ایک منتشر قبائلی معاشرت سے مدینہ کی منظم ریاست کیسے وجود میں آئی؟ یہ کسی انقلابی اقدام کا نتیجہ تھی یا فطری ارتقا کا؟ اس ریاست کی ترجیح کیا تھی؟ برائی کا خاتمہ یا بھلائی کا فروغ؟
اﷲ کے آخری رسول سیّدنا محمدﷺ الہامی روایت کا آخری اور مکمل مظہر تھے اور تا قیامت اسوہ حسنہ۔ آپؐ کی حیات مبارکہ میں الہامی روایت دو طرح سے مکمل ہو رہی تھی۔ ایک طرف یہ اﷲ تعالیٰ کے قانون اتمامِ حجت کا آخری ظہور تھا، جو حیات بعد از موت پر الٰہی شہادت ہے۔ اﷲ نے دکھا دیا کہ وہ کیسے قیامت برپا کرے گا اور کیسے ایمان والوںکو ان سے الگ کر دے گا جو جانتے بوجھتے خدا کے منکر ہوئے۔ ساتھ ہی یہ بتا دیا کہ انسانی سماج کو وحی و الہام کی روایت کی روشنی میں آگے بڑھنا ہے تو اس کا منہج کیا ہو گا۔ اس دوسرے حوالے سے مدینہ کی ریاست کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس جدید ریاست کی بنیاد اُس وقت رکھی گئی جب رسالت مآبﷺ کی دعوت مدینہ پہنچی اور اسلام یہاں کی اکثریت کا دین بن گیا۔ یہ مرحلہ رسالت مآبﷺ کی ہجرت سے پہلے تمام ہو چکا تھا۔ آپؐ یہاں مہاجر کی حیثیت سے نہیں، ایک فرماں روا کی حیثیت سے تشریف لائے۔ مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے آپؐ نے دو کام کیے۔ ایک مہاجرین کی آباد کاری اور دوسرا یثرب کا سیاسی استحکام۔ مواخات اس آباد کاری کی علامت ہے اور میثاقِ مدینہ سیاسی استحکام کی۔
میثاقِ مدینہ دراصل سیاسی اکائیوں میں منقسم سماج کو ایک سیاسی نظم کے تابع کرنا تھا تاکہ مدینہ ایک مستحکم ریاست بن جائے۔ یہ کوئی مذہبی نہیں، سیاسی عمل تھا۔ اس سیاسی نظم کو وقت کے ساتھ ساتھ مسائل درپیش ہوتے گئے۔ اﷲ کے رسولﷺ نے بطور حکمران بہت حکمت کے ساتھ اس صورتِ حال کا سامنا کیا۔ ان گروہوں میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش فرمائی جو باہم متصادم رہتے تھے۔ اپنے سیاسی مخالفین سے معاملہ کرنے کے لیے بھی ایک حکمتِ عملی اختیار کی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کوشش کی کہ معاشی سرگرمیاں جاری رہیں تاکہ ریاست کو داخلی طور پر کسی حوالے سے عدم استحکام کا سامنا نہ ہو۔ سب سے بڑھ کر آپؐ نے خارجی دشمنوں سے نمٹنے کے لیے ایک پالیسی اختیار کی۔
مستشرکین نے خاص طور پر مدینہ کی ریاست کا مطالعہ کیا اور اسے ایک سماجی و سیاسی عمل کی حیثیت سے سمجھنے کی کوشش کی۔ مونٹگمری واٹ نے سیرت کو دو حصوں میں بیان کیا ۔ ایک حصہ صرف مدنی دور کا مطالعہ ہے ۔ اس نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ آپؐ نے بطور حکمران کس طرح مدینہ کی سیاست اور معیشت کو سنبھالا دیا۔ یہود کے ساتھ کیسے معاملہ کیا اور سیاسی چیلنجوں کا کس طرح جواب دیا۔ واٹ کے تعصبات اپنی جگہ ، مگر اس نوعیت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے رسولؐ امور دین و دنیا کس حکمت کے ساتھ سر انجام دیتے تھے۔
جب اس حکمتِ عملی کو معاشی حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی گئی تو ایک اہم بات سامنے آئی۔ عرب کی معیشت دو ایسی اساسات پر کھڑی تھی، اسلام کے نظامِ فکر میں جن کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ایک غلامی اور دوسری سود۔ اسلام آزادی کا دین ہے۔ یہ انسانوں کے مابین کسی امتیاز کو قبول نہیںکرتا۔ وہ کسی انسان کو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے انسانوں کو سیاسی، سماجی یا مذہبی حوالے سے اپنا غلام بنائے۔ غلامی کی ہر شکل اس کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
عرب میں غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں۔ ان کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ ان کی قیمت کا تعین ان کی صحت اور عمر کے لحاظ سے ہوتا تھا۔ اسی طرح لونڈیاں خریدی اور بیچی جاتی تھیں۔ سماجی تعلقات کو خوش گوار بنانے کے لیے جو تحائف دیے جاتے تھے، ان میں غلام اور کنیز شامل تھے۔ اب لونڈیوں کی خریداری کا معیار کیا تھا، تاریخ کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ یہ تفصیل ایسی ہے کہ دورِ جدید کے کسی فرد کے لیے اس کو قبول کرنا بہت مشکل ہے۔ پھر ان غلاموں اور لونڈیوں پر جو ظلم روا رکھا جاتا تھا، اس کا ذکر ہم سید بلال ؓ اور آلِ یاسرؓ کی داستانوں میں پڑھتے ہیں۔
اللہ کے آخری رسولﷺ کی چادرِ رحمت نے ان غلاموں کو ڈھانپ لیا اور ان کو پہلی بار یہ احساس ہوا کہ وہ بھی انسان ہیں۔ آپؐ نے یہ احساس وہاں کے اشرافیہ میں بھی پیدا کیا۔ ظلم کے اس عمل کو روکنے کی کوشش کی۔ اس کے باوجود غلامی کا ادارہ ختم نہیں ہوا۔ طویل عرصہ، اس کی قانونی ممانعت نہیں کی گئی۔ آپﷺ نے اپنے طرزِ عمل سے بتا دیا کہ اسلام غلامی کو قبول نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود غلامی پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی؟ غلام رکھنے کو اسلام کے تصورِ جرم و سزا کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا؟
یہی معاملہ سود کا بھی تھا۔ یہ معاشی استحصال کی بد ترین صورت تھی۔ اس کے باوجود یہ تیرہ سال جاری رہا، یہاں تک حجۃ الوداع کا دن آ گیا۔ اس موقع پر آپؐ نے معرکہ آرا خطبات ارشاد فرمائے۔ اسی روز آپؐ نے سود کے خاتمے کا اعلان کیا‘ اور اس کا آغاز اپنی ذات سے کرتے ہوئے، اپنے چچا حضرت عباس ؓ کا سود معاف کرنے کا اعلان کیا۔ سوال یہ ہے کہ سود جیسی برائی کو تیرہ سال کیوں گوارا کیا گیا؟
غلامی اور سود کو اگر یک دم ختم کر دیا جاتا تو مدینہ کی معیشت اپنی دو اساسات سے محروم ہو جاتی اور اس کا لازمی نتیجہ سماجی اور معاشی انتشار ہوتا۔ یہ عقلِ عام کا معاملہ ہے کہ جب کسی کمرے کے ستون گرا دیے جائیں تو چھت کا کھڑا رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ اگر ستون گرانا مقصد ہو تو پھر ضروری ہوتا ہے کہ چھت کو متبادل ستون فراہم کیے جائیں تاکہ انہیں گرانے کی صورت میں چھت زمین بوس نہ ہو۔
اللہ کے رسولﷺ نے اپنے طرزِ عمل سے دراصل یہ سمجھایا کہ مدینہ کی ریاست حکمت اور بصیرت کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ تعمیرِ نو ایک مثبت عمل ہے۔ اس کے لیے مثبت سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کسی دیوار یا ستون کو گرانا ناگزیر ہو تو پہلے متبادل دیوار کھڑی کرنا پڑتی ہے۔ اس سوچ کا گہرا تعلق صبر کے ساتھ ہے۔ صبر کا ایک مطلب انسان کے اندر اس حوصلے کا پایا جانا ہے کہ وہ ایک خاص وقت تک کسی ناپسندہ بات کو برداشت کر سکے۔
مدینے کی ریاست اس وقت قائم ہوئی جب آپﷺ نے بادلِ نخواستہ، کئی سال تک، سود کو گوارا کیا اور غلامی کو بھی۔ غلامی تو بعد بھی قائم رہی حالانکہ اسلام نے ان دروازوں کو بند کر دیا تھا‘ جہاں سے غلامی کا داخلہ ہوتا تھا۔ بعض لوگ آج بھی اس واقعاتی شہادت کی بنیاد پر غلامی کو مستقل دینی جواز فراہم کرنے کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم اگر آج مدینہ کی ریاست کو مثال بناتے ہیں تو کیا اس سے کچھ سیکھنے کو تیار ہیں؟
مدینے کی ریاست انتقام پر قائم نہیں ہوئی۔ یہ ارتقا کے اصول پر تدریجاً قائم ہوئی۔ یہ انقلاب نہیں، انتقام جن کی بنیاد بنتے ہیں۔ انقلاب دراصل ایک منفی اندازِ فکر ہے‘ جس میں تعمیر سے زیادہ دلچسپی تخریب سے ہوتی ہے۔ جو سر میں تعمیر کا سودا رکھتے ہیں، ان کی نظر ماضی پر نہیں، مستقبل پر ہوتی ہے۔ وہ تعمیر کی نیت سے، بہت سی خامیوں کو بھی برداشت کر لیتے ہیں۔
کرپشن سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کا ایک اہم ستون ہے۔ اسے اگر گرانا مقصود ہے تو ضروری ہے کہ پہلے متبادل ستون کھڑے کر دیے جائیں تاکہ کل اگر اسے گرایا بھی جائے تو چھت کھڑی رہے۔ موجودہ حکومت ستون گرانے میں لگی ہے لیکن اسے نئے ستون کھڑے کرنے سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ متبادل ستون سیاسی استحکام ہے جس کے بغیر معاشی استحکام کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا۔
تنگ دلی ا ور محدود سوچ کے ساتھ مدینے کی ریاست نہیں بنائی جا سکتی۔ ریاستِ مدینہ بنانے کے لیے پیغمبرانہ اعلیٰ ظرفی سے فیض اٹھانا ہو گا۔