میرے سامنے جب ایک معرکہ برپا تھا تو میں نے اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالا؟
میرا احساس ہے کہ کشمکشِ حیات میں یہ سوال، ہر اُس انسان کے سامنے کھڑا رہتا ہے جو سوچتا ہے۔ سماج میں کسی نہ کسی حوالے سے، ہر وقت ایک کشاکش جاری رہتی ہے۔ کبھی اس کی نوعیت فیصلہ کن ہو جاتی ہے۔ اتنی فیصلہ کن کہ اس میں غیر جانب داری یا لا تعلقی جرم بن جاتی ہے۔ اس سوال کا تعلق کسی کی فتح و شکست سے بھی نہیں ہے۔ یہ خارج کا نہیں، داخل کا معاملہ ہے۔ محتسب صرف باہر نہیں ہوتے، ایک محتسب ہمارے اندر بھی ہوتا ہے۔ انسان اس کے سامنے بھی جواب دہ ہوتا ہے۔
مذہب کی تعبیر یہ ہے کہ پیغمبر کی موجودگی میں حق اور باطل، دو اور دو چار کی طرح واضح ہو جاتے ہیں۔ فیصلہ مشکل نہیں ہوتا۔ نبی مگر اب نہیں آئیں گے۔ ہم ختمِ نبوت کے دور میں زندہ ہیں۔ اب یہ فیصلہ مشکل ہے۔ اب یہ تقسیم اتنی واضح نہیں ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ سراپا خیر ہو اور دوسرا سراپا شر۔ اگر جزئیات کی سطح پر موازنہ کیا جائے تو انسان ہمیشہ الجھا رہے کہ کس کا ساتھ دے اور کس کو رد کرے۔ ایسی صورتِ حال میں ایک وسیع تر تناظر کو سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ پھر معاملہ جزوی نہیں، کلی تقابل کا تقاضا کرتا ہے۔
ایک مثال سے بات کی تفہیم آسان ہو جائے گی۔ جب تحریکِ پاکستان کا معرکہ درپیش تھا تو ہند کے مسلمانوں کو ایک فیصلہ کرنا تھا۔ آزاد متحدہ ہندوستان یا قیامِ پاکستان؟ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا، دلائل کے اعتبار سے بھی اور شخصیات کے حوالے سے بھی۔ تاریخی واقعے پر حکم لگانا آسان ہوتا ہے کہ اس کے نتائج ہم بچشمِ سر دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ ایک ایسے معاملے میں فیصلہ دینا بہت مشکل ہوتا ہے جسے ابھی واقعہ بننا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہند کے مسلمانوں کو بھی تھا۔
ایک طرف مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیات تھیں اور دوسری طرف قائد اعظم۔ پھر اس معاملے کی ایک جہت مذہبی بھی تھی اور اس معاملے میں تقسیمِ ہند کے مخالفین کا پلڑا بھاری تھا۔ مولانا آزاد اور مولانا مدنی پر ایک جدید طرزِ زندگی رکھنے والے قانون دان کو ترجیح دینا آسان نہیں تھا۔ اکثریت نے مگر قائد اعظم کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ یہ اسی وقت ممکن ہوا جب معاملے کو جزئیات کے بجائے وسیع تر تناظر میں دیکھا گیا۔ ا س کو پیر جماعت علی شاہ صاحب نے آسان استدلال کے ساتھ بیان کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو اس وقت کسی مذہبی پیش وا کی نہیں، ایک وکیل کی ضرورت ہے۔ ایک اچھے وکیل میں جو خوبیاں ہونی چاہئیں، وہ محمد علی جناح میں موجود ہیں۔ وہ قابلیت رکھتے ہیں اور دیانت دار بھی ہیں۔
سیاسی اتحاد بھی اسی اصول پر قائم ہوتے ہیں۔ ایک وسیع تر مقصد کو سامنے رکھا جاتا ہے اور جزئیات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ایوب خان کی آمریت جب وطن کے لیے جان لیوا دکھائی دینے لگی تو سیاسی قیادت نے جمع ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس پر اتفاق ہوا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو قائد اور صدارتی امیدوار مان لیا جائے۔ مولانا مودودی جیسے عالمِ دین کے لیے اسے قبول کرنا مشکل تھا‘ جو عورت کے لیے کسی طرح کے سیاسی کردار کے قائل نہیں تھے۔ ان کی یہ رائے بعد میں بھی تبدیل نہیں ہوئی اور آج بھی ان کی کتاب 'اسلامی ریاست‘ میں پڑھی جا سکتی ہے۔
اس وقت مگر پاکستان کے وسیع تر مفاد کا تقاضا یہ تھا کہ ملک کو آمریت سے نجات دلائی جائے۔ آمریت عورت کی حکمرانی سے کہیں زیادہ ضرر رساں تھی۔ عورت کی حمایت کا، اس وقت ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ فاطمہ جناح نے الیکشن جیت کر منصبِ صدارت سے دست بردار ہونے کا وعدہ کیا تھا۔ اگر اس کو درست مان لیا جائے تو بھی، اس امرِ واقعہ کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ فاطمہ جناح انتخابی مہم کی قائد تھیں اور سب ان کے پیچھے چل رہے تھے۔ میں اس واقعے کو مولانا مودودی جیسی شخصیات کی اجتہادی بصیرت کا ایک مظہر سمجھتا ہوں‘ جنہوں نے درست فیصلہ کیا۔ ورنہ وہ عورت کی حکمرانی کو ایک مسئلہ بنا کر اس معرکے سے الگ بھی رہ سکتے تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر آدمی اپنی حیثیت کے مطابق، زندگی میں بسا اوقات اس طرح کی آزمائش سے گزرتا ہے۔ اسے ایک فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس نے اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالنا ہے۔ یہ انسان کی بصیرت کا امتحان ہوتا ہے اور اس کی دیانت کا بھی۔ یہ چونکہ ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے، اس لیے ہم اختلاف کے باوجود، کسی دوسرے کے بارے میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ اس کا فیصلہ بے بصیرتی کا مظہر ہے یا بد دیانتی کا۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آج ایک بار پھر ہمیں بطور قوم ایک فیصلہ کرنا ہے۔ پاکستان کو ہم نے ایک آئینی اور جمہوری ریاست بنانا ہے یا ایک ایسا ملک جس میں کبھی طاقت ور کی مرضی قانون بن جائے اور کبھی وسیع تر مفاد قرار پائے؟ ایک فرد کی رائے، بیس کروڑ عوام کی رائے کا متبادل مان لی جائے یا عوام کے منتخب نمائندوں کو فیصلہ سازی کا حق دیا جائے؟
ان سوالات کا کوئی تعلق نواز شریف یا عمران خان سے نہیں ہے۔ شخصیات کا تقابل جزئیات میں الجھنا ہے۔ اگر ہم سارے قضیے کو شخصیات کے تناظر میں دیکھیں گے تو یہ بہت سطحی سوچ ہو گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس سارے معاملے کو ایک بلند تر سطح سے دیکھا جائے۔ یہ شخصیات کا نہیں، نظام کا معاملہ ہے۔ اگر ہم شخصیات میں الجھیں گے تو کبھی درست فیصلہ نہیں کر پائیں گے۔ وجہ وہی ہے کہ ہم نبوت نہیں، ختمِ نبوت کے دور میں کھڑے ہیں۔ معاشرہ خیر و شر کی قوتوں میں بالبداہت، منقسم نہیں ہے۔
2014ء کے بعد ہم مسلسل ڈھلوان کے مسافر ہیں۔ 2016ء تک ایک کشمکش کا دور تھا۔ ہم کبھی دو قدم پیچھے جاتے تھے تو پھر دو ایک قدم آگے۔ یوں امید کا ایک چراغ روشن تھا۔ 2016ء کے بعد، میرا خیال یہ ہے کہ امید کے چراغ بجھتے جا رہے ہیں۔ ایک اندھیری کھائی سامنے دکھائی دیتی ہے۔ ایک اجتماعی شعوری کوشش ہی ڈھلوان کے اس سفر کو روک سکتی ہے۔
ہمارے مسائل کا حل اجتماعی دانش میں ہے۔ یہ دانش اسی وقت بروئے کار آئے گی جب آزادیٔ رائے کو بطور قدر اختیار کیا جائے گا۔ جب عوام پر بھروسہ کیا جائے گا۔ جب سیاسی جماعتوں، علما، سول سوسائٹی اور میڈیا کو موقع دیا جائے گا کہ وہ قومی مکالمے میں شریک ہوں۔ جہاں کسی مؤقف کے رد و قبولیت کا فیصلہ اجتماعی بصیرت پر چھوڑ دیا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ جب اعتماد کی فضا پیدا ہو گی تو سب ایک دوسرے کے مددگار ہوں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ اجتماعی دانش ایک ایسے ہی ماحول میں بروئے کار آ سکتی ہے۔
بے اعتمادی کی فضا میں یہ ممکن نہیں۔ جہاں ایک دوسرے کی حب الوطنی پر شک کیا جائے، وہاں اجتماعی بصیرت کا اظہار نہیں ہو سکتا۔ میرے نزدیک ان لوگوں نے قوم پر بڑا ظلم کیا‘ جنہوں نے مذہب یا وسیع تر مفاد کے نام پر قوم کو تقسیم کیا۔ حیرت ہے کہ اس قوم کے دانش ور کو مذہبی فرقہ واریت کی نقصانات کا اندازہ ہے‘ لیکن سیاسی فرقہ واریت کے مضمرات کی خبر نہیں، وہ جسے پھیلانے میں دانستہ یا نادانستہ شریک ہے۔
میں یہ خیال کرتا ہوں کہ پاکستان آج پھر ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر آج ہم نے بطور قوم درست فیصلہ نہ کیا تو ہمیں برسوں خانہ بدوش کی زندگی گزارنا ہو گی۔ قوم کا سفر بے سمت ہو تو وہ جغرافیہ رکھتے ہوئے بھی خانہ بدوش ہوتی ہے۔ ایک فیصلہ کن معرکہ ہمارے سامنے برپا ہے: عوام یا خواص؟ عوامی جمہوریت یا آمریت؟ میرے سامنے سوال یہ ہے کہ اس فیصلہ کن معرکے میں، میرا وزن کس پلڑے میں ہے؟