"KNC" (space) message & send to 7575

اہلِ دانش تاریخ کی عدالت میں

گستاخی معاف، اگر اہلِ دانش کے پاس قوم کو درپیش مسائل کا حل موجود نہیں تو انہیں رضاکارانہ طور پر منصبِ راہنمائی سے الگ ہو جانا چاہیے، جس پر وہ از خود فائز ہیں۔ قوم کم از کم اس پراگندگیٔ فکر سے تو محفوظ رہے گی جسے اخبارات اور ٹی وی سکرین کے ذریعے بانٹا جا رہا ہے۔
کوائف دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی کسی یونیورسٹی کا پروفیسر ہے یا تھا۔ کوئی کسی تحقیقی ادارے کا سربراہ رہ چکا۔ سماجی علوم میں اعلیٰ ترین ڈگری لے رکھی ہے اور وہ بھی مغرب سے جہاں ڈگریاں ریوڑیوں کی طرح نہیں بٹتیں، تحقیق کا حق ادا کرنا پڑتا ہے۔ کسی کے پاس صحافت کا طویل تجربہ ہے۔ بظاہر تاریخ، ادب اور مذہب پر نظر ہے۔ حیرت سے آدمی سوچتا ہے کہ اس علم اور تجربے کا حاصل کیا یہی انتشارِ فکر ہے؟ فکر کے سوتے کیا خشک ہو چکے؟ باہر سے سیکھے ہوئے سماجی علوم کا اطلاق اپنے ملک پر کیوں نہیں؟
مثال کے طور پر ان کو پڑھیے تو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ جمہوریت کے حق میں لکھ رہے ہیں یا مذمت میں۔ ایک طرف وہ بتاتے ہیں کہ اہلِ سیاست معاشرے کے بد ترین لوگ ہیں۔ یہ ملک اگر سانس لے رہا ہے تو ایک آدھ ریاستی ادارے کی وجہ سے‘ جس نے اپنا فرض جاں فشانی سے نبھایا ہے۔ اسی نے ملک کو داخلی اور خارجی دشمنوں سے بچا رکھا ہے۔ اگلی سطر میں وہ اپنا یہ عقیدہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ 'میں تو جمہوریت کو ترجیح دیتا ہوں‘۔ اب اہلِ سیاست کے بغیر جمہوریت کا تصور محال ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی سیاسی نظام معاشرے کے بد ترین لوگوں کے حوالے کر دیا جائے تو وہ کسی ذی عقل کی ترجیح کیسے ہو سکتا ہے؟
یا پھر اپنی گفتگو میں یہ حضرات کسی صاحب کی تعریف کریں گے کہ کیا دبنگ آدمی تھا۔ فیصلہ کرتے وقت قانون اور آئین کی مطلق پروا نہیں کرتا تھا۔ اگر کسی نے ڈلیور کیا تو وہی تھا۔ اس کے بعد اُس کے دبنگ فیصلوں کے چند نظائر پیش کریں گے اور پھراستفہامی انداز میں اپنا فیصلہ سنائیں گے: اگر وہ ایسا نہ کرتا تو کیا بڑے بڑے ڈاکو شکنجے میں آ سکتے تھے؟ ساتھ ہی اگلی سانس میں وہ یہ درس بھی دیں گے کہ سماج قانون کے احترام ہی سے قائم رہ سکتا ہے۔ اب سننے والے سر پکڑ کے بیٹھے ہیں کہ اس گفتگو سے کیا نتیجہ اخذ کریں؟
اس انتشارِ فکر کے مظاہر جس طرح دائیں طرف پائے جاتے ہیں، اسی طرح بائیں طرف بھی موجود ہیں۔ مذہبی اور لبرل ایک طرح سے اس انتشار سے دوچار ہیں۔ اگر کہیں اکا دکا فکری یک سوئی کے نمونے پائے جاتے ہیں تو وہ زیادہ تر لبرل طبقے میں ہیں؛ اگرچہ دایاں بازو اس سے مطلق خالی نہیں۔ لبرل طبقے میں چند نفوس ایسے ضرور موجود ہیں جو ایک مرتب سوچ رکھتے ہیں اور سماج کی ترقی اور ارتقا کا ایک واضح نقشہ ان کے سامنے ہے۔ مجھے ان کے کئی نکات سے اتفاق نہیں لیکن اس میں شبہ نہیں کہ ان میں غور و فکر کا بہت سا سامان موجود ہے۔ 
یہ انتشارِ فکر نیا نہیں، ہماری تاریخ کا جزوِ لا ینفک ہے۔ آج یہ اپنے نتائج کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دکھائی دیتا ہے کہ اب یہ کسی غیر معمولی تبدیلی پر منتج ہو گا۔ میرا خدشہ ہے کہ یہ تبدیلی مثبت نہیں ہو گی۔ دنیا جن سے ایک صدی پہلے گزر چکی، ہم اب ان پامال راستوں پر قدم رکھنے جا رہے ہیں۔ یورپ نے انیسویں اور بیسویں صدی میں فاشزم کا تجربہ کیا، ہم آج اس کو دہرانا چاہتے ہیں۔ وہ آج جس کے اثرات سے جان چھڑا رہے ہیں، ہم اسے گلے لگا رہے ہیں۔ جرمنی اپنی تاریخ کے اس دور سے بارہا اعلانِ برات کر چکا‘ جو ہٹلر سے منسوب ہے۔ نازی ازم کا ذکر ایک جرم سے کم نہیں۔ ہم یہاں مقامی ہٹلر تراش رہے ہیں۔
خونیں انقلاب بھی آج دنیا کے لیے قصۂ پارینہ اور ایک تلخ یاد ہے۔ اشتراکیت کے زیرِ اثر انقلاب کا جو تصور مقبول ہوا، اس میں انسانی لہو بہائے بغیر ایک نئے دور کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ ماؤ اور لینن نے اس کے بیان میں کوئی حجاب نہیں رکھا۔ آج دنیا اس کو مسترد کر چکی اور جمہوریت پر ایمان لا چکی جو انتقالِ اقتدار کا پرامن طریقہ ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ایک وفاقی وزیر پانچ ہزار افراد کو تہ تیغ کرنا چاہتا ہے۔ برادرم رؤف کلاسرا انکشاف کر چکے کہ یہ محض ایک فرد کی خواہش نہیں، اسے اعلیٰ ترین سطح پر، ایک سنجیدہ تجویز کے طور پر زیرِ بحث لایا گیا۔ 
یہ صورتِ حال بتا رہی ہے کہ آج کے حالات کتنے گمبھیر ہیں۔ ایسے مواقع پر اہلِ دانش قوم کا ہاتھ تھامتے اور اسے واضح منزل کا سراغ دیتے ہیں۔ وہ تاریخ کے مطالعے سے نتائجِ فکر کشید کرتے اور معاشرے پر اس کا اطلاق کرتے ہیں۔ وہ سماجی علوم میں سامنے آنے والی تحقیق کی روشنی میں واضح کرتے ہیں کہ دنیا میں انسانی اور مادی وسائل کی ترقی کیسے ممکن ہے۔ مذہبی علوم کے ماہرین قوم کا ہاتھ پکڑتے اور بتاتے ہیں کہ آسمان سے اترنے والا الہام، ایسے مواقع پر کیا راہنمائی دیتا ہے۔
افسوس کہ سیکولر اہلِ دانش کے پاس آج انتشارِ فکر کے سوا کچھ نہیں، الا ماشااللہ۔ وہ لکھتے ہیں اور بولتے بھی ہیں لیکن ان کو پڑھ اور سن کر کوئی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔ آدمی الجھتا اور پکار اٹھتا ہے 'کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘۔ مذہبی لوگوں کے پاس بشارتیں ہیں یا پھر عالمی جنگ کی پیش گوئیاں۔ ایسے میں ایک عام آدمی کیا کرے: جنگل کا رخ کرے یا جنگ کی تیاری؟
اہلِ دانش سے درد مندانہ گزارش ہے کہ وہ آج کے حالات میں قوم کی واضح راہنمائی کریں۔ حل ایک سے زیادہ تجویز کیے جا سکتے ہیں مگر کسی کے پاس کوئی حل موجود تو ہو۔ اگر ہمیں اس انتشارِ فکر سے نکلنا ہے تو چند بنیادی باتوں پر اتفاق رائے ضروری ہے:
1۔ ہمیں اس ملک کو جمہوری جدوجہد سے تبدیل کرنا ہے یا انقلابی طریقے سے؟ اگر جمہوریت ہو گی تو اس کا ناگزیر نتیجہ یہ ہے کہ اس کی باگ اہلِ سیاست کے ہاتھ میں دینا ہو گی۔ اس مقدمے کے چند مضمرات ہیں جن پر ہمیں یک سو ہونا ہے۔
٭ سیاست دان برے ہو سکتے ہیں اور اچھے بھی۔ بروں کو اچھا بنانے یا ان سے نجات کے لیے ہمیں وہی طریقے اختیار کرنا ہوں گے جو جمہوریت میں روا ہیں۔
٭ آزادیٔ رائے کے بغیر جمہوریت کے پودے پر پھل پھول نہیں آ سکتے۔ ہمیں آزادیٔ رائے کو ایک قدر کے طور پر عملاً اختیار کرنا ہو گا۔
اگر ہم انقلابی طریقے سے تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کے اپنے مضمرات ہیں۔
٭ ملک میں ایک طبقے یا چند افراد کے خلاف ہیجان برپا کر کے حکومت انہیں عوامی تائید سے تہ تیغ کر ڈالے۔
٭۔کالم نگار اور ٹی وی اینکر مل کر ان کے خلاف فضا بنائیں تاکہ انہیں نظام کے ذریعے یا ماورائے نظام ختم کر دیا جائے۔ وہی بات جو ایک وفاقی وزیر کہہ رہے ہیں۔
٭ نظام عدل آئین یا قانون کے بجائے، اس ہیجان کی روشنی میں چلے۔
2۔ ہمیں آئین اور قانون کے تحت زندگی گزارنا ہے یا ہمیں سلطانہ ڈاکو اور رابن ہڈ طرز کا انصاف چاہیے۔ آخر وہ بھی امیروں سے چھینتے اور غریبوں میں تقسیم کرتے تھے۔
3۔ ہمیں نئے عالمی نظام سے ہم آہنگ ہونا ہے یا متصادم؟ ہم آہنگ ہونے کے اپنے مطالبات ہیں اور متصادم ہونے کے بھی اپنے نتائج ہیں۔ ہمارے سامنے چین کا ماڈل ہے اور ایران کا بھی۔ چین عالمی نظام سے ہم آہنگ رہ کر اپنی بقا اور خود مختاری کی حفاظت کر رہا ہے اور ایران متصادم ہو کر۔ دونوں کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔
اہلِ دانش کو اب صاف صاف بتانا ہو گا کہ اس ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے ان کے پاس کیا نسخہ ہے! اگر ان کے پاس کوئی حل نہیں تو پھر انہیں رضاکارانہ طور پر راہنمائی کے منصب سے معزول ہو جانا چاہیے۔ قوم کو کم از کم اس پراگندگیٔ فکر سے تو نجات ملے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں