حج سبسڈی کیا ہے؟ یہی کہ حکومت سفرِ حج کو آسان بنائے اور اگر اس کارِ خیر کے لیے کچھ مالی اسباب فراہم کرنا پڑیں تو کر گزرے۔ اگر کوئی حکومت ایسے اقدامات کرتی ہے تو نہ صرف یہ جائز ہو گا بلکہ میری نگاہ میں مستحسن بھی ہے؛ تاہم اگر اس کے پاس وسائل نہیں تو یہ اس کے لیے لازم بھی نہیں۔ اس باب میں شریعت (اسلامی قانون) کی بحث بس اتنی ہی ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے، اس کا تعلق انتظامات اور سماجیات سے ہے۔
پاکستان کا آئین بھی اس معاملے میں خاموش نہیں۔ اس کے آرٹیکل 31 میں، ریاست کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مسلمان پاکستانیوں کو اس قابل بنانے کے لیے کہ وہ اسلام کے مطابق زندگی گزاریں، اقدامات کرے گی۔ میرے نزدیک اس کی تعبیر یہ ہے کہ ریاست مذہبی فرائض کی ادائیگی میں مسلمان شہریوں کی مدد گار ہو گی۔ اس آرٹیکل میں سہولتوں کی فراہمی کا ذکر ہے۔ میں اس سے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ یہی سہولت دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی ملنی چاہیے۔
مذہب، تاہم صرف قانون کا نام نہیں۔ اس کا ایک پہلو تہذیبی اور معاشرتی بھی ہے۔ ایک مسلم اکثریتی ملک میں جو تہذیبی رنگ غالب ہو گا، اس میں اسلام کے آثار نمایاں ہوں گے، بالکل ایسے ہی جیسے مسیحی اکثریتی معاشرہ مسیحیت کے رنگ میں رنگا ہو گا۔ یہ فطری ہے کہ ہر مذہبی اکائی اپنی تہذیبی ساخت کے بارے میں حساس ہو۔ اس کے لیے وہ جو مظاہر اختیار کرتی ہے، اس کے جواز یا عدم جواز پر بات ہو سکتی ہے مگر اس حساسیت کا جواز اپنی جگہ موجود ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا میں ایک مہذب معاشرے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کے باب میں فراخ دل ہوتا ہے‘ اور انہیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے تہذیبی وجود کو زندہ رکھیں۔
یہ حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ وہ عوام کے تہذیبی وجود کی حفاظت کرے۔ مراسمِ عبادت کی ادائیگی کو ان کے لیے آسان بنائے۔ ان کے لیے عبادت گاہیں تعمیر کرے۔ انہیں موقع دے کہ وہ اپنے مذہبی تہوار اچھے انداز میں منا سکیں۔ یہ بات جہاں اقلیتوں کے لیے ضروری ہے وہاں اکثریت کے لیے بدرجہ اتم لازم ہے۔ قرآن مجید ایک مسلمان حکومت کے جن مذہبی فرائض کا ذکر کرتا ہے، ان میں ایک نماز کا اہتمام بھی ہے۔ اس سے مراد نظمِ صلوٰۃ کا قیام ہے۔ ظاہر کہ اس کے لیے وسائل خرچ ہوتے ہیں۔ اگر نماز کے لیے ریاستی وسائل خرچ کیے جا سکتے ہیں تو حج کے لیے کیوں نہیں؟
میں نے جس تہذیبی حساسیت کی بات کی، اس کو مزید واضح کرنا ضروری ہے۔ برصغیر کے مسلمان کا اپنا ایک مزاج ہے۔ اس کے لیے حج ایک ایسی تمنا ہے جو اس کی گھٹی میں پڑی ہے۔ وہ اس کو فقہی کے بجائے قلبی پیراڈائم میں دیکھتا ہے۔ اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ وہ حج کو سفرِ مدینہ سے الگ کر کے دیکھ ہی نہیں سکتا۔ اس کے لیے یہ سمجھنا کم و بیش ناممکن ہے کہ مدینہ جائے بغیر بھی حج ہو سکتا ہے۔ آپ اسے قانونِ حج پڑھاتے رہیں لیکن وہ حج کو مسجدِ نبوی اور مزارِ اقدس کی زیارت کے بغیر کوئی معنی دینے کے لیے تیار نہیں۔ ایسا آدمی حج کو استطاعت نہیں، محبت کے پیرائے میں دیکھتا ہے۔ اس کے لیے فقہی دلائل کارگر نہیں۔ یہاں تو مانگنے والا دعا دیتا ہے: ''اللہ تمہیں مدینے کا حج کرائے‘‘۔
وہ عمر بھر اس خواہش کو پالتا ہے کہ پروردگار اسے کبھی مدینہ لے جائے۔ ایک عام سرکاری ملازم زندگی کے مسائل میں گھرا ہوتا ہے۔گھر میں بیٹھی نوجوان بیٹیاں شادی کی منتظر ہوتی ہیں۔ ماں سوچتی ہے کہ باپ کو ریٹائر ہونے پر جو رقم ملے گی، وہ اس سے بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر دے گی۔ باپ کے دل میں اگر کوئی جھانکے تو اس کے نزدیک اس رقم کا سب سے اچھا مصرف یہ ہے کہ وہ حج کر آئے۔ ذرا سوچیے کہ جب اسے یہ رقم ملتی ہے اور ساتھ ہی یہ خبر بھی کہ یہ رقم حج کے اخراجات کے لیے کفایت نہیں کرتی تو اس کے دل پر کیا گزرے گی۔
ایک عوامی حکومت کوئی پالیسی بناتے وقت اس عام پاکستانی کے جذبات کو کیسے نظر انداز کر سکتی ہے؟ پھر یہ جذبات کچھ ایسے ناجائز بھی نہیں۔ حج کے جو فضائل اسے بتائے گئے ہیں، ان میں بجا طور پر یہ بھی شامل ہے کہ حجِ مقبول کا بدلہ عمر بھر کے گناہوں کی معافی ہے، اس شرط کے ساتھ کہ اب وہ انہیں دھرائے گا نہیں۔ پاکستان سے بالعموم اُس وقت لوگ حج کے لیے جاتے ہیں، جب سفرِ حیات کا خاتمہ قریب ہوتا ہے۔ مغفرت کی خواہش دیگر خواہشات پر غلبہ پا لیتی ہے۔ ایسے میں اگر اسے خبر ملے کہ حکومت اس کے اور اس کی مغفرت کے مابین حائل ہو گئی ہے تو ایسی حکومت کے بارے میں اس کے جذبات کیا ہوں گے؟
ریاست شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ انسانی ضروریات صرف مادی نہیں ہوتیں۔ یہ روحانی اور جمالیاتی بھی ہوتی ہیں۔ سیدنا مسیحؑ نے فرمایا تھا کہ انسان صرف اس رزق سے زندہ نہیں رہتا جو اسے روٹی کی صورت میں ملتا ہے۔ وہ رزق بھی اس کی ضرورت ہوتا ہے جو آسمان سے اترتا ہے۔ اس لیے ایک ریاست کو صرف مادی حوالے ہی سے نہیں سوچنا چاہیے۔ حکومت نے سینما کی صنعت کو زندہ کرنے کے لیے سبسڈی دی ہے۔ میں اس کو درست سمجھتا ہوں کہ اس کا تعلق شہریوں کی جمالیاتی ضرورت کے ساتھ ہے۔ انسان کی روحانی ضرورت جمالیاتی ضرورت سے کسی طرح کم اہم نہیں۔
کوئی سبسڈی ایسی نہیں ہوتی جس سے سب استفادہ کر رہے ہوں۔ ریاست مختلف طبقات کو اٹھاتی ہے اور بالآخر وہ پوری اجتماعیت کی قوت بنتے ہیں‘ جیسے ایک پرزہ دوسرے کے ساتھ جڑجاتا ہے۔ ایک کی قوت سب کی قوت بن جاتی ہے۔ یہ عذر قابلِ قبول ہے کہ حکومت ہر قدم موجود وسائل ہی میں اٹھا سکتی ہے۔ حکومت سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا جانا چاہیے جو ماورائے وسائل ہو؛ تاہم حکومت سے یہ مطالبہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ وہ وسائل تقسیم کرتے وقت توازن کو پیشِ نظر رکھے۔
اس سارے عمل میں ایک کردار وزارتِ مذہبی امور کا بھی ہے۔ اس وزارت کا نیا نام 'وزارتِ مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی‘ ہے۔ جہاں تک مذہبی امور کا معاملہ ہے تو حج پالیسی کے علاوہ اس کی کوئی افادیت اب تک سامنے نہیں آ سکی۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کون سے مذہبی امور ہیں جو یہ وزارت سرانجام دیتی ہے۔ سالانہ سیرت کانفرنس اب کوئی ایسا کام نہیں کہ جس کے لیے ایک پوری وزارت مختص کر دی جائے۔ رہی بین المذاہب ہم آہنگی تو اس میدان میں بھی کوئی قابلِ ذکر سرگرمی ہم نے نہیں دیکھی۔ اگر اس وزارت کی کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے تو غیر ضروری اخراجات کم کر کے، حج سبسڈی کو دگنا کیا جا سکتا ہے۔
پھر یہ کہ معاشی معاملات کی اصلاح صرف ماہرینِ معیشت کا کام نہیں۔ اس کے لیے سماج کی تفہیم رکھنے والوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جمہوریت کو نظام ہائے حکومت میں اسی لیے فوقیت حاصل ہے کہ عوامی نمائندے سماج کا بہتر شعور رکھتے ہیں۔ اگر یہ کام ماہرین کا ہوتا تو ٹیکنو کریٹس کی حکومت دنیا میں سب سے بہتر شمار ہوتی۔ سماجیات کا علم رکھنے والا یہ جانتا ہے کہ ایک معاشی پالیسی کے سماجی اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو میرا مشورہ یہ ہو گا کہ وہ کابینہ میں متنوع پس منظر رکھنے والوں کو جمع کرے۔ اسی سے متوازن پالیسی بنانا ممکن ہو گا۔ سب سے اچھا تو یہ تھا کہ اس نوعیت کے فیصلے پارلیمنٹ میں زیرِ بچث آتے۔
حج پالیسی کے سیاق میں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ یہ سفر وہ کرے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو۔ میرا خیال ہے کہ یہ اس بحث کا محل نہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اس باب میں ریاست اور حکومت کی ذمہ داری کیا ہے؟ رہا فرد تو اس کو الگ سے نصیحت کی جا سکتی ہے۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ حج پر سبسڈی دینی چاہیے یا نہیں؟ توجہ اسی سوال کے جواب پر مرتکز ہونی چاہیے۔