افغانستان کی جنگ کا آخری باب، کیا طالبان کی فتح پر تمام ہو گیا؟ مجھے حتمی بات کہنے میں تامل ہے۔ ہمیں پہلے یہ طے کرنا ہے کہ کیا فی الواقعہ ایسا کوئی باب رقم بھی ہو رہا ہے؟
فتح و شادمانی کے ایسے جذبات ہم نے 1989ء میں بھی دیکھے۔ 'فتحِ مبین‘ کے عنوان سے جلسے جلوس ہوتے تھے‘ اور میں بھی ایک گرم جوش نوجوان کی طرح ان کا حصہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ انہی دنوں راولپنڈی کے ایک نواحی قصبے، چک بیلی خان میں جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی کی ایک تربیت گاہ منعقد ہوئی۔ میں بھی اس میں شریک تھا۔ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کو بھی اس کی ایک نشست میں شریک ہونا تھا۔ اجتماع جاری تھا کہ مجاہدین کے ہاتھوں جلال آباد کے فتح کی خبر پہنچی۔ معلوم ہوا کہ قاضی صاحب اس اجتماع میں شرکت نہیں کر سکیں گے کہ انہیں ہنگامی طور پر جلال آباد جانا ہے۔ بس نہ پوچھیے، جذبات کا کیا عالم تھا۔ فلک شگاف نعرے اور خوشی سے تمتماتے چہرے، مجھے آج بھی یاد ہیں۔ معلوم نہیں کتنے دن، میں اس سرشاری میں ڈوبا رہا۔
ایک عرصے بعد معلوم ہوا کہ جب ہم فتح مبین کا جشن منا رہے تھے، اسی وقت افغانستان کی تاریخ کا ایک المناک باب رقم ہو رہا تھا۔ آج شاید ہی کوئی اختلاف کر سکے کہ اُن مجاہدین کی حرصِ اقتدار اور نا اہلی نے افغانستان کو، (تا دمِ تحریر) تیس سال کے لیے ایک فساد کی نذر کر دیا۔ سوویت یونین نے افغانستان کے دس سال برباد کیے۔ ان مجاہدین نے تیس سال ضائع کر دیے۔ مجھے آج بھی یہ کہنے میں تامل ہے کہ یہ عرصہ تیس سال تک ہی محیط ہو گا۔
طالبان 1996ء میں نمودار ہوئے۔ کیسے ہوئے، اِس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، یہ امرِ واقعہ ہے کہ وہ افغانستان کو امن نہیں دے سکے۔ پچیس سال تو ان کو بھی ہو گئے معرکہ آرا ہوئے۔ اس عرصے میں طالبان کے موقف کو دنیا میں کسی نے درست نہیں مانا۔ نہ پاکستان نے نہ کسی دوسرے مسلمان ملک نے۔ ترکی کی فوج تو نیٹو کا حصہ بن کر طالبان سے عملاً برسرِ پیکار رہی۔ یہ کسی کمالسٹ کی نہیں، طیب اردوان کی فوج تھی۔
ہماری دلچسپی بوجوہ افغانستان سے ہے، امریکہ سے نہیں۔ اگر دنیا میں کہیں امریکہ کو شکست ہوتی ہے تو اس میں ہمارے لیے خوشی ہی کا سامان ہے۔ ایک سامراجی قوت کی شکست پر شاید ہی کسی کو افسوس ہو گا۔ افغانستان ہی نہیں، دنیا کی بربادی میں امریکہ کا بنیادی کردار ہے۔ چالیس سال پہلے اس کام میں کچھ اور قوتیں بھی اس کے ساتھ شریک تھیں۔ چالیس سال سے وہ تنہا لوگوں کی قسمت کے فیصلے کر رہا ہے‘ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ فیصلے فی الجملہ ظلم پر مبنی ہیں۔ طالبان پر تنقید سے امریکہ کی حمایت لازم نہیں آتی۔ یہ ریاضی کا کوئی فارمولہ نہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے سوویت یونین کی مخالفت سے یہ ہرگز لازم نہیں تھا کہ امریکہ کی تائید کی جا رہی ہے‘ جیسے بعض لوگ بیسویں صدی میں گمان کرتے تھے۔
جسے آج طالبان کی فتح کہا جا رہا ہے، وہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا ہے۔ مقدمہ یہ ہے کہ اس سے طالبان کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو رہا ہے اور یوں یہ ان کی فتح ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان سے امریکہ کا نکلنا طالبان کی فتح ہے یا افغانستان میں ایک پرامن معاشرے اور مستحکم حکومت کا قیام ان کی فتح ہے؟ کیا افغان عوام کی فتح اور طالبان کی فتح ایک ہی ہے؟
یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ 1989ء میں افغانستان سے امریکی انخلا اس ملک کے استحکام اور امن کی ضمانت نہیں بن سکا تھا۔ اس کے بعد وہاں ایک ایسی خانہ جنگی نے جنم لیا، جس نے افغان معاشرے کو برباد کر دیا۔ آج کوہسار تو باقی ہیں، افغان باقی نہیں ہیں۔ ہم آج جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ گزشتہ کل سے بہت مختلف ہے۔ وقت ایک جگہ نہیں ٹھہرتا۔ ہمیں اس سے ہم قدم ہونا پڑتا ہے۔
میرا احساس ہے کہ اس دوران میں افغان معاشرہ تشکیلِ نو کے عمل سے گزرا ہے۔ اس کا قبائلی تشخص برقرار رہا لیکن اس کے ساتھ ایک نیا طبقہ پیدا ہوا جو جنگ سے اکتا چکا ہے۔ یہ شہروں میں رہتا ہے اور انٹرنیٹ نے اسے ترقی یافتہ دنیا سے متعارف کرا دیا ہے۔ یہ کرکٹ کھیلتا ہے اور بالی وڈ کے ساتھ ہالی وڈ کی فلمیں بھی دیکھتا ہے۔ وہ خود کو دنیا سے الگ نہیں دیکھتا۔ وہ اب سوچ کے اعتبار سے عالمگیر معاشرے کا حصہ بن چکا۔
گزشتہ تیس سالوں میں امریکہ نے عسکری طریقے ہی سے افغانستان کو فتح کرنے کی کوشش نہیںکی ، اس کی تہذیبی اور تمدنی تشکیلِ نو کی سعی بھی کی ہے۔ بہت سے افغان طالب علموں کو یورپ، بھارت اور امریکہ سمیت مختلف ملکوں میں تعلیمی وظائف دیے گئے۔ حال ہی میں مصر کے جامعہ ازہر کا دورہ کرنے والے دوستوں نے بتایا کہ وہاں بہت سے افغان طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں‘ جنہیں ایک ہزار ڈالر تک ماہانہ وظیفہ ملتا ہے۔ وہاں پاکستانی طالب علم بھی ہیں‘ جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ افغان طالب علموں کے لیے یہ وظائف عالمی برادری فراہم کر رہی ہے۔
میرا احساس ہے کہ آج کا افغان معاشرہ ماضی سے مختلف ہے۔ ایک طرف اس کا قبائلی رنگ ہے‘ جو برقرار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قبائلی عصبیتیں پہلے کی طرح بروئے کار آئیں گی۔ دوسری طرف نئے رجحانات ہیں‘ جنہوں نے نئی نسل کی بڑی حد تک تہذیبی تشکیلِ نو کر دی ہے۔ اس طبقے میں طالبان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس کے دل میں پاکستان کے لیے بھی کوئی محبت نہیں‘ بلکہ یہ پاکستان کو اپنے مسائل کی ایک بڑی وجہ سمجھتا ہے۔ یہی وہ گروہ ہے جو پاکستان کے خلاف مظاہروں میں شریک ہوتا ہے۔
یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اس دوران میں بیرونی قوتوں کے مفادات کم نہیں ہوئے، بلکہ ان میں بعض نئے کردار بھی شامل ہو گئے ہیں‘ جن میں چین اور بھارت اہم تر ہیں۔ بھارت وہ ملک ہے‘ جس نے گزشتہ سالوں میں یہاں سب سے بڑی سرمایہ کاری کی۔ ایران اور ترکی کے مفادات تو پہلے ہی سے موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ لوگ اتنی آسانی سے طاقت کے اس کھیل سے الگ نہیں ہوں گے۔ پھر طالبان نے بھی عالمی سطح پر نئے دوست بنائے ہیں۔ طالبان اب سادہ لوح طالب علموں کا کوئی گروہ نہیں، ایک منجھی ہوئی سیاسی قوت ہے جسے عالمی سیاست کا ادراک ہے۔
یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کا مطلب، کیا یہاں کے معاملات سے امریکہ کی مکمل لا تعلقی ہے؟ ہمیں معلوم ہے کہ امریکہ یہاں اپنے فوجی اڈے قائم کر چکا ہے‘ جن سے وہ دست بردار نہیں ہو رہا۔ اگر طالبان انہیں گوارا کریں گے تو کیا فوجی انخلا کے بعد، امریکی اثر باقی نہیں رہے گا؟ یوں بھی اب عددی اعتبار سے فوجوں کا کم یا زیادہ ہونا اہم نہیں رہا۔
ان تمام عوامل کو سامنے رکھیے تو یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ افغانستان میں فتح کس کا مقدر بنے گی‘ اور شکست کس کا۔ میں امریکہ کے بعد، افغانستان میں ایک نئی خانہ جنگی کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ امریکہ نے بہرحال طاقت کا ایک توازن قائم کر رکھا تھا‘ جس کا پلڑا وہاں کی سیاسی حکومت کے حق میں جھک رہا تھا‘ جس سے ایک نظم قائم ہے۔ کسی خارجی دباؤ کے بغیر ابھی افغانستان میں امن کا قیام مجھے ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ مجھے لگتا ہے کہ افغانستان ایک بار پھر 1989ء کی طرف لوٹ رہا ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی فتح کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے کون روک سکتا ہے۔ جب ہم یومِ فتح مبین منا رہے تھے تو کس نے ہمیں روکا تھا؟
افغانستان سے امریکی انخلا، پاکستان پر کیا اثرات مرتب کرے گا، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ کاش میں کوئی ایسی بات کہہ سکتا‘ جو ہمارے لیے پُرامید ہوتی۔ تاریخ کا سفر جس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، اسے روکنا کسی کے بس میں نہیں۔