نواز شریف تو خاموش تھے ہی، نون لیگ نے کیوں چپ کا روزہ رکھ لیا ہے؟
مریم اورنگزیب تنِ تنہا چو مکھی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ حکومتی موقف پر ردِ عمل دینا ہو تو وہ۔ شریف خاندان کا دفاع کرنا ہو تو وہ۔ مذہب پر بات کرنی ہو تو وہ آگے۔ معیشت کے عقدے کھولنا ہوں تو وہ حاضر۔ وہ بے چاری پوری کوشش کرتی ہیں لیکن ایک فردِ واحد کی اپنی حدود ہیں۔ پھر ذہنی استعداد کا مسئلہ بھی ہے۔ وہ تاریخ سے زیادہ واقف ہیں نہ سیاست سے۔ یوں میڈیا میں چہرہ نمائی کی حد تک اپنی جماعت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں لیکن اس سے نون لیگ کا کوئی واضح یا جچا تلا بیانیہ سامنے نہیں آ رہا۔ سوال یہ ہے کہ باقی خواتین و حضرات کہاں ہیں؟
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی مشاہد حسین سید بھی تھے۔ میڈیا کے ماہر۔ پروپیگنڈے کے محاذ پر، ایک دور میں مسلم لیگ کا معرکہ اس طرح لڑا کہ مخالفین کو شکستِ فاش سے دوچار کر دیا۔ ذہانت ایسی کہ سب عش عش کر اٹھیں۔ اس پر مستزاد ان کا مطالعہ، معاملہ فہمی اور حاضر جوابی۔ تاریخ اور معیشت کے ا عداد و شمار ایسے ازبر اور ہر وقت مستحضر کہ جیسے کوئی طالب علم رٹا لگا کر آیا ہو۔ نون لیگ کو داغِ مفارقت دے گئے تھے مگر سرِ شام لوٹ آئے۔ یہ ان کی قسمت کہ اس وقت نون لیگ کے اقتدار کا سورج ڈوبنے کو تھا۔ شام کے بعد تو یہی ہوتا ہے۔ خیال تھا کہ اب میڈیا میں ایسا معرکہ لڑیں گے کہ سب کے کڑاکے نکال دیں گے‘ مگر افسوس کہ تماشا نہ ہوا۔ نون لیگ نے سینیٹ تک پہنچا دیا مگر وہ ایوانِ بالا میں کبھی دکھائی دیے نہ میڈیا میں۔
نواز شریف تو چپ ہیں مگر کیا انہوں نے شاہ صاحب کو بھی یہی ہدایت کر رکھی ہے کہ جب تک وہ خاموش ہیں، انہیں بھی خاموش رہنا ہے؟ دکھائی یہ دیتا ہے کہ انہیں نون لیگ سے زیادہ سی پیک کی فکر رہتی ہے۔ اگر کبھی دکھائی دیتے ہیں تو اسی کا مقدمہ لڑتے ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ اس قومی ذمہ داری کو حکومت اور فوج پر چھوڑ دیں۔ اس وقت سی پیک سے زیادہ نون لیگ کو ان کی ضرورت ہے۔ سی پیک کے وارث بہت ہیں۔ مسئلہ تو نون لیگ کو درپیش ہے۔ ایسے چست و توانا لوگ لیگ کی ضرورت ہیں جو تاریخ جانتے ہوں اور سیاست بھی۔
پھر شہباز شریف ہیں۔ جب بھی اسمبلی تشریف لائے، اپنا رونا ہی روتے رہے۔ شریف خاندان کے ساتھ احتساب کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، پوری قوم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ شہباز شریف صاحب کے خلاف ثبوت تلاش کیے جا رہے ہیں مگر ابھی تک مل نہیں سکے۔ محتسبوں کی مایوسی بڑھتی ہے تو ایک نیا مقدمہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ احتساب کا یہ عمل ان کا سب سے بڑا وکیل ہے۔ شہباز شریف صاحب کو چاہیے کہ اسمبلی میں آئیں تو قومی امور پر گفتگو کریں۔ اپنی بات اگر کریں بھی تو چند منٹ۔ انہیں اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر اپنا متبادل بیانیہ دینا چاہیے۔
یہ صرف انہی کی نہیں، نون لیگ کے تمام اراکینِ پارلیمنٹ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی امور پر بحث اٹھائیں۔ حکومت کی خارجہ پالیسی کیا ہے؟ آئی ایم ایف کے ساتھ کن شرائط پر بات ہو رہی ہے؟ روپیہ اپنی قدر کیوں کھو رہا ہے؟ نون لیگ کے پاس معاشی ٹھہراؤ کے لیے کیا کوئی حل مو جود ہے؟ مذہبی انتہا پسندی کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کے سامنے ایک متبادل بیانیہ رکھے۔ اگر ملک کو اچھی حکومت نہ مل سکی تو تحریکِ انصاف جواب دہ ہے اور اگر ملک اچھی اپوزیشن سے محروم رہا تو نون لیگ جواب دہ ہے۔ چپ کبھی سب سوالوں کا جواب ہوتی ہے مگر کبھی خود سوال بن جاتی ہے۔ نون لیگ کے لیے یہ چپ اب سوال بن چکی۔
حکومت کے سو دن پورے ہونے پر چند راہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ عوام کو محسوس ہوا کہ نون لیگ کے پاس بھی کہنے کو کچھ ہے۔ حکومت جب منی لانڈرنگ کی بات کرتی ہے تو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے یہ کام نواز شریف نے کیا ہے۔ یہ شاید پہلا موقع ہے کہ مسلم لیگ نے ان ناموں کو سامنے لانے کا مطالبہ کیا جو اس لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔ اگر نون لیگ سنجیدہ حکمتِ عملی پر دھیان دے تو حکومت کو موثر جواب دے سکتی ہے مگر یہاں محسوس ہوتا ہے کہ چپ کا روزہ اس جماعت کا کوئی اجتماعی فیصلہ ہے۔
پرویز رشید بھی لگتا ہے اب 'روزہ دار‘ ہو گئے ہیں۔ بہت دنوں سے ان کے خیالات سے بے خبری ہے۔ ان کو تو کسی مقدمے کا خوف نہیں پھر چپ کیوں ہیں؟ کہیں وہ کروڑوں روپے جمع کرنے میں تو مصروف نہیں جو انہیں عطاالحق قاسمی صاحب کے مقدمے میں دینا پڑیں گے، اگر سپریم کورٹ سے نظر ثانی کی درخواست خارج ہو گئی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو کیا وہ نواز شریف صاحب کے لب کھلنے کے انتظار میں ہیں؟
نواز شریف صاحب اور مریم نواز کی چپ بھی ایک لا ینحل سوال بن چکی۔ اس کا کوئی معقول جواز سامنے نہیں آ سکا۔ نواز شریف صاحب کا کہنا ہے کہ قومی میڈیا اس کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ ان کی باتیںنقل کرے۔ میرا خیال ہے ابلاغ اب کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا نے قومی میڈیا کی محتاجی کو ختم کر دیا ہے۔ وہ کہیں جو کہنا چاہتے ہیں، ابلاغ خود بخود ہو جائے گا۔ جو سوشل میڈیا عرب بہار برپا کر سکتا ہے، وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہ جواز اب قابل قبول نہیں کہ میڈیا ان کی باتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
بولنے کا یہ مطلب قطعی نہیں ہوتا کہ ہنگامہ اٹھا دیا جائے۔ ملک کو ایک ذمہ دار اپوزیشن کی ضرورت ہے، کسی فسادی قوت کی نہیں۔ عوام نے دیے ہوں یا نہ دیے ہوں، ملکی آئین انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو پانچ سال دیتا ہے۔ حکومت کو یہ مہلت ملنی چاہیے الا یہ کہ وہ خود کشی پر آمادہ ہو یا عوامی اضطراب برداشت کے کناروں سے بہہ نکلے۔ اپوزیشن کا کام مثبت تنقید ہے جس کا مقصد حکومت کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہو گا جب اس کی منہ میں زبان ہو گی۔
ایک وقت تھا کہ ٹی وی کیمروں کے سامنے راہنماؤں کی قطاریں لگی رہتی تھیں۔ یہ سب لوگ کہاں گئے؟ اب بھی مسلم لیگ کے پاس ایسے ماہرین کی جماعت ہونی چاہیے جو ہر وزارت اور شعبے پر نظر رکھے اور حکومتی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لے۔ یہ لوگ عوام کو بھی اعتماد میں لیتے رہیں۔ اس سے جہاں حکومت کی کارکردگی بہتر ہو گی وہاں عوام کو متبادل قیادت کی موجو دگی کا بھی احساس ہو گا۔
مجھے اندازہ ہے کہ نون لیگ کے موثر افراد کو کس طرح مقدمات میں الجھایا گیا ہے۔ یہ ایک حکمت ِ عملی ہے کہ سب کواپنی اپنی پڑی رہے اور کوئی اس سیاسی بندوبست پر موثر تنقید نہ کر سکے جو قائم کیا گیا ہے۔ اپوزیشن کو مگر ان مشکلات کے ساتھ اپنی قومی ذمہ داری ادا کرنا ہو تی ہے۔ ماضی میں لوگ جیلوں میں جاتے رہے ہیں اور ساتھ بولتے بھی رہے ہیں۔ سعد رفیق جیسے لوگ بھی اگر خاموش ہو گئے تو پھر کون بولے گا؟
مجھے لگتا ہے کہ یہ چپ کا روزہ اُسی وقت ختم ہو گا جب نواز شریف صاحب اذان دیں گے۔ اگر انہوں نے لب سیئے رکھے تو پھر کوئی نہیں بولے گا۔ کہیںکوئی ایک آدھ آواز سنائی دے گی اور پھر مسلسل خاموشی۔ وہی منظر جو ہم منیر نیازی کی شاعری میں دیکھتے ہیں۔ مریم اورنگزیب بول رہی ہیں مگر ان کا ہدف حکومت ہے۔ نواز شریف صاحب کا بیانیہ تو کہیں سنائی نہیں دے رہا ہے۔ اس کی صدائے بازگشت اگر سنائی دیتی ہے تو بلاول کی تقریروں میں یا زرداری صاحب کے تبصرے میں۔ عوام سوچتے ہوں گے: وہ ووٹ کی عزت والا معاملہ کیا ہوا؟
عوام کس سے پوچھیں؟ نواز شریف خاموش ہیں، مشاہد حسین سید کو سی پیک کی زیادہ فکر ہے۔ شہباز شریف شخصی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ سعد رفیق کو بھی الجھا دیا گیا ہے۔ پاؤں کی زنجیر کیا زبان تک آ گئی ہے؟ کیا ووٹ کی عزت کا محافظ کوئی نہیں رہا؟ چپ کا روزہ ٹوٹے تو ان سوالوں کے جواب ملیں۔