مطالعے کا شوق اگر سماجی قدر بن جائے توکیا کہنے۔ یہ ہمارے بہت سے نظری مسائل کا مداوا ہو سکتا ہے؛ تاہم یہ شوق بھی، دیگر مشاغل کی طرح تہذیب چاہتا ہے۔ کیا پڑھا جا ئے، کب اور کیسے پڑھا جائے؟
عام طور پر اس نوعیت کے سوالات اہلِ علم سے پوچھے جاتے ہیں۔ مطلوب یہ ہوتا ہے کہ عام آدمی مطالعے کی عادت اور ترجیحات اپناتے وقت ان لوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھائے جو وسیع المطالعہ ہیں اور جنہوں نے کتاب کو حرزِ جاں بنا رکھا ہے۔ اس مضمون کا حامل بہت وقیع لٹریچر ہماری اپنی زبان میں بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر لوگوں نے اپنی محسن کتاب یا کتب کا ذکر کیا ہے‘ جسے پڑھ کر مطالعے کے شوقین بعض ایسی کتابوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جنہیں یہ اہلِ علم اہم شمار کرتے ہیں۔
مطالعے کے باب میں جہاں یہ اہم ہے، وہاں یہ سوال بھی کم اہمیت کا حامل نہیں کہ کیسے پڑھا جائے اور کب کیا پڑھا جا ئے۔ ایک نوجوان آدمی میں جب پڑھنے کا شوق جنم لیتا ہے تو بعض اوقات یہ ایک ایسی پیاس میں بدل جاتا ہے جو ختم ہونے کو نہیں آتی۔ یہ ختم ہونی بھی نہیں چاہیے لیکن اس سے عام طور پر ایک خرابی یہ پیدا ہوتی ہے کہ انسانی دماغ ایک ایسی الماری بن جاتا ہے جس میں کتابوں کا ڈھیر جمع ہے لیکن ان میں کوئی ترتیب نہیں۔ بوقت ضرورت اگر آپ کوئی کتاب تلاش کرنا چاہیں تو ناکام رہتے ہیں۔
میرا تجربہ یہ ہے کہ اگر اس شوق کی تہذیب نہ ہو تو یہ فکری پراگندگی کا باعث بنتا ہے۔ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ کب کیا پڑھا جائے تو ہر شے اپنی جگہ پر آ جاتی ہے۔ یوں سمجھیے کہ کتابیں الماری میں ایک ترتیب سے سج جاتی ہیں۔ آپ کو تفسیر کی ضرورت ہے تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ کتبِ تفسیر کہاں رکھی ہیں۔ آپ شاعری کا حوالہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں تو آپ کے علم میں ہوتا ہے کہ یہ کتابیں فلاں رو میں دھری ہیں۔
ہر علم کے مدارج ہیں۔ آغاز ہمیشہ مبادیات سے ہوتا ہے۔ اگر کوئی آدمی کسی علم کی بنیادی باتوں سے واقف نہ ہو اور اگلے درجے کی کوئی کتاب پڑھنا چاہے تو زیادہ امکان یہی کہ وہ کسی بات کو درست سیاق سباق میں نہ سمجھنے کے باعث، نا درست نتیجے تک پہنچے۔ انتشارِ فکر، کم از کم نتیجہ ہے جو اس طرح کے مطالعے کا ہو سکتا ہے۔ مجھے خود اس کا کئی بار تجربہ ہوا۔
ایک مثال عرض کرتا ہوں۔ میں میٹرک یا گیارہویں جماعت میں تھا جب شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی کے مکاتیب کا اردو ترجمہ پڑھا یا درست تر الفاظ میں پڑھنے کی کوشش کی۔ ہماری علمی و دینی روایت میں شیخ کی جو اہمیت ہے، اس سے کسی حد تک با خبر تھا۔ اکثر کتابوں میں ان کا ذکر پڑھا تھا یا اہلِ علم سے ان کے بارے میں سن رکھا تھا۔ مکاتیب پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ جو آدمی تصوف و سلوک کے مبادیات ہی سے واقف نہ ہو یا سرسری علم رکھتا ہو اور ساتھ دین کے ماخذات کا بھی گہرا مطالعہ نہ ہو، اس کے لیے یہ مکاتیب صرف فکری انتشار ہی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس میں خرابی مکتوب نگار کی نہیں، مطالعہ کرنے والے کی ہے۔ اس لیے میں یہ عرض کر رہا ہے کہ مطالعہ کا شوق مستحسن ہونے کے ساتھ تہذیب چاہتا ہے۔
کیا یہ تہذیب خود بخود پیدا ہو جاتی ہے؟ اس سوال کا کوئی ایسا جواب ممکن نہیں‘ جس کا سب پر یکساں اطلاق ہو۔ کبھی یہ تہذیب ہو جاتی ہے اور کبھی نہیں۔ ذہنی معیار بہتر ہو تو ہو جاتی ہے؛ تاہم اس میں بھی وقت لگتا ہے۔ اور اگر ذہنی سطح کم ہو تو پھر نتیجہ فکر کا انتشار ہی ہو سکتا ہے۔ آدمی اگر خوش قسمت ہو اور کوئی استاد بر وقت اس کا ہاتھ تھام لے تو یہ سفر آسان ہو جاتا ہے۔
ترجیحات کا سوال بھی اہم ہے۔ میں ایسے مضامین شوق سے پڑھتا ہوں جن میں لوگ اپنی مطالعاتی ترجیحات بیان کرتے ہیں یا سال بھر کے منصوبوں کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ کن کتابوں کا مطالعہ ترجیحی بنیاد پر کریں گے۔ ایسے مضامین پڑھ کر، مجھے اکثر حیرت ہوتی ہے کہ مذہب اور سماجی علوم سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کی ترجیحات میں کہیں الہامی ادب شامل نہیں ہوتا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اس نوع کی کسی تحریر میں یہ پڑھا ہو کہ اس سال قرآن مجید میری ترجیحات میں سرِ فہرست ہے یا اس سال میںعہد نامہ جدید پڑھوں گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ اکثر مذہب، تقابلِ ادیان اور سماجی علوم کے بارے میں اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔
الہامی ادب کی نسبت عالم کے پروردگار کی طرف ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں تو طے ہے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اس نے خود اٹھایا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ آسمان سے اترا ہوا ہے۔ جن لوگوں نے اسے کبھی انسانی کلام کی طرح بھی نہیں پڑھا ہے، اسلام کے باب میں ان کی بات علم کی دنیا میں قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ طب کے میدان میں اس کی رائے پر کوئی اعتبار نہیں کرتا جس نے طب کی بنیادی کتابوں کا مطالعہ نہ کیا ہو لیکن اُس کا یہ حق مان لیا جاتا ہے کہ وہ بلا تکلف مذہب پر گفتگو کرے جس نے کبھی قرآن مجید یا بائیبل کو نہ پڑھا ہو۔
مطالعے کی ایک سطح عمومی ہے اور ایک خصوصی۔ عمومی سطح پر ہر فرد کے لیے لازم ہے وہ اخلاقیات، مذہب، ادب اور فلسفے کا کم از کم مبادیات کی سطح پر مطالعہ کرے۔ ادب میں، میرے نزدیک الہامی ادب کو ترجیح ہے۔ ادب اور فلسفے کو تو تعلیمی نصاب کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ مدارس میں بھی اور جدید تعلیمی اداروں میں بھی۔ فلسفے کی تعلیم کے بغیر منطقی اور عقلی انداز میں سوچنے کا مزاج پیدا نہیں ہوتا اور ادب کے بغیر تہذیبِ نفس ہو سکتی ہے نہ طبیعت میں لطافت ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ چونکہ یہ دونوں مضامین ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں، اس لیے عام آدمی کو چاہیے کہ اپنے طور پر اس طرح کی کتابیں پڑھے اور بچوں کو بھی پڑھائے۔
مطالعے کی دوسری سطح خصوصی ہے۔ کسی مضمون میں ماہرانہ رائے کے لیے لازم ہے کہ کسی نے تخصص کے درجے میں اس مضمون کا علم حاصل کیا ہو۔ اس سے مراد کسی خاص ادارے کی سند نہیں۔ کوئی بھی اپنے مطالعے کو وسعت دے کر خود کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ ایک علم کا ماہر قرار پائے۔ حکومتوں کو چونکہ ملازمتوں کے لیے کوئی نہ کوئی معیار مقرر کرنا ہوتا ہے تاکہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو یا یہ تاثر پیدا نہ ہو، اس لیے وہ سند کی قید لگاتی ہیں اور یہ درست ہے؛ تاہم سماجی سطح پر کسی فرد کی علمی حیثیت کا تعین اس کے کام سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اس نے کیا لکھا، کتنا لکھا اور کس معیار کا لکھا۔ پھر یہ کہ اس علم کے ماہرین اس کے نتائجِ فکر کو کیا درجہ دیتے ہیں۔
ابلاغ کے ذرائع نے اگرچہ حصولِ علم کے ذرائع کو وسعت دے دی ہے لیکن کتاب کی ایک حیثیت تہذیبی بھی ہے۔ میری نسل کے لیے تو کتاب کے بغیر علم کا تصور محال ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کتاب کے ساتھ تعلق رویے کی تشکیل میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میرے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ حصولِ علم کے دیگر ذرائع کتاب کا متبادل ہو سکتے ہیں؛ تاہم اس کا تعلق میرے کہنے سے نہیں۔ یہ سماجی ارتقا ہے جو نہیں معلوم ہمیں کہاں لے جائے۔ مری خواہش البتہ یہ ہو گی کہ مطالعے کا شوق ایک سماجی قدر بن جائے۔ اس کے ساتھ صاحبانِ مطالعہ لوگوں کی راہنمائی کرتے رہیں کہ نئے پڑھنے والے درست ترجیحات کے ساتھ مطالعہ جاری رکھیں جو نشاطِ فکر کا باعث بنے اور نشاطِ طبیعت کا بھی۔