کیا آپ بین السطور پڑھ سکتے ہیں؟ یہ کالم اس کا امتحان ہے۔
انسان طبعاًآزادی پسند ہے؟ جبر کا نظام غیر فطری ہے۔ تاریخ یہ ہے کہ اپنی آزادی کی حفاظت کیلئے انسان زندگی کو داؤ پر لگا سکتا ہے۔ وہ کسی پابندی کو قبول کرتا ہے‘ تو اپنی مرضی سے۔ یہ فطرت ہے اور فطرت کے ساتھ لڑائی کا نتیجہ شکست کے سوا کچھ نہیں۔ یہی نوشتہ دیوار ہے۔ انسان کا معاملہ مگر یہ ہے کہ وہ دیوار پر لکھا نہیں پڑھتا‘ یہاں تک کہ وقت اسے دیوار سے لگا دیتا یا دیوار میں چن دیتا ہے۔
نوشتہ دیوار کسے کہتے ہیں؟ وہی جسے آنکھ دیکھ اور پڑھ سکے۔ انسانی عقل اپنے حصار میں لے سکے۔ جسے تاریخ تجربے کی زبان میں بیان کر دے۔ جسے اہلِ علم اپنے نتیجہ فکر کے طور پر پیش کریں۔ جو شاذ نہ ہو۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی گواہی کے لیے آسمان سے الہام نازل ہو جائے۔ انسانی آزادی کے حق میں یہ سب شواہد جمع ہو گئے ہیں اور اس تواتر اور اہتمام کے ساتھ کہ ان کا انکار محال ہے۔
مذہب کو دیکھیے۔ وہ جوہری طور پر خدا کی بندگی کا پیغام ہے۔ بندگی غلامی کا دوسرا نام ہے۔ مذہب انسان کو خدا کا بندہ بنانا چاہتا ہے۔ پیغمبر اللہ کا نبی ہی نہیں‘ عبد ہونے کا بھی اعلان کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو تلقین کرتے ہیں کہ ان کی نجات اللہ کی بندگی میں ہے۔ اس کے باوصف مذہب انسان کو انتخاب کا حق دیتا ہے۔ وہ چاہے تو اس بندگی کو قبول کرے اور چاہے تو انکار کر دے۔ مذہب انسانوں کے اس حقِ انتخاب کے لیے لڑتا ہے۔ فتنہ یعنی مذہبی جبر (persecution) اسے قبول نہیں۔ قرآن مجید نے مذہبی جبر کے خلاف اعلانِ جہاد کیا ہے۔ (سورۃ البقرہ 191:2)
جمہوریت سیاسی ارتقا کا منتہائے کمال ہے۔ عالمِ انسانیت نے بالاجماع یہ طے کر لیا ہے کہ کوئی جبر کے ساتھ اس پر حکومت نہیں کر سکتا۔ یہ حق عوام کا ہے کہ وہ جس کو چاہیں یہ ذمہ داری سونپ دیں۔ یہ ذمہ داری بھی کسی کو مطلق العنان نہیں بناتی۔ اقتدار کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جو قانون سازی کرے گا‘ وہ قانون نافذ نہیں کرے گا۔ جو نفاذ کی ذمہ داری اٹھاتا ہے‘ وہ نزاع میں فیصلہ نہیں دے سکتا۔ ایک سیاسی نظم میں جبر اور آمریت کی اس سے زیادہ نفی نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح اختلاف کو اخلاقی اور سماجی قدر کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ کسی کے لیے یہ حق ثابت نہیں کہ وہ دوسرے پر اپنے خیالات بالجبر نافذ کرے۔ یہ خیالات مذہبی ہو سکتے ہیں اور سیاسی بھی۔ اسے عالمی سطح پر قبول کیا گیا ہے اور ہم نے اپنے آئین میں بھی اس کی توثیق کی ہے۔ حال ہی میں ریاست نے اسی بنیاد پر ایک مذہبی گروہ کے خلاف اقدام کیا ہے‘ جو ریاست اور معاشرے کو اپنے فہمِ دین کا پابند بنانا چاہتا تھا۔
انسان نے جبر سے آزادی کے لیے ایک طویل سفر کیا ہے۔ مذہبی پیشواؤں نے جب مذہب کے نام پر لوگوں کے گلے میں اپنی غلامی کی زنجیر پہنانا چاہی تو خود مذہب کے اندر سے مصلحین اٹھ کھڑے ہوئے۔ سیدنا مسیحؑ کی ساری جدوجہد یہودی علما اور فریسیوں کے خلاف تھی۔ بعد میں جب کلیسا نے عوام کو غلام بنایا تو اصلاحِ مذہب کی تحریک برپا ہو گئی۔ مسلم تاریخ میں بھی ایسے مصلحین بہت ہیں‘ جنہوں نے لوگوں کو اہلِ مذہب کی غلامی سے نجات دلانے کی کوشش کی۔
سیاسی جبر کے خلاف بھی انسانوں نے کم قربانیں نہیں دیں۔ بادشاہت اور آمریت کے خلاف طویل جدوجہد کی گئی۔ جمہوریت کی منزل آسانی سے ہاتھ نہیں آئی۔ صدیوں تک اہلِ علم اور سیاسی کارکنوں نے سیاسی جبر کے خلاف ایک معرکہ لڑا۔ اس کے بعد ہی جمہوریت کی صبح طلوع ہو سکی اور عوام کے حقِ اقتدار کو مانا گیا۔ آج اگر کہیں بادشاہت ہے بھی تو وہ مہذب انسان سے آنکھ نہیں ملا سکتی۔
یہی معاملہ فکری آزادی کا بھی ہے۔ یہ رائج مذہبی تصورات ہوں یا کسی ریاست کی حکمتِ عملی‘ ایک فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان پر تنقید کرے۔ امریکی ریاست نوم چومسکی کو غدار قرار دے کر ریاست کی پالیسی پر نقد سے روک نہیں سکتی۔ بھارت کی حکومت ارون دتی رائے کو پابند نہیں کر سکتی کہ وہ کشمیر میں ریاستی مظالم کا ذکر نہ کرے۔ (ویسے پاکستان میں بھی کوئی کسی کو نہیں روک سکتا کہ وہ امریکی یا بھارتی ریاست پر تنقید نہ کرے۔ ہم بھی چومسکی یا ارون دتی سے کم آزاد نہیں)۔
کیا انسانی ارتقا کا یہ سفر معکوس ہو سکتا ہے؟ کیا آج جبر کے معاشرے کو پھر سے زندہ کیا جا سکتا ہے؟ کیا آج پھر انسان کو محکوم بنایا جا سکتا ہے؟ کیا اظہارِ رائے پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں؟ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ حکمتِ عملی کا معاملہ ہے۔ جبر کی سوچ کو اگر ایک نئی پالیسی کا پیرہن دے دیا جائے تو انسان کوآج بھی غلام بنایا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ 'پوسٹ ٹروتھ‘ کے اس دور میں مختلف ذرائع کی مدد سے نئے حقائق تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔ انسانی ذہن کو آج بھی اسیر کیا جا سکتا ہے۔ مذہب‘ قومی مفاد‘ غداری جیسے نعرے آج بھی جذبات کے استحصال کے لیے آزمائے جا سکتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً ایسے تجربات کیے جاتے ہیں‘ تاکہ ان کی فعالیت اور افادیت کا اندازہ لگایا جا سکے۔
اس سوچ کے تحت‘ آج یہ ممکن ہو گیا ہے کہ فی الواقعہ جبر ہو مگر تاثر آزادی کا ہو۔ کندھا عوام کا ہو اور بندوق کسی اور کی۔ آخر ٹرمپ کامیاب نہیں ہوا؟ کیا امریکہ کی سیاسی فضا کو ایک پوسٹ ٹروتھ کا اسیر نہیں بنایا گیا؟ اگر امریکہ میں یہ ممکن ہے جو ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور پڑھا لکھا معاشرہ ہے تو یہاں کیوں ممکن نہیں؟ اگر وہاں ایک نسل پرست صدر بنوایا جا سکتا ہے جہاں چار سال پہلے اکثریت نے ایک سیاہ فام صدر کا انتخاب کر کے‘ زبانِ حال سے نسل پرستی کو شکست دی تھی تو یہاں کیا کچھ ممکن نہیں ہے؟
بظاہر اس دلیل میں وزن ہے؛ تاہم میرا خیال ہے کہ یہ حربہ چند سال کے لیے کارگر ہو سکتا ہے‘ اس سے زیادہ نہیں۔ ٹرمپ جیسا آدمی ایک دفعہ تو صدر بنوایا جا سکتا ہے‘ دو بار نہیں۔ ایک بات البتہ خطرے کی ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں جہاںِ سیاست اور صحافت میں متبادل بیانیہ موجود ہی نہ ہو‘ وہاں امکان ہوتا ہے کہ 'پوسٹ ٹروتھ ‘ کی عمر بڑھ جائے۔
ایک بات البتہ ایسی ہے جو امید دلاتی ہے۔ یہ تاریخ کا ما بعدالطبیعی پہلو ہے۔ ہم جو تدبیر کرتے ہیں‘ اس کے کچھ نتائج ایسے بھی ہوتے ہیں جو ما بعدالطبیعی امور کے تابع ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ظلم سے ہم کچھ مطلوبہ نتائج تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن معاشرے کی نفسیات پر اس کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ انہیں انسانی تدبیر سے روکا نہیں جا سکتا۔ گویا جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے‘ اگر وہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ نہیں ہو گا‘ تو انسانی معاشرے میں لازماً اس کے خلاف ردِ عمل ہو گا۔
میں اتنی بات کہہ سکتا ہوں کہ جبر کا نظام انسانی فطرت سے متصادم ہے۔ یہ پاکستان ہو یا ہندوستان‘ امریکہ ہو یا روس‘ کچھ وقت کے لیے تو چل سکتا ہے‘ زیادہ نہیں۔ انصاف کا نظام ہی فطرت سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ انسانی آزادی وہ قدر ہے جو فطری ہے مگر انسان نے بڑی تگ و دو کے بعد حاصل کی ہے۔ اس پر پابندی ایک معکوس عمل ہے۔ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے معاشرے کو انسان کے عمومی معاشرتی ارتقا سے ہم آہنگ بنا سکیں۔ آزادی رائے پر پابندی انسان کے جاری تہذیبی سفر سے بچھڑنا ہے۔
کالم مکمل ہو رہا ہے‘ مگر میرا تاثر ہے کہ میں اپنی بات کا پوری طرح ابلاغ نہیں کر پایا۔ یہ ایک تکلیف دہ احساس ہے۔ اپنے پڑھنے والوں کو میرا مشورہ ہو گا کہ وہ سطور سے زیادہ اب بین السطور پڑھنے کی مشق کریں۔ شاید ابلاغ کی کمزوری کو کچھ مداوا ہو جائے۔