حادثہ سنگین تھا، اس کا ردِ عمل بھی سنگین ہوا۔ ایسے المیوں پر دل و دماغ کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔ غم و غصے کا رخ اگر اربابِ اختیار کی طرف ہے تو یہ بھی قابلِ فہم ہے۔ میں اس المیے کو ایک سماجی قدر کی روشنی میں دیکھ رہا ہوں۔
انسانی جان کی حرمت، ہمارے معاشرے میں ختم ہو چکی۔ ہمارے نظامِ اقدار کی اساس اب تکریمِ آدم نہیں ہے۔ ہم اپنے مذہبی، سماجی اور سیاسی بیانیوں میں، جس چیز کو سب سے بے وقعت سمجھتے ہیں، وہ انسانی جان ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ مذہب، سماج اور سیاست، ہمارے لیے بعض ایسے نصب العین متعین کرتے ہیں، جن کے لیے انسانی جان کو قربان کرنا ہمارے لیے باعثِ سعادت و غیرت ہونا چاہیے۔ ہم موت کو گلیمرائز کرتے اور انسانی جان کو دیگر آدرشوں کے مقابلے میں کم قیمت سمجھتے ہیں۔
مذہب کو دیکھیے۔ یوںمعلوم ہوتا ہے کہ ایک اچھے مسلمان کی نشانی یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت شمشیر بدست ہو، جان دے رہا ہو اور جان لے رہا ہو۔ موت اس کے لیے ایک ایسی خواہش بنا دی جاتی ہے، وہ جس کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس سوچ کے مطابق ہیرو وہی ہیں جو میدانِ کار زار میں کام آتے یا کشتوں کے پشتے لگاتے رہیں۔ تاریخ کے باب میں ہماری تفہیم یہ ہے کہ جنگوں کی داستان کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ نے اپنے آخری رسولﷺ کو اسوۂ کامل بنا کر اور اس شان کے ساتھ بھیجا کہ آپؐ کی چادرِ رحمت عالمین کو اپنے سائے میں لے لیتی ہے۔ ہم نے انہیں صرف ایک سپہ سالار کے روپ میں پیش کیا۔ سیرت جب لکھی جانے لگی تو اسے ''مغازی‘‘ کا نام دیا۔ اس کا مطلب ہے ''جنگیں‘‘۔
''جنگ‘‘ سماجی زندگی کا سب سے غیر مطلوب اور کم اہم پہلو ہے۔ سماج اصلاً امن اور اسبابِ حیات کی فراہمی کا نام ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ نے مکہ کی بنیاد رکھی تو اسے شہرِ امن بنانے کی دعا کی۔ رسالت مآبﷺ نے جو جہاد کیا، وہ قرآن مجید کے مطابق ''فتنہ‘‘ یعنی مذہبی جبر کے خلاف تھا۔ جہاد کا دوسرا پہلو وہ ہے جو قانونِ اتمامِ حجت سے متعلق ہے۔ گویا آپؐ نے انسانی جان و مال کی حرمت کو بطور قدر مستحکم کیا۔ قرآن مجید اور اللہ کے آخری رسولﷺ نے انسانی جان کے بارے میں جو اسلوب اختیار کیا، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام انسانی جان کو کیا اہمیت دیتا ہے۔ قرآن مجید نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ رسالت مآبﷺ نے جان کی حرمت کو بیت اللہ کی حرمت سے بڑھ کر بتایا۔
ہمارے ہاں جان کی حرمت پسِ منظر میں چلی گئی۔ دین کے رائج تصورات میں جہاد کا پہلو نمایاں ہوا تو موت کو گلیمرائزکیا گیا۔ ''عافیت‘‘ جس کے لیے رسول اللہﷺ نے ہمیشہ دعا کی، پر اصرار باقی نہیں رہا۔ دین جان دینے اور جان لینے کا نام بن کر رہ گیا۔ رسالت مآبﷺ کے وہ ارشادات اور قرآن مجید کی وہ آیات، جن کا تعلق جنگ کے واقعات سے تھا، انہیں عمومی انسانی معاشرتی رویہ بنا کر پیش کیا گیا اور یہ تاثر دیا کہ مسلم معاشرہ وہ ہوتا ہے جس میں ہر کوئی شمشیر بکف پھرتا ہے۔
سماج کی طرف آئیے تو ہمارے سماجی نظامِ اقدار میں بعض دیگر اقدار کی ایسی تفہیم رائج ہے کہ انسانی جان ان کے سامنے بے معنی ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر غیرت کا تصور۔ بہن اپنی مرضی سے شادی کر لے تو بھائی کے لیے اس کی جان، اس کے تصورِ غیرت کے مقابلے میں بے معنی ہو جاتی ہے۔ وہ اس غیرت کی حفاظت کے لیے بہن کی جان لینے اور خود پھانسی چڑھ جانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ غیرت کا یہی تصور کبھی زمین سے بھی وابستہ ہو جاتا ہے۔ زمین کے نام پر جان لینے اور جان دینے کے واقعات بہت عام ہیں۔
سیاست میں بھی ہم جان دینے کو کمال سمجھتے ہیں۔ سیاسی مقاصد کے لیے مر جانے والے بھی شہید شمار ہوتے ہیں۔ ملک کی خدمت کے بے شمار پہلو ہیں۔ لیکن ملک کے لیے جان دینا آج بھی سب سے بڑا کارنامہ شمار ہوتا ہے۔ اس دور میں، جب جنگ کا اسلوب بدل چکا، آج جنگی خدمت، جان سے زیادہ مال سے متعلق ہو چکی۔ آج کسی کو دشمن کے ٹینک کے سامنے اپنے جسم سے بم باندھ کر لیٹنے کی ضرورت نہیں۔ ایک بغیر پائلٹ ڈرون پوری بستی اجاڑنے پر قادر ہے۔ اب جنگ کے تناظر میں بھی جان کی نوعیت تبدیل ہو چکی۔ ڈرون کی تخلیق خود انسانی جان کی حرمت کا نتیجہ ہے؛ تاہم اس میں سفاکیت یہ ہے کہ انسان وہی شمار ہوتا ہے جو ترقی یافتہ یا ایک طاقت ور ریاست کا شہری ہے۔
یہ ہے وہ نظامِ اقدار جس میں پاکستان میں امن کے قیام کے ذمہ دار ادارے کام کرتے ہیں۔ جب ہمارے تصورِ حیات میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں تو پھر ان اہل کاروں کی نظر میں بھی ان کی کوئی حرمت نہیں۔ ان کے لیے انسانی غیرت اور جان‘ دونوں بے معنی ہیں۔ تھانے میں ایک معزز شہری کو رسوا کرنا ہو یا کسی قانونی ضابطے کے بغیر اس کی جان لینی ہو، ان کے لیے غیر اہم باتیں ہیں۔ یہی نہیں، وہ سرعام لوگوں کو رسوا کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔
ایک دوسرا پہلو بھی قابل غور ہے۔ ہمارے تصورِ حکومت میں شہری نہیں، ریاست اہم ہے۔ اس کی تخلیق میں یہ خیال پنہاں ہے کہ یہ شہری ہے جس کو ریاست کے لیے قربانی دینی ہے، ریاست کو کوئی قربانی نہیں دینی۔ پاکستان جب تک سکیورٹی سٹیٹ رہے گا، شہری کے جان و مال قربان ہوتے رہیں گے۔ جب تک پاکستان فلاحی مملکت نہیں بنتا، شہری اسی طرح قربان ہوتا رہے گا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ریاست کو ضرورت پڑے تو شہری کو جان دینی چاہیے لیکن اس کو بطور واقعہ قبول کرنے میں اور بطور تصورِ حیات قبول کرنے میں فرق ہے۔
ساہیوال میں جو حادثہ ہوا، وہ دراصل اسی ذہن (mindset) کا حاصل ہے۔ دہشت گردی اس وقت ریاست کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کو ختم کرتے ہوئے اگر چند شہری بھی کام آ جائیں تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ اداروں کو کہیں پر یہ تربیت نہیں دی گئی کہ دہشت گردی کے خاتمے کا مقصد اس ملک کے شہریوں کو ایک پرامن ماحول فراہم کرنا ہے۔ یہ ادارے دراصل عوام کے دل سے دہشت گردی کا خوف ختم کرنے کے لیے ہیں۔ چونکہ وہ اس سے واقف نہیں ہیں، اس لیے انہوں نے اپنے طرزِ عمل سے شہریوں کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔
آج ناگزیر ہو چکا کہ ریاست کے تصور کی تشکیل نو ہو۔ پاکستان جب تک فلاحی ریاست نہیں بنتا، عوام ریاست کے لیے قربانی دیتے رہیں گے۔ جب پاکستان ایک ویلفیئر سٹیٹ ہو گا تو پھر ریاستی اہل کاروں کی تربیت اسی نہج پر ہو گی کہ ان کا مقصد عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ وہ اگر کسی دہشت گرد کو پکڑیں گے تو اس بات کا لحاظ رکھیں گے کہ انہیں عوام کو کسی خوف و ہراس میں مبتلا نہیں کرنا۔ ان کا کام عوام کا تحفظ ہے۔
آج سکیورٹی کے ادارے عوام کے لیے خوف و ہراس کی علامت بن چکے۔ اس تاثر کو بدلنا لازم ہے۔ یہ پہلا واقعہ ہے نہ آخری، اگر ہماری ریاست نے اپنے اندازِ نظر کو تبدیل نہیں کیا۔ ساہیوال کے المیے میں وزیر اعظم، وزیرِ اعلیٰ یا کسی ریاستی ادارے کے سربراہ کا کوئی ہاتھ نہیں، لیکن اگر ریاست کا ذہن نہ بدلا تو پھر وہ ذمہ داروں کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔