سیاسی اتحاد، سیاسی عمل کا حصہ ہیں۔ اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ سوال جواز کا ہے۔ کیا آج ملک کو کسی نئے سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے؟
سیاسی اتحاد بالعموم کسی مشترکہ مقصد کے لیے بنتے ہیں۔ ان کے لیے کلی اتفاق لازم نہیں ہوتا۔ ایوب خان کے دور میں سیاسی جماعتوں میں اتفاق تھا کہ فوجی آمریت کا خاتمہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لیے ضروری ہے۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں نے اتحاد کیا۔ اس اتحاد میں سید ابوالاعلیٰ مودودی اور نواب زادہ نصراللہ خان جیسے جید حضرات شامل تھے‘ جو اخلاقیات کو سیاست پر مقدم رکھتے تھے۔ تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی اور نون لیگ بھی ایک اتحاد میں ساتھ رہے۔ اس لیے یہ اعتراض بے معنی ہے کہ فلاں فلاں سے کیوں اتحاد کر رہا ہے یا یہ اتحاد کسی کلی اتفاق کا اظہار ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں دو طرح کے اتحاد بنے۔ ایک وہ جو کسی سیاسی مقصد کے حصول کے لیے تھے‘ اور اہلِ سیاست کے خانہ ساز تھے‘ جیسے ایوب خان کے خلاف بننے والا اتحاد۔ بعض اتحاد وہ تھے جو بنوائے گئے، عام طور پر کسی منتخب حکومت کو گرانے کے لیے۔ اس کے لیے مذہب کو بھی بے دردی سے استعمال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی ایسے اتحادوں کا ہدف رہی۔ اس کھیل نے پاکستان کی سیاست کے فطری ارتقا کو بری طرح متاثر کیا۔
ان دنوں بھی ایک سیاسی اتحاد کی بات ہو رہی ہے۔ اس کے لیے مولانا فضل الرحمن زیادہ متحرک ہیں۔ گزشتہ دو سال سے ملک میں جاری سیاسی عمل کا اصل ہدف چونکہ شریف خاندان اور نون لیگ رہے، اس لیے پیپلز پارٹی نے اپنا وزن دوسرے پلڑے میں ڈالے رکھا۔ اس کی قیادت کا خیال تھا کہ وہ تاریخ کی درست سمت میں کھڑی ہے‘ اور یہ صورتحال اس کے لیے سیاسی خوش خبری لائے گی۔ لیکن بہت جلد ان کو اندازہ ہو گیا کہ وہ دراصل تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے ہیں۔ وہ اب لوٹنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے موقع کی تلاش میں ہیں۔
حکومت کی خواہش یہی ہے کہ اُس کے خلاف کوئی سیاسی اتحاد نہ بننے پائے۔ اس کے پاس وہی فرسودہ دلیل ہے کہ شریف اور زرداری، دونوں ایک ہیں۔ یہ ایک سطحی دلیل ہے جس کو تمام سیاسی جماعتیں بوقت ضرورت استعمال کرتی ہیں۔ کبھی نون لیگ دوسری دو بڑی جماعتوں کو ایک کہتی تھی۔ کبھی پیپلز پارٹی دوسروںکو ایک جیسا لاڈلا قرار دیتی رہی ہے، صرف وقت کے فرق کے ساتھ۔ اس لیے اس دلیل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا آج کسی سیاسی اتحاد کے لیے کوئی جواز موجود ہے؟
اس وقت جاری سیاسی عمل کی دو جہتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ملک کو ایک جماعتی نظام کی طرف ہانکا جا رہا ہے۔ اس کا جمہوری مظہر صداری نظام ہو سکتا ہے۔ یہ بات ان دنوں کہاں زیرِ بحث ہے اور اس میں سود کتنا ہے اور زیاں کتنا، یہ اِس وقت میرا موضوع نہیں۔ میں انشا اللہ اس پر الگ سے کالم لکھوں گا۔ یہاں اس کا ذکر، بطور امر واقعہ کیا جا رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ دو بڑی جماعتوں کی قیادت کو احتساب کے نام پر سیاسی عمل سے الگ کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں اگر کوئی سیاسی اتحاد بنتا ہے تو کیا اس کی ضرورت ہے اور اگر ہے تو اس کا سیاسی ایجنڈا کیا ہونا چاہیے؟
سیاست کی سمت کو درست رکھنے کے لیے، ایک سیاسی اتحاد کی بلا شبہ ضرورت ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ سیاست کی گاڑی کا کانٹا تبدیل کیا جا رہا ہے۔ سیاست کے فطری بہاؤ پر بند باندھ کر اس کا رخ تبدیل کرنا مقصود ہے۔ یہ کام ہمیشہ ہوتا رہا مگر اس بار بہ اندازِ دگر ہو رہا ہے۔ پاپولزم کی بنیاد پر پرانی شراب نئی بوتلوں میں پیش کی جا رہی ہے۔ اس عمل کو روکنا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے؛ تاہم یہ ذمہ داری نبھاتے وقت، یہ تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے کہ سیاسی جماعتوں کی اصل دلچسپی کسی احتساب سے دامن بچانا ہے۔
احتساب کی بھٹی میں شریف خاندان نے جتنا جلنا تھا جل چکا۔ اب وقت بتائے گا کہ وہ راکھ بنے ہیں یا کندن۔ پنجاب کے ایک وزیر کا اگرچہ یہ کہنا ہے کہ ابھی شریف برادران کا پھانسی چڑھنا باقی ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ اُن کی خواہش ہو، خبر نہ ہو۔ حیرت کی موت واقع ہو چکی ہے ورنہ اس خواہش پر میں حیران ہوتا کہ کوئی سیاسی کارکن مخالفین کے بارے میں ایسی خواہش بھی پال سکتا ہے۔ اب باری ہے زرداری خاندان کی۔ اسے احتساب کا سامنا ہے۔ بھٹو خاندان تو جزا و سزا کے عمل سے آگے نکل گیا۔ اب زرداری خاندان کا امتحان ہے۔ بلاول کا اصل خاندان تو یہی ہے۔ دیکھیے، وہ کندن بنتے ہیں یا راکھ؟
سیاسی اتحاد اگر ناگزیر ہے تو اس کا ایجنڈا کیا ہو؟ میرے خیال میں چند نکات کو اس اتحاد کی بنیاد ہونا چاہیے:
1۔ 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ دو ماہ میں سامنے آنی چاہیے۔ اپوزیشن کی کوشش ہونی چاہیے کہ یہ ایک بھولی بسری داستان نہ بن جائے۔ اگر اپوزیشن نے اس باب میں اپنا کردار ادا نہ کیا تو آئندہ انتخابات کی شفافیت کی ضمانت نہیں مل سکے گی۔
2۔ پارلیمانی نظام کا تحفظ۔ اپوزیشن جماعتوں کو واضح کرنا چاہیے کہ یک جماعتی سیاسی نظام یا صدارتی ریاستی نظام کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ پھر یہ کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کا دفاع کیا جائے گا کہ صوبوں میں اضطراب وفاق کی سلامتی کے لیے نیک شگون نہیں۔
3۔ احتساب اور انتقام کو الگ کرنے کے لیے واضح تجاویز۔ اس سیاسی اتحاد کو تجویز کرنا چاہیے کہ کیسے احتساب کے عمل کو امتیازی اور انتقامی رویے سے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
4۔ ریاستی اداروں کے آئینی کردار کے بارے میں شکایات کا ازالہ۔ اس اتحاد کو ایسے قانونی اور سیاسی اقدامات تجویز کرنے چاہئیں جو ریاستی اداروں کے بارے میں موجود عمومی تاثر اور شکایات کا خاتمہ کر دیں۔ اس باب میں دو آرا نہیں کہ اداروں کا غیر سیاسی تشخص پاکستان کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔
5۔ آزادیٔ رائے کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ اس ضمن میں صحافتی اداروں اور تنظیموں کی شکایات کا فوری ازالہ کیا جائے۔ اس باب میں سیاسی جماعتوں کی خاموشی مجرمانہ ہے۔
6۔ ملک کے معاشی مسائل بالخصوص غربت، مہنگائی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے خاتمے کے لیے واضح تجاویز۔ اس باب میں حکومتی پالیسی کے جواب میں واضح موقف پیش کیا جائے۔
7۔ حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ خارجہ پالیسی بالخصوص قرضوں اور مالی امداد سے وابستہ شرائط کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ اس بارے میں ابہام سوالات پیدا کر رہا ہے۔
8۔ سیاست میں اخلاقی اقدار کی پامالی کے خلاف واضح موقف۔ اپوزیشن کو اس حوالے سے ایک ضابطہ اخلاق تجویز کرنا چاہیے اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اس پر یک طرفہ عمل کا اعلان کرنا چاہیے۔
میرے نزدیک یہ چند نکات ہیں جو ایک نئے سیاسی اتحاد کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ملک میں جاری سیاسی عمل آئین، جمہوری روایات اور رویوں کے تابع رہے۔ اس سے جہاں جہاں انحراف ہو رہا ہے، اس کی نشان دہی کی جائے۔ اپوزیشن کو اس کے لیے مثبت انداز میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میرا احساس ہے کہ اس وقت سیاست کے اطوار کو مصنوعی طریقے سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس کے آگے بند باندھنا اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت، دونوں کا کام ہے۔
مولانا فضل الرحمن اگر کوئی اے پی سی بلانا چاہتے ہیں تو اس کا ایجنڈا واضح ہونا چاہیے۔ اس سے یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ اپوزیشن حکومت گرانے یا غیر آئینی اقدام کی بات کر رہی ہے۔