اس ملک میں کب تک الٹی گنگا بہتی رہے گی؟
قوم کسی اکیڈمی میں نہیں بنتی۔ یہ کارگہ حیات ہے جہاں لوگ وقت کی کسوٹی پر پرکھے جاتے اور پھر بحیثیت قوم اپنا وجود منواتے ہیں۔ قوم کسی انسٹرکٹر کی چھڑی سے ہانک کر نہیں بنائی جاتی۔ یہ لیڈر ہے جس کا عزم اور کردار ایک قوم کی بنیاد رکھتا ہے۔ بایں ہمہ ادارے قوم نہیں بناتے، یہ قوم ہے جو ادارے تخلیق کرتی ہے۔ ہم نے اس ترتیب کو الٹ ڈالا۔ ہم نے گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھ دیا۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں قریب تھا کہ تلواریں چل جاتیں۔ انبیا کے بعد سب سے برگزیدہ انسان، مدبرِ اعظم، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی آواز گونجی اور سناٹا چھا گیا۔ انہوں نے انصار کے لیڈر سعد بن عبادہؓ کو مخاطب کیا: ''تم جانتے ہو کہ رسول اللہؐ نے فرمایا تھا کہ قیادت (خلافت) قریش میں ہو گی‘‘۔ اس جملے میں موجود بصیرت برہانِ قاطع ثابت ہوئی اور تلواریں نیاموں میں چلی گئیں۔ مجلس برخواست ہوئی تو شرکا ایک متفقہ فیصلے تک پہنچ چکے تھے۔
اس جملے میں کیا تھا؟ دینی حکم؟ ایک امرِ واقعہ کا بیان؟ ایک خبر؟ ابن خلدون نے اس پر کلام کیا اور ایک مرحلے پر برصغیر کے اہلِ علم نے بھی، جب تحریکِ خلافت برپا ہوئی۔ اگر یہ دین کا حکم ہے تو پھر عثمانیوں کا حقِ خلافت کیسے ثابت ہے؟ مولانا احمد رضا خان، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسے اہلِ علم نے اپنی اپنی تحقیق سے مسلمانوں کی راہنمائی کی۔ ایک رائے یہ سامنے آئی کہ یہ امرِ واقعہ کا بیان تھا۔ عرب قوم نے ایک ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد قریش کو اپنی قیادت سونپ دی ہے۔ اب وہی ہیں جن کے ہاتھ میں لگام ہو گی تو یہ قوم چل سکے گی۔
لیڈر قوم کی اجتماعی بصیرت کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ وہی قوم کے مزاج، ساخت اور سماجی تشکیل کو سمجھتے ہیں۔ وہی جان سکتے ہیں کہ قوم کو کس طرح کے اداروں کی ضرورت ہے اور ان کی ساخت کیسی ہونی چاہیے۔ کسی قوم کو اقتدار میسر نہ ہو تو وہ سماجی ادارے بناتی ہے۔ جیسے عبادت گاہ۔ جیسے مکتب۔ جیسے چوپال۔ جیسے جرگہ۔ اگر اقتدار میسر آ جائے تو ریاستی ادارے بناتی ہے۔ جیسے قانون سازی کے لیے پارلیمان ۔ جیسے دفاع کے لیے فوج۔ جیسے تنازعات کے حل کے لیے عدالت۔
اس طرح جو ادارے وجود میں آتے ہیں، وہ قومی امنگوں کے ترجمان ہوتے ہیں۔ وہ قومی مزاج کے عکاس ہوتے ہیں۔ یوں ان کے فیصلوں کو بالواسطہ عوامی تائید میسر ہوتی ہے۔ یہی عوامی تائید ہے جو معاشروں اور ریاستوں میں استحکام پیدا کرتی ہے۔ کوئی نظمِ اجتماعی جب عوامی تائید سے محروم ہو جائے تو قائم نہیں رہ سکتا۔ جبر سے اس کے زوال کو کچھ دیر مؤخر تو کیا جا سکتا ٹالا نہیں جا سکتا۔ اچھے سے اچھے نظام کا مقدر ناکامی ہے اگر وہ عوام کے اجتماعی شعور سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ادارے ہیں جنہیں قوم تشکیل دینی چاہیے۔ دلیل یہ ہے کہ اداروں کے لوگ زیادہ محبِ وطن ہیں۔ زیادہ با صلاحیت ہیں۔ زیادہ دیانت دار ہیں۔ ان کی بصیرت زیادہ قابلِ بھروسہ ہے۔ تاریخ اگرچہ اس دعوے کو تشکیک کی نظر سے دیکھتی ہے لیکن اگر بر سبیلِ تذکرہ اس دعوے کو درست مان لیا جائے تو بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اداروں کو قوم کی تشکیل کا کام سونپ دینا چاہیے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ ماں بیٹی کو جنم دیتی ہے، بیٹی ماں کو نہیں۔ یہ عوامی لیڈر ہیں جو قوم کو سمجھ سکتے ہیں۔ وہی قومی مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے پیشِ قدمی کر سکتے ہیں۔ وہی قریش والی روایت۔
تاریخ یہ ہے کہ جب اداروں نے قوم کا نصب العین طے کرنے کی کوشش کی یا اپنی بصیرت سے کوئی نظام دینا چاہا تو قوم نے اسے اگل دیا۔ جنرل ایوب خان کا صدارتی نظام اس کی ایک مثال ہے۔ ان سے پہلے یہاں آئین سازی کی جو مشق ہوئی اور جس میں قوم کے نمائندے شریک تھے، انہوں نے ملک کے لیے پارلیمانی نظام تجویز کیا۔ ایوب خان نے اس کے برعکس نظام دینا چاہا‘ جسے مسترد کر دیا گیا۔
تاریخ سیکھنے کے لیے ہوتی ہے مگر ہمارے لیے محض باعثِ افتخار ہے۔ ہم ان تمام ناکام تجربات کے باوجود، آج بھی قوم سازی اور ادارہ سازی کا کام اداروں کو سونپ دینا چاہتے ہیں۔ آج ضرورت اس کے برعکس ہے۔ ہمیں قومی امنگوں کے مطابق اداروں کی تشکیلِ نو کرنی ہے۔ یہ سمجھانا ہے کہ ادارے ملک اور قوم کے لیے ہیں نہ کہ ملک اور قوم اداروں کے لیے۔
جب ہم الٹی گنگا بہانا چاہتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ تصادم ہے۔ تصادم کی کیفیت میں فتح و شکست کی نفسیات وجود میں آتی ہے۔ ایک فریق کی فتح دوسرے کی شکست میں ہوتی ہے۔ ہر فریق دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کی معرکہ آرائی میں صرف شکست ہوتی ہے، فتح نہیں۔ ذرا کسی ایسے ملک کے مستقبل کے بارے میں تصور کیجیے جس میں لوگ اور ادارے تصادم کی کیفیت میں ہوں۔ کیا ہمارے ذمہ دار پاکستان کو تصادم کی راہ پر چلانا چاہتے ہیں؟ شیخ مجیب الرحمن اور اداروں کے تصادم کا انجام کیا ہمارے سامنے نہیں ہے؟ یہ اس کے باوجود ہوا کہ عوامی لیگ کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑی تھیں۔
آج انتشار ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی بہت سی جہتیں ہیں۔ لسانی بھی اور سیاسی بھی۔ معاشی بھی اور سماجی بھی۔ وکلا احتجاج کے لیے پر تول رہے ہیں۔ حکومت نے قبائلی علاقوں میں انتخابات ملتوی کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا ہے۔ ہر فریق چاہتا ہے کہ اس انتشار کا انجام اس کی فتح پر ہو۔ میں بتا چکا کہ اس طرح کی معرکہ آرائی میں کسی کی فتح نہیں ہوتی۔ ہمیں بہت جلد اس تصادم کی کیفیت سے نکلنا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب قوم اور اداروں کا باہمی تعلق فطری اصولوں پر استوار ہو جائے۔ جب ایک کی فتح کے لیے دوسرے کی شکست ضروری نہ ہو۔
عمران خان کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ قوم میں وحدتِ فکر و عمل پیدا نہیں کر سکے۔ انہوں نے انتشار میں اپنی قوت تلاش کی۔ معاشی بد حالی ان کی دوسری بڑی ناکامی ہے۔ وہ یہ جان ہی نہیں سکے کہ قوم سازی میں وحدت کی کیا اہمیت ہو تی ہے اور ترجیحات کا تعین کتنا ضروری ہے۔ وہ نرگسیت کے حصار میں اس طرح قید ہیں کہ انہیں اس نفسیاتی عارضے کے اثرات کا اندازہ نہیں ہو رہا ہے جو ان کی ذات تک محدود نہیں رہے، پوری قوم کو اپنی گرفت میں لے رہے ہیں۔
حل ایک ہی ہے: قوم سازی اور ادارہ سازی کا کام قوم کے نمائندوں کو سونپ دیا جائے۔ ریاستی ادارے تمام تنازعات سے بلند ہو جائیں۔ تمام سیاسی گروہوں کے لیے ان اداروں کی حیثیت یکساں محترم ہو۔ اس سے بڑھ کر ہماری بد قسمتی کیا ہو گی کہ بہادر پاک فوج کے اُن خوب صورت جوانوں کا لہو اس قوم میں متنازعہ ہو جائے جنہوں نے اپنی جوانی اس سرزمین پر نچھاور کر دی۔ سوال یہ ہے کہ کون ہے جو اس پاک خون کو تنازعات کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے؟
ہمیں اس سوال کا جواب ہی تلاش نہیں کرنا، اس لہو کی حرمت کو بھی قائم کرنا ہے۔ ہم نے اس تصادم کی کیفیت سے نکلنا ہے جس کے انجام میں کسی کی فتح نہیں ہوتی۔ کل غدار غدار کی رٹ لگا کر ہم نے آدھا ملک گنوا دیا۔ آج ہم کیا چاہتے ہیں؟ قوموں میں غدار پیدا ہو جاتے ہیں اور چور بھی۔ ایک مبینہ غدار یا ایک مبینہ چور کے لیے پوری قوم کا مستقبل داؤ پر نہیں لگایا جانا چاہئے۔
آغاز وہیں سے ہو گا جہاں سے خرابی نے جنم لیا۔ جہاں گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھے کا فیصلہ ہوا، وہیں اس ترتیب کو بدلنا ہو گا۔ وہاں ہی یہ ادراک پیدا ہونا ضروری ہے کہ ادارے قوم نہیں بناتے۔ یہ قوم ہے جو ادارہ سازی کر تی ہے۔ الآئمہ من القریش۔