام کو دور کیے بغیر مذہب اور ریاست کا رشتہ بحرانوں کی زد میں رہے گا۔
2۔ مذہب ہمارے سکیورٹی پیراڈائم کی بھی ایک اساس ہے۔ یہ ابتدا ہی سے ہے جب 1948ء میں آزادیٔ کشمیر کی تحریک کو جہادِ کشمیر قرار دیا گیا۔ مولانا مودودی نے اس کے مضمرات کی طرف توجہ دلائی مگر کوئی اسے سمجھ نہ سکا۔ 1979ء میں ہم نے افغانستان کی آزادی کو بھی جہادِ افغانستان قرار دے کر مذہب کے نظامِ دفاع کا ناگزیر حصہ بنا دیا۔ پاکستانی فوج کو اسلامی فوج قرار دیا۔ اس میں بہت سے دوسرے عوامل کے ساتھ، اس بات کو نظر انداز کیا کہ اسلامی ریاست کے مروجہ تصورات جغرافیے کی کسی پابندی کو قبول نہیں کرتے۔ اس سے جن لا ینحل مسائل نے جنم لیا، ریاستی ادارے ابھی تک ان سے نبرد آزما ہیں۔
3۔ مذہب روٹی اور پانی کی طرح، ایک ناگزیر معاشرتی ضرورت ہے۔ ریاست نے مذہبی اداروں اور تعلیم کو قومی سلامتی کے تناظر میں دیکھا، معاشرتی ضرورت کے پس منظر میں نہیں۔ اب اس کی سوچ یہ تھی کہ موجود مذہبی تعلیمی اداروں کو کس طرح قومی سلامتی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یوں اس نے ان اداروں کو ایک ایسی نرسری سمجھا جہاں سے وہ رضا کار مل سکتے ہیں جو ریاست کی سلامتی کے لیے کام آ سکیں۔
اگر ریاست انہیں سماجی حوالے سے دیکھتی تو اس کا پہلا سوال یہ ہوتا کہ ہماری مذہبی تعلیم اور ادارے سماجی ترقی میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں یا منفی؟ یہ مذہب کو ایک تخلیقی اور مثبت قدر کے طور پر پیش کر رہے ہیں یا مذہب کے نام پر فرقہ واریت اور انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں؟ جب ایسا نہیں ہوا تو اہلِ مذہب کی وجہ سے، مذہب ریاست اور سماج، دونوں کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گیا۔ ہمارے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ مذہب جیسی خیر کی قوت، کیسے سماجی ترقی کی ضمانت بن سکتی ہے؟
مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کی تشکیلِ نو کے بغیر، اس سوال کا جواب نہیں مل سکتا۔ سرِ دست اس کا کوئی امکان بھی نہیں۔ ریاست، حکومت اور سماج، کسی کو اصل معاملے کی کوئی خبر نہیں۔ اگر آپ اس کو سمجھنا چاہیں تو قومی سیرت کانفرنس کی صفِ اوّل میں تشریف فرما شخصیات اور مقررین کی فہرست پر ایک نظر ڈال لیں۔ آپ پر ریاستی ترجیحات واضح ہو جائیں گی۔