'نیا پاکستان‘ بن رہا ہے مگر مجھے اپنا شاعر اور ادیب کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ وہ اِس کے حق میں ہے تو تشکیلی عمل کا حصہ کیوں نہیں؟ خلاف ہے تو مزاحمت کیوں نہیں کرتا؟
جب اصل پاکستان بن رہا تھا ،تب تو ایسا نہیں تھا۔ بر صغیر کا شاعر اور ادیب تحریکِ پاکستان کا حصہ تھا یا مزاحمتی تحریک میں شامل تھا۔ وہ دو قومی نظریے کا حامی تھا یا متحدہ قومیت کا ۔ نقطہء نظر سے قطع نظر، وہ اپنے عہد سے غافل نہیں تھا۔ وہ تاریخی عمل کا حصہ تھا۔ اس کے نزدیک یہ اس کے فن کا تقاضا تھا کہ وہ لب و رخسار کے حصار سے نکلے اور گرد و پیش میں آنے والی تبدیلیوں کو کھلی آنکھ سے دیکھے۔ نہ صرف دیکھے بلکہ منظر کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس نے اپنا کردار نبھایا۔ وہ ایسا نہ کرتا تو تاریخ اسے کبھی معاف نہ کرتی۔
اختر حسین رائے پوری کا تاریخ ساز مضمون '' ادب اور زندگی‘‘ جولائی 1935ء میں ماہنامہ '' اردو‘‘ میں شائع ہوا۔ مولوی عبدالحق اس کے مدیر تھے۔ اس مضمون میں، سماج کی تشکیل میں ادیب کا کردار زیرِ بحث ہے۔ یہ کہا گیا کہ حالی کے ''مقدمہ شعر و شاعری‘‘ کے بعد ، یہ وہ مضمون ہے جس نے اردو ادب کے مزاج کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ مضمون نہ لکھا جاتا تو شاید ادب میں ترقی پسند تحریک بھی برپا نہ ہوتی۔
اپریل 1936ء میں، ناگ پور میں گاندھی جی کی صدارت میں اہلِ ادب کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس موقع پر اختر حسین رائے پوری کا لکھا ہوا ایک اعلامیہ پڑھا اور اختیار کیا گیا۔ رائے پوری کے الفاظ میں ''اس اعلان نامے کا مقصد جدید ادب کے مسلک کو ایسے موقع پر آشکار کرنا تھا جب گاندھی جی نے خواہ مخواہ اردو ہندی کا تنازع چھیڑ کر اس جلسے کی فضا کو مکدر کر دیا تھا‘‘۔
اس اعلان نامے پر جواہر لال نہرو ، پریم چند، مولوی عبدالحق اور اختر حسین رائے پوری جیسے لوگوں نے دستخط کیے۔ اس میں کہا گیا: '' ادب کے مسائل کو زندگی کے دوسرے مسائل سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی مکمل اکائی ہے۔ اسے ادب ، فلسفہ، سیاست وغیرہ کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ ادب زندگی کا آئینہ ہے، یہی نہیں بلکہ وہ کاروانِ حیات کا رہبر ہے۔ اسے محض زندگی کی ہم رکابی ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اس کی رہنمائی بھی کرنا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری زندگی کدھر جا رہی ہے اور اسے کدھر جانا چاہیے۔ ادیب انسان بھی ہے اور اسے سماج کی ترقی کے لیے اتنا تو کرنا ہی ہے جو ہر انسان کا فرض ہے۔
انسانیت کے نام پر ہم پوچھتے ہیں کہ کیا آج ،جب ترقی و پستی کی طاقتوں میں فیصلہ کن جنگ شروع ہو چکی ہے، ادب خود کو غیر جانبدار رکھ سکتا ہے؟ کیا حُسن، آرٹ وغیرہ کا نقاب پہن کر وہ کار زارِ حیات سے راہِ فرار اختیار کر سکتا ہے۔ کیا وہ واقعہ نگاری کی فصیل پر بیٹھ کر انقلاب و رجعت کی تصویر لے سکتا ہے؟‘‘
یہ وہ عہد ہے جب ادیب ،شاعر اور سیاست دان کا رشتہ بہت گہرا تھا۔ ادیب سیاسی تحریکوں میں متحرک تھے اور اگر نہیں تھے تو اہلِ سیاست سے ان کے قریبی مراسم تھے۔ اقبال تصورِ پاکستان کے خالق تھے مگر ان کے تعلقات جواہر لال نہرو سے بھی تھے۔ اہلِ سیاست جب شاعروں اور ادیبوں کی صحبت میں رہتے تھے تو ان کے لب و لہجے میں ان صحبتوں کا اثر ہوتا تھا۔ یوں ادیب سیاست کو فکری حوالے ہی سے نہیں، سیاسی کلچر کے پہلو سے بھی متاثر کرتا تھا۔ اقبال اور ابوالکلام جس سیاست کا حصہ ہوں، اس کے بانکپن کا کیا کہنا! ہم نے بھی ایسی سیاست کا مزا چکھا جب سید مودودی، ممتاز دولتانہ اور نواب زادہ نصراللہ خان جیسے لوگ اس کا حصہ تھے۔
قیامِ پاکستا ن کے بعد بھی، ادیب اور شاعر نے زندگی اور معاشرے کو درپیش مسائل سے صرفِ نظر نہیں کیا۔ یہ ترقی پسند تحریک ہو یا ادبِ اسلامی کی تحریک، ادیبوں نے ایک آدرش کو سامنے رکھتے ہوئے، ملک و قوم کے مسائل کو موضوع بنایا۔ گہری نظریاتی تقسیم کے باوصف، ابنِ آدم سے محبت، ادیب کی پہلی ترجیح تھی۔ اس کی فکری شناخت جو بھی ہو، ظلم اسے گوارا نہیں تھا۔ مخدومی پروفیسر فتح محمد ملک نے پاکستانی ادیبوں اور شاعروں کی نگارشات کو دو وقیع کتابوں میں جمع کر دیا ہے جو فلسطین اور کشمیر میں برپا ظلم کے خلاف سامنے آئیں۔
حبیب جالب اس روایت کی ایک درخشاں مثال ہیں۔ ایوب خان کی آمریت نے پاکستانی معاشرے کو اپنے حصار میں لیا تو وہ کھڑے ہو گئے۔ 'صدر ایوب زندہ باد‘ جیسی نظمیں لکھیں اور محترمہ فاطمہ جناح کے ہم رکاب ہو گئے۔ یہی حبیب جالب تھے جو بھٹو صاحب کے خلاف بھی کھڑے ہو گئے جب انہوں نے فسطائی ہتھکنڈے استعمال کیے۔ وہ نظریاتی طور پر بھٹو صاحب سے قریب ہونے کے باوجود، اس قومی اتحاد کا حصہ تھے جس میں جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعتیں بھی شامل تھیں، جن کے افکار سے، ان کو دورکا بھی واسطہ نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ظلم اگر جماعت اسلامی کے طفیل محمد پر ہوتا ہے اور بھٹو صاحب کی حکومت میں ہوتا ہے تو مظلوم کے خیالات سے قطع نظر، انہیں ظالم کے ساتھ نہیں، مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔
کیا آج کا ادیب ا ور شاعر اس روایت سے وابستہ ہے؟ کیا وہ خود کو حبیب جالب کا جانشین سمجھتا ہے؟ کیا وہ باخبر ہے کہ سماج اور ریاست کس ڈگر پر چل نکلے ہیں؟ کیا وہ بنیادی حقوق کی صورتِ حال سے آگاہ ہے؟ کیا وہ جانتا ہے کہ آج قلم اور زبان کتنے آزاد ہیں؟ اگر وہ سمجھتا ہے کہ نئے پاکستان میں سب اچھا ہے تو پھر اسے خوشی کے گیت لکھنے چاہئیں۔ اسے ساحر کی طرح 'طلوعِ اشتراکیت‘ جیسی نظمیں تخلیق کرنی چاہئیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر فیض کی طرح ہمت دکھانی اور 'صبحِ آزادی‘ جیسی نظم کہنی چاہیے۔
2007ء میں، جب مشرف دور میں اظہار رائے پر پابندی لگی اور میڈیا کی آزادی کے لیے تحریک اٹھی تو اہلِ صحافت کو کسی شاعر کی کوئی نئی نظم نہ مل سکی‘ جس سے وہ اپنے جلسوں کو گرماتے۔ اپنے جذبات کو تسکین پہنچاتے۔ لے دے کر فراز کی 'محاصرہ‘ تھی جو جنرل ضیا کے دور میں لکھی گئی‘ یا پھر حبیب جالب کی وہ نظمیں جو ایوب اور بھٹو ادوار میں سیاسی جلسوں کی رونق تھیں۔ مجھے اُس وقت بھی معاصر ادب کی عہدِ حاضر سے لا تعلقی کا احساس ہوا۔
آج کا شاعرکہاں ہے؟ ادیب کہاں گیا؟ جواب ملتا ہے کہ وہ بیرونِ ملک مشاعرے پڑھتا، سفر کرتا اور ان حسین چہروں اور علاقوں کی منظر نگاری کرتا ہے جو ان اسفار میں اس نے دیکھے اور بار بار دیکھنے کی تمنا کرتا ہے۔ یا پھر ان میزبانوں کے قصیدے لکھتا ہے‘ جن کی فیاضی اور دستر خوان کی وسعت مسافروں کے لیے آسودگی کا سامان کرتی ہے۔ رہا ملک تو اس کے مسائل پر غور کے لیے اس کے پاس فرصت نہیں۔
اس میں اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ 'نیا پاکستان‘ بن رہا ہے۔ اس کے خد و خال وہ نہیں ہیں جو پہلے تھے۔ اس سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے۔ یہ طے ہے کہ ہم پاکستان کی تاریخ کے ایک فیصلہ کن مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔ تاریخ اس عہد کے ادیب اور شاعر سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس مرحلے پراپنا کردار ادا کرے۔ اگر 'نیا پاکستان‘ وہی ہے جس کا خواب اس نے دیکھا تو اسے آگے بڑھ کر اس کا خیر مقدم کرنا اور اس عمل میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو بھی اسے بولنا ہو گا۔ مؤرخ ہاتھ میں قلم اٹھائے اس عہد کے شاعر اور ادیب کو تلاش کر رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں سوال ہے: حلقہ اربابِ ذوق کہاں ہے؟ ترقی پسند تحریک کی باقیات کس حال میں ہیں؟ ادبِ اسلامی کا حلقہ کیا ہوا؟ ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟