ضبطِ ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی؟
اصطلاح بعض اوقات حجاب بن جاتی ہے۔ پھر مسئلہ استدلال کا بھی ہے۔ بحث کو لوگ اس زاویے سے اٹھا دیتے ہیں جو تنازعات کو جنم دیتا ہے۔ زاویہ نظر بدل جائے تو بات کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے۔ اگر آبادی کے مسئلے کو ضبطِ ولادت کے پیرائے میں بیان کیا جا ئے گا تو کچھ اور نتائج فکر مرتب ہوں گے اور اگر اسے خاندان کی بہبود کے حوالے سے دیکھا جائے گا تو پھر کچھ اور نتائج سامنے آئیں گے۔ بایں ہمہ، اگر اسے رزق کی کم بیشی سے جوڑا جائے گا تو بحث کا رخ کچھ اور ہو گا اور اگر سماجی ذمہ داریوں کی نظر سے دیکھا جائے گا تو کچھ اور۔
ہمارا مسئلہ ایک اور بھی ہے۔ ہم ہر معاملے کو مذہب کی نظر سے دیکھتے ہیں حالانکہ خود مذہب نے بھی ہم سے یہ مطالبہ کبھی نہیں کیا۔ اس کا کہنا تو یہ ہے کہ عقل کی صورت میں، اللہ تعالیٰ نے تمہارے وجود میں ایک چراغ جلا دیا ہے۔ معاملاتِ زندگی میں اسی سے روشنی پاؤ۔ مذہب کی اصل دلچسپی تمہارے اخلاقی وجود کے ساتھ ہے۔ اس کی تطہیر اور تزکیے کے لیے پیغمبر ہی راہنمائی کریں گے۔
مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار کھجوروں کی کاشت کے باب میں نبیﷺ نے ایک بات کہی۔ لوگوں نے اس کو اختیار کر لیا۔ اتفاق سے اُس بار فصل اچھی نہ ہوئی۔ آپﷺ کو معلوم ہوا تو آپ نے توجہ دلائی کہ امورِ دنیا (زراعت وغیرہ) تم مجھے سے بہتر جانتے ہو۔ (مسلم)۔ یہ لطیف انداز میں متوجہ کرنا تھا کہ زندگی کا ہر معاملہ مذہبی نہیںہوتا۔ پیغمبر کاشت کاری یا تجارت سکھانے نہیں آتا۔ وہ تو کاشت کار اور تاجر کے اخلاقی تزکیے کے لیے آتا ہے۔ وہ کاشت کاری کرے یا تجارت، اس میں بے انصافی ہونی چاہیے نہ کسی کی حق تلفی۔
آبادی کی بہبود کے باب میں بھی ہمارے ساتھ کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ ابتدا میں جب ضبطِ ولادت کے عنوان سے اس مہم کا آغاز ہوا تو یہ اصطلاح بحث کا محور بن گئی۔ پھر حسبِ عادت ہم نے اسے مذہب کے حوالے سے دیکھنا شروع کر دیا۔ عزل اور بیوی کی اجازت جیسے معاملات کو چھیڑ دیا گیا۔ پھر ساتھ ہی جب وسائل اور آبادی کے تناسب کی بات ہوئی تو اسے اللہ تعالیٰ کی صفتِ رزاقیت سے جوڑ دیا گیا۔
ہمارے ہاں یہ بحث پہلی بار غالباً 1960ء کی دہائی میں اٹھی تھی۔ ایک طرف سے مولانا مودودی کا کتابچہ آیا ''اسلام اور ضبطِ ولادت‘‘ اور دوسری طرف سے مولانا جعفر پھلواری کا ''اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی‘‘۔ یوں اس بحث کا تناظر ہی مذہبی ہو گیا۔ جب مغربی ممالک نے آبادی پر قابو پانے کے لیے وسائل فراہم کیے تو گویا اس پر مہرِ تصدیق ثبت ہو گئی کہ یہ ایک مغربی منصوبہ اور دین و ملت کے خلاف سازش ہے۔
اب ایک نیا مقدمہ قائم ہو گیا کہ یہ مسلم آبادی میں اضافے کو روکنے کی ایک کوشش ہے، مغرب جس سے خوف زدہ ہے۔ لہٰذا یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے کہ اس کی مزاحمت کریں۔ مزاحمت کا مطلب زیادہ بچے پیدا کرنا ہے۔ یہ اتنا کمزور استدلال ہے کہ اس پر بات کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ واقعات بتاتے ہیں کہ یہ سازش مغرب نے سب سے پہلے اپنے خلاف کی کہ اپنے بچے کم کیے۔ پھر چین نے اپنے لیے اسی سازش کو اپنا لیا۔ ہم تو ٹھہرے کمزور یا سادہ۔ کیا چینی بھی ایسے ہی ہیں کہ مغرب کی سازش کا شکار ہو گئے؟
آبادی کے معاملے کو کسی اصطلاح، مذہب یا عالمی سیاست سے وابستہ کئے بغیر فطری انداز میں دیکھنا چاہیے۔ فطری انداز وہی ہے جو عقلِ عام پر مبنی ہو۔ خاندان کو سماج کی اکائی مانا گیا ہے۔ اگر خاندان مضبوط اور توانا ہو گا تو سماج بھی طاقت ور ہو گا۔ خاندان میاں بیوی کے رشتے سے قائم ہوتا اور بچوں کو محیط ہو جاتا ہے۔ یوں رشتوں کا ایک خوب صورت گل دستہ وجود میں آتا ہے۔ اگر میاں بیوی صحت مند ہوں اور ان کے پاس اتنے وسائل ہوں کہ وہ بچوں کو بہتر تعلیم دے سکیں، ان کی اچھی تربیت کر سکیں اور ان کی دیگر مادی و اخلاقی ضروریات پوری کر سکیں تو ایسا خاندان خوش حال ہو گا اور ساتھ ہی وہ پورے معاشرے کے لیے باعث خیر بھی۔
اب یہ خاندان کے سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خاندان کی فلاح اور بہتری کے لیے منصوبہ بندی کرے۔ ہمارے سماجی نظام میں یہ حیثیت مرد کو حاصل ہے۔ اس کو دیکھنا ہے کہ بیوی کی صحت کیسی ہے جس کے گرد گھر کی چکی گھوم رہی ہے۔ بچوں کو کیا مناسب تعلیم اور تربیت مل رہی ہے؟ اگر وہ بیمار پڑ جائیں گے تو کیا ان کے علاج معالجے کے لیے اہتما م کیا جا سکتا ہے؟ خاندان کا ایک اچھا سربراہ وہی ہے جو ان سب امور کو سامنے رکھتا ہے۔
رزق سمیت ہر نعمت اللہ تعالیٰ دیتا ہے مگر اِس کا تعلق انسان کے کسب سے ہے۔ اولاد بھی اللہ تعالیٰ دیتا ہے مگر یہ نعمت بھی ایک حیاتیاتی عمل کے تابع ہے جس کی باگ انسان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر کوئی محنت نہیں کرتا اور معیشت کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو اس کا الزام نہیں دے سکتا۔ اگر کوئی حیاتیاتی عمل کی نفی کرتے ہوئے اولاد سے محروم رہتا ہے تو اسے اس کا الزام کسی دوسرے کو دینے کا کوئی حق نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کثرتِ اولاد کے سبب بچوں کو مناسب تعلیم نہیں دلوا سکتا اور انہیں معاشرے کے لیے بوجھ بنا دیتا ہے تو وہ اس کی ذمہ داری خدا پر نہیں ڈال سکتا کہ بچے تو اس نے دیے ہیں۔ جو یہ کہتا ہے وہ عقلِ عام سے عاری تو ہے ہی، ساتھ مذہب کی روح سے بھی بے خبر ہے۔
مسئلہ آبادی کا کم یا زیادہ ہونا نہیں، حسنِ تناسب ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایک خاندان کے وسائل اور افراد کی تعداد میں کیا نسبت ہے۔ اگلا درجہ یہ سوچنے کا ہے کہ ایک ملک کے وسائل کے ساتھ آبادی اور انسانی وسائل کی مطابقت کیا ہے۔ یہ عقلِ عام سے متعلق سوالات ہیں اور اسی کی روشنی میں ان کے جواب تلاش کرنے چاہئیں۔ مثال کے طور پر جرمنی کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے وہ انسانی وسائل میسر نہیں ہیں جو ایک سماجی و ریاستی نظام کو چلانے کے لیے ضروری ہیں۔ اس لیے وہاں بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔ اگر پاکستان میں مادی وسائل کم اور آبادی زیادہ ہے تو یہاں کم بچے پیدا کرنے کی تحریک اٹھانی چاہیے۔
آبادی کے مسئلے کو دیکھنے کا درست تناظر یہی ہے۔ اگر اس پہلو سے دیکھا جائے تو مذہب کے ساتھ کوئی تضاد واقع ہوتا ہے نہ سماجی روایت کے ساتھ تصادم ہوتا ہے۔ مذہبی روایت سے عزل وغیرہ کے جو واقعات نقل کیے جاتے ہیں، ان کو بھی درست تناظر بھی سمجھنا چاہیے۔ رسالت مآبﷺ نے اس پر جو تبصرہ فرمایا ہے، اس میں دراصل اس کی درست سمت کو واضح کیا گیا ہے۔
ہمیں اپنے معاملات کو اپنی آنکھ سے دیکھنا چاہیے، مشرق و مغرب کی آنکھ سے نہیں۔ مغرب سے آنے والی ہر بات کو بلا سوچے سمجھے قبول کرنا یا رد کرنا، ایک جیسی مرعوبیت کا اظہار ہے۔ دونوں احساسِ کمتری کی علامات ہیں۔ ہمارے ہاں آبادی کے مسئلے کو مغرب ہی کے زاویے سے دیکھا گیا۔
ہمیں اصطلاحوں سے بھی اوپر اٹھنا ہو گا۔ ہمیں اس نفسیاتی گرہ کو بھی کھولنا ہے کہ دنیا کا ہر مسئلہ مذہبی ہوتا ہے۔ اللہ نے آپ کو عقل دی ہے۔ زندگی کے فیصلے اسی چراغ کی روشنی میں کرنے چاہئیں کہ یہ بھی اللہ ہی کی عطا کی گئی نعمت ہے۔ ہماری آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد اگر اثاثہ ہے تو بڑی آزمائش بھی ہے۔ ہم اگر ان کو روزگار، تعلیم اور تربیت نہ دے سکے تو ہم بے روزگاروں اور بد اخلاق لوگوں کی تعداد میں اضافہ کریں گے۔ کیا کسی خاندان یا ملک کے لیے یہ بات تشویشناک نہیں ہے؟
آبادی کا مسئلہ ایک سماجی معاملہ ہے جسے سادہ انداز ہی میں سمجھنا چاہیے۔ اسے غیر ضروری طور پر مذہبی یا سیاسی نہیں بنانا چاہیے۔